انسانی تاریخ کے دو دَور

خدا نے انسان کو ابدی مخلوق کی حیثیت سے بنایا۔ پھر اس نے انسان کی تاریخ کو دو دور میں بانٹ دیا۔ پہلا مختصر دور پیدائش سے لے کر موت تک، اور دوسرا طویل تر دور موت کے بعد، جس میں انسان ابدی طورپر رہے گا۔ اِن میں سے پہلا امتحان (test) کا دور ہے۔ اور دوسرا دور پہلے دور کے ریکارڈ کے مطابق، ابدی انجام پانے کا دور۔

تاریخ بتاتی ہے کہ انسانوں کی بہت بڑی اکثریت ہمیشہ اِس حقیقت سے بے خبر رہی۔ اِس کی سب سے بڑی وجہ غالباً وہ چیز ہے جس کو کنڈیشننگ (conditoning) کہاجاتا ہے۔ انسان جب اِس دنیا میں پیدا ہوتا ہے تو فوراً ہی اس کو ماں اور باپ اور رشتے دار مل جاتے ہیں۔ وہ کما کر پیسہ حاصل کرتا ہے اور پھر اپنے لیے ایک گھر بناتا ہے اور اپنی کوششوں کے ذریعے دھیرے دھیرے زندگی کے تمام سامان حاصل کرلیتا ہے۔ بظاہر وہ دیکھتا ہے کہ ہر چیز جو اس کو مل رہی ہے، وہ خود اس کی اپنی کوشش کے ذریعے مل رہی ہے۔

اِس طرح شعوری یا غیر شعوری طورپر اس کے اندر وہ ذہن بنتا ہے جس کو ملکیت (ownership) کہاجاتا ہے۔ اس کے اندریہ ذہن بن جاتا ہے کہ اِس دنیا میں اُس کو جو چیزیں ملی ہوئی ہیں، وہ سب اس کی ملکیت ہیں اوروہ اس کو اپنی ذاتی کوشش کے ذریعے حاصل ہوئی ہیں، یہ تمام چیزیں سامانِ ملکیت ہیں، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ اِسی کا نام کنڈیشننگ ہے۔ اِس کنڈیشننگ کی بنا پر وہ سمجھ نہیں پاتا کہ اپنی اصل حیثیت کے اعتبار سے چیزوں کی اصل نوعیت کیا ہے۔ اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے چیزیں سامانِ امتحان ہیں، مگر انسان کنڈیشننگ کی بنا پر اُن کو سامانِ ملکیت سمجھ لیتا ہے۔

یہی موجودہ دنیا میں کسی انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ خدا کے تخلیقی پلان (creation plan of God) کے مطابق، موجودہ دنیا میں انسان کی پوری زندگی زیر امتحان زندگی ہے۔یہاں انسان کو جو کچھ ملا ہوا ہے، وہ اس کے لیے پرچۂ امتحان (test paper) کی حیثیت رکھتا ہے۔ اِس اعتبار سے انسان کے لیے صحیح رویّہ یہ ہے کہ وہ اس دنیا میں ہر لمحہ اِس احساس کے ساتھ رہے کہ وہ آزاد نہیں ہے، بلکہ پابند ہے۔ وہ چیزوں کا مالک نہیں ہے، بلکہ تمام چیزیں وقتی طورپر اس کے تصرف میں دی گئی ہیں تاکہ اِن چیزوں میں جانچ کر دیکھا جائے کہ وہ صحیح عمل کرنے والا ہے، یا غلط عمل کرنے والا۔

اِس دنیا میں آدمی ایک گھر بناتا ہے اور اُس کو وہ ’’اپنا گھر‘‘ کہتا ہے۔ وہ اپنے نام پر اس کا نام رکھتا ہے۔ یہی معاملہ تمام چیزوں کا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس دنیا میں ہر گھر ٹسٹ ہاؤس ہے۔ اِس دنیا میں ہر کارٹسٹ کار ہے۔ اِس دنیا میں ہر پراپرٹی ٹسٹ پراپرٹی ہے۔ اِس دنیا میں ہر اولاد ٹسٹ اولاد ہے۔ اِس دنیا کی تمام چیزیں ٹسٹ کا سامان ہیں۔

مگر آدمی اِس سب سے بڑی حقیقت کو بھولا ہوا رہتا ہے، یہاں تک کہ اچانک اس کی موت آتی ہے اور وہ تمام چیزوں کو چھوڑ کر بالکل تنہا اگلے مرحلۂ حیات میں داخل ہوجاتا ہے۔ اُس وقت اس کو معلوم ہوتا ہے کہ جن چیزوں کو میں اپنی چیزیں سمجھتا تھا، وہ تو خدا کی طرف سے امتحان کے لیے وقتی طورپر ملی ہوئی تھیں۔ پچھلا دورِ حیات ختم ہوتے ہی وہ سب کی سب مجھ سے چھین لی گئیں۔ اب مجھے ایک ایسی دنیا میں رہنا ہے جہاں مجھے مکمل طورپر محرومی کی حالت میں زندگی گزارنا ہے۔ اِس سے مستثنیٰ صرف وہ لوگ ہوں گے جن کو اُن کے حسنِ عمل کے نتیجے میں دوبارہ تمام چیزیں بطور انعام دے دی جائیں گی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: شرّ البلاد الی اللہ أسواقہا(صحیح مسلم، کتاب المساجد) یعنی تمام جگہوں میں سب سے بُری جگہ بازار ہے۔ بازار کیا ہے۔ بازار، وہ مقام ہے جہاں سے آدمی چیزوں کو خرید کر حاصل کرتاہے۔ بازار خرید و فروخت کی علامت ہے۔ اس طرح بازار آدمی کے اندر یہ ذہن پیدا کرتا ہے کہ چیزیں صرف خرید کر ملتی ہیں۔ ہر چیز کی ایک قیمت ہے۔ چیز کی قیمت ادا کرو اور تم کو وہ چیز مل جائے گی۔

موجودہ دنیا میں ملکیت (ownership) کا قانون رائج ہے۔ اِس دنیا میں ہر چیز ملکیت کے ذریعے حاصل ہوتی ہے۔ مکان، گاڑی، سازوسامان، استعمال کی چیزیں، کنزیومر گُڈس، تمام چیزیں آدمی کو اِس طرح ملتی ہیں کہ وہ ان کی قیمت ادا کرتا ہے اور پھر وہ ان کا مالک بن جاتا ہے۔

اِس طرح یہ دنیا ایک فریب کی جگہ(deceptive world) بن گئی ہے۔ حقیقت کے اعتبار سے دنیا کی ہر چیز امتحان کا پرچہ (test paper) ہے۔ وہ خدا کی طرف سے انسان کو اس کی آزمائش کے لیے دی گئی ہے۔ لیکن خرید وفروخت کے موجودہ نظام کی بنا پر آدمی غلط طورپر یہ سمجھ لیتا ہے کہ چیزیں اس کو قیمت ادا کرکے حاصل ہورہی ہیں۔

اِس صورت ِ حال کی بنا پر ہر آدمی ایک فریب میں جی رہا ہے۔ وہ امتحان کے ذریعے ملی ہوئی چیزوں کے بارے میں شعوری یا غیر شعوری طورپر، یہ سمجھ لیتا ہے کہ وہ اس کو بطورملکیت حاصل ہوئی ہیں۔یہ صورت حال بلاشبہہ سب سے بڑا دھوکہ ہے۔ اس صورت حال کی بنا پر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی احساسِ ملکیت کے تحت زندگی گزارتا ہے، حالاں کہ اس کو احساسِ ذمے داری کے تحت زندگی گزارنا چاہیے۔

موت اس صورتِ حال کا خاتمہ ہے۔ موت کے وقت اچانک یہ تمام چیزیں انسان سے چھن جاتی ہیں۔ اُس وقت اچانک انسان پر یہ کھلتا ہے کہ جن چیزوں کے درمیان وہ زندگی گزار رہا تھا، وہ چیزیں صرف امتحان کی مدت تک کے لیے تھیں، موت نے اِس مدت کا خاتمہ کردیا۔ موت سے پہلے آدمی اپنے کو ’’سب کچھ والا‘‘ سمجھ رہا تھا، مگر موت کے بعد اچانک وہ ’’بے کچھ والا‘‘ بن جاتا ہے۔ عقل مند وہ ہے جو موت سے پہلے، خود سے فریب کے اس پردے کو پھاڑ دے، ورنہ موت اس پردے کو پھاڑے گی، لیکن موت کی طرف سے پردے کا پھاڑا جانا کسی کے کچھ کام نہیں آئے گا۔

ثانیہ مرزا (21 سال) ٹینس کی مشہور کھلاڑی ہیں۔ ان کا وطن حیدرآباد ہے۔ ان کی برتھ ڈے پر ان کی ماں نسیمہ نے حیدر آباد کے ایک لگزری ہوٹل میں شان دار پارٹی دی۔ اِس کی رپورٹ نئی دہلی کے انگریزی روزنامہ ٹائمس آف انڈیا (16 نومبر2007) میں اِس عنوان سے چھپی ہے:

Surprise party brings in Sania’s 21st birthday.

رپورٹ کے مطابق، ثانیہ مرزا کی ماں نسیمہ نے اپنی بیٹی کے بارے میں کہا کہ— میں اپنی بیٹی کے اوپر ہر دن اور ہر لمحہ فخر کرتی ہوں:

I am proud of my daughter, every moment of the day. (p. 28)

یہی آج تقریباًتمام عورتوں اور مردوں کا حال ہے۔ آج تمام لوگ اِسی قسم کے جھوٹے فخر میں مبتلا ہیں۔ کسی کو اپنی اولاد پر فخر ہے، کسی کو اپنی جائداد اور اپنے سازوسامان پر فخر ہے، کسی کو اپنے عہدے اور مقبولیت پر فخر ہے۔ مگر کوئی یہ نہیں سوچتا کہ یہ تمام چیزیں اس کو کیسے ملیں۔ اگر آدمی گہرائی کے ساتھ سوچے تو وہ جان لے کہ ہر چھوٹی اور بڑی چیز جو اس کو ملی ہوئی ہے، وہ سب خدا کا عطیہ ہے۔ ہر چیز براہِ راست خدا کی دین ہے۔ اگر آدمی اِس حقیقت کو جان لے تو اس کا سینہ احساناتِ خدا وندی کے جذبے سے بھر جائے گا۔ وہ کہہ اٹھے گا کہ ہر دن اور ہر لمحہ میں خداوند برتر کا شکر گزار ہوں:

I am grateful to God Almighty, every moment of the day.

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom