کثرت کے درمیان قلّت
سموئل ٹیلر کولرج (Samuel Tailor Coleridge) مشہور انگریزی شاعر ہے۔ وہ 1772 میں پیدا ہوا،اور 1834 میں اس کی وفات ہوئی۔
اس کی ایک مشہور نظم ہے جس کا نام ہے—قدیم ملّاح(The Ancient Mariner)۔ اس نظم میں وہ دکھاتا ہے کہ ملاح اپنی کشتی لے کر سمندر میں سفر کر رہا ہے۔ اس کے بعد کشتی طوفان کی زد میں آجاتی ہے۔ کشتی تباہ ہوجاتی ہے۔ ملاح ایک تختے کو پکڑ کر اس پر اپنے آپ کو ڈال دیتا ہے۔ وہ تختہ سمندر میں موجوں کے سہارے تیرنے لگتا ہے۔
ملاح کو پیاس لگتی ہے۔ اس کے چاروں طرف اگرچہ پانی ہے، مگر سخت کھاری ہونے کی وجہ سے وہ پینے کے قابل نہیں۔ یہ منظر دیکھ کر ملاح کہہ اٹھتا ہے— ہر طرف پانی ہی پانی ہے، مگر ایک قطرہ بھی پینے کے لیے نہیں:
Water, water everywhere,
Nor a drop to drink.
یہ بات جو مذکورہ ملاح نے سمندر کے پانی کے بارے میں کہی، وہ عمومی اعتبار سے بھی درست ہے۔ آج کی دنیا میں پوری انسانیت مذکورہ ملاح کے مانند ہے جس کے چاروں طرف پانی ہی پانی ہے، مگر پینے کے لیے ایک قطرہ بھی نہیں۔
پریس کے دورنے ہر طرف چھپے ہوئے کاغذات کا انبار لگا دیا ہے، مگر ایسے صفحات بہت کم ہیں جو واقعۃً پڑھنے کے قابل ہوں۔ دنیا کے بازارپُررونق سامان سے بھرے ہوئے ہیں، مگر وہ سامان کہیں نظر نہیں آتا جو انسان کی روح کو سکون دینے والا ہو۔ زمین پر جہاں بھی دیکھئے، انسانی سرگرمی کا طوفان دکھائی دے گا، مگر وہ سرگرمی کہیں نظر نہیں آتی جو اُس کو حقیقی منزل کی طرف لے جانی والی ہو۔
دنیا انسانوں سے بھری ہوئے ہے مگر وہ انسان معدوم ہورہے ہیں جو اُن فطری اوصاف کے حامل ہوں جن پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے۔