حسن ِتدبیر
ایک صاحب میرے پاس تحفے کے طورپر مٹھائی کا پیکٹ لے آئے۔ میں نے کہا کہ میں اِس قسم کے تحفے کو پسند نہیں کرتا۔ آپ کبھی میرے لیے کوئی تحفہ نہ لائیں۔ انھوں نے کہا یہ مٹھائی ہمارے علاقے کی مشہور مٹھائی ہے۔ میں جب بھی کسی عالم یا بزرگ سے ملنے جاتا ہوں تو ہمیشہ اُس کے لیے یہ تحفہ لے کر جاتاہوں۔
گفتگو کے دوران معلوم ہوا کہ وہ ایک بڑی رقم کے قرض دار ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ میری ماں بیمار ہوگئی تھیں۔ میں نے اُن کے علاج کے لیے کچھ لوگوں سے قرض لیا جو اب تک ادا نہ ہوسکا۔ میں نے کہا کہ جب آپ کے اوپرقرض ہے تو آپ تحفے تحائف پر رقم کیوں خرچ کرتے ہیں۔ میں نے کہا کہ خرچ کو گھٹانا بھی آمدنی کو بڑھانا ہے۔آپ آج ہی یہ عہد کریں کہ آپ اپنے خرچ کو گھٹائیں گے۔ اِس طرح پیسہ بچا کر آپ اپنے قرض کو ادا کریں۔ عید کا زمانہ تھا۔ میں نے کہا کہ آپ عید میں کسی بھی قسم کاکوئی نیا سامان نہ خریدیں۔ بچوں کے لیے نیے کپڑے نہ بنوائیں۔ یہ سب آپ اُس وقت تک کرتے رہیں، جب تک آپ کا قرض ادا نہ ہوجائے۔
دو سال کے بعد اُن سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے بہت خوشی کے ساتھ بتایا کہ میں نے آپ کی نصیحت پر سختی کے ساتھ عمل کیا۔ اور اب اللہ کے فضل سے میرا قرض ادا ہو چکا ہے۔ اب میں رات کو سکون کی نیند سوتا ہوں، جب کہ اِس سے پہلے سکون کے ساتھ سونا میرے لیے ناممکن ہوگیا تھا۔
ان کی اِس روش کا ان کے بچوں پر نہایت مثبت اثر ہوا۔ ان کے بڑے لڑکے نے ٹیلی فون کال کی ایک دکان کھول لی۔ یہ دکان جلد ہی کامیابی کے ساتھ چلنے لگی۔ اِس طرح گھر کی آمدنی میں ایک مستقل اضافہ ہوگیا۔ ان کی بیوی اور ان کے بچوں میں بھی تعمیری ذہن آگیا۔ ہر ایک کچھ نہ کچھ کام کرنے لگا۔ اب وہ صاحب خوشی کے ساتھ اپنے مقام پر رہ رہے ہیں۔ ان کے تمام مسائل آہستہ آہستہ حل ہوگیے۔ بچوں کی تعلیم بھی جاری ہوگئی— حسنِ تدبیر سے مسئلہ حل ہوتا ہے اور بدتدبیری سے مسئلہ اور زیادہ بگڑ جاتا ہے۔