فرائض اور نوافل
اسلامی تعلیم کے مطابق، ہر دینی عمل عبادت کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام کی عبادات میں کچھ عبادتیں فرض ہیں، اور کچھ عبادتیں نفل کی حیثیت رکھتی ہیں۔ مثلاً روزانہ پانچ وقت کی نماز اسلام میں فرض ہے۔ اِسی کے ساتھ ایک عبادت وہ ہے جس کو تہجد کہاجاتا ہے۔ تہجد ایک نفل عبادت ہے، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: فتہجّد بہ نافلۃً لک (الإسراء:79)۔ اِس طرح اشراق اور چاشت کی نمازیں اور دوسری غیر مفروض نمازیں نفل کا درجہ رکھتی ہیں۔
’نفل‘ یا ’نافلہ‘ کے معنیٰ زائد (زائدۃ علی الفریضۃ) کے ہیں۔ نفل عبادت کا مطلب ہے فرض کے علاوہ مزید عبادت (additonal prayers)۔ نفل عبادت کے معاملے میں ایک مشہور روایت حدیث کی کتابوں میں آئی ہے۔ یہ حدیثِ قُدسی ہے۔ اس کے ایک حصے کا ترجمہ یہ ہے:
’’بندہ نوافل کے ذریعے مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں۔ پھر جب میں اُس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے، میں اس کا قلب بن جاتا ہوں جس سے وہ باتوں کو سمجھتا ہے (وقلبہ الذی یعقل بہ)، اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اور اس کا پاؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا ہے‘‘ (فتح الباری بشرح صحیح البخاری، کتاب الرقاق، با ب التواضع، جلد 11، صفحہ 348)۔
نفلی عمل سے مراد زائد عمل ہے۔ زائد عمل کا تعلق صرف نفلی نمازوں سے نہیں، بلکہ اس کا تعلق ہر اُس اسلامی عمل سے ہے جو فرائض سے زیادہ کی حیثیت رکھتا ہو۔ اِس زائد اسلامی عمل میں ذکر اور تلاوت اور روزہ اور حج اور صدقات جیسے اعمال سے لے کر وہ اعمال بھی شامل ہیں جن کو توسّم اور تفکر اور تدبّر، وغیرہ کہاجاتا ہے۔ یہ تمام نفلی اعمال تعلق باللہ میں اضافے کا ذریعہ ہیں۔ نفل کے لفظ کو روایتی مفہوم میں لینے کے بجائے اس کے لغوی معنیٰ میں لینا چاہیے۔ اِس طرح، نفل کے لفظ میں وہ تمام توسیعی مفہوم اپنے آپ شامل ہوجاتا ہے، جن کا اوپر ذکر کیا گیا۔
آدمی جب ایمان قبول کرتا ہے تو وہ کلمۂ شہادت ادا کرتا ہے۔ کلمۂ شہادت، اسلام میں داخلے کا دروازہ ہے۔ یہ داخلہ اسلام کا آغاز ہے، اس کی منزل نہیں۔ اِس داخلے کے بعد بار بار ضرورت ہوتی ہے کہ آدمی کے ایمان میں اضافہ ہوتا رہے۔ اِس اضافے کو قرآن اور حدیث میں ’ازدیادِ ایمان‘ کہاگیا ہے۔ اضافے کا یہ عمل، ایمان کے لیے لازمی طور پر ضروری ہے۔ اِس عمل کے بغیر آدمی کا ایمان جامد ایمان بن جائے گا، وہ زندہ ایمان کی حیثیت سے باقی نہ رہے گا۔
میڈیکل اصطلاح میں ایک لفظ ہے، جس کو بوسٹر ڈوز(booster doze) کہاجاتا ہے۔ ڈاکٹر جب مریض کو ایک دوا دیتا ہے تو صرف ایک خوراک دینا کافی نہیں ہوتا۔ ایک خوراک کے بعد دوا کے عمل کو تیز کرنے کے لیے بار بار مزید خوراکیں دینی پڑتی ہیں۔ دوا کی اِس مزید خوراک کو بوسٹر ڈوز کہاجاتاہے۔
یہی معاملہ صحت مند انسان کا بھی ہے۔ صحت مند انسان بھی بار بار غذائی خوراک لیتا ہے۔ صبح کے ناشتے کے بعد دوبارہ وہ دوپہر کا کھانا کھاتا ہے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد وہ پھر رات کا کھانا کھاتا ہے۔ اِس طرح غذاؤں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ یہ بار بار کی غذا بھی بوسٹر فوڈ(booster food) کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر کوئی آدمی ایک بار کھانا کھالے اور اس کے بعد وہ پھر کبھی نہ کھائے تو ایسا آدمی اپنی صحت کو برقرار نہیں رکھ سکتا۔
ایمان کے لیے نفلی اعمال اِسی طرح اضافی (additional doze) کا درجہ رکھتے ہیں۔ اِن اضافی خوراکوں کے بغیر کسی آدمی کا ایمان، زندہ اور متحرک ایمان نہیں بن سکتا۔ اِن اضافی خوراکوں میں جس طرح معروف عبادتی اعمال شامل ہیں، اسی طرح اس میں توسّم، تذکّر اور تدبّر جیسے ذہنی اعمال بھی لازمی طورپر شامل ہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ مطالعہ اور تدبر کے ذریعے مسلسل طورپر اپنے ذہنی ارتقا کا سامان کرتا رہے، ورنہ اس کا ایمان، جامد ایمان بن کر رہ جائے گا۔
جامد ایمان اور زندہ ایمان کے درمیان وہی فرق ہے جو ہری بھری شاخ اور سوکھی لکڑی کے درمیان ہوتا ہے۔ جو آدمی یہ چاہتا ہو کہ اس کا ایمان سوکھی لکڑی جیسا بن کر نہ رہ جائے، اُس کے لیے ضروری ہے کہ وہ مسلسل طورپر فکری خوراک لیتا رہے، جن کی حیثیت ایمان کی ترقی کے لیے بوسٹرفوڈ (booster food) کی ہے۔ اِس طرح کے بوسٹر ڈوز کے بغیر زندہ ایمان کا حصول ممکن نہیں۔ اس کے بغیر آدمی کا ایمان صرف ایک قانونی ایمان بن کر رہ جائے گا، وہ ربّانی ایمان کا درجہ حاصل نہ کرسکے گا۔
کان اور آنکھ اور عقل کے حوالے سے حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، اس سے مراد یہ ہے کہ ایسے آدمی کا ذوق، خداوندی ذوق (divine taste) بن جاتا ہے۔ وہ حیوانی ذوق سے اوپر اٹھ کر ذوق کی اُس اعلیٰ سطح پر پہنچ جاتا ہے جس کو ربّانی ذوق سے تعبیر کیاجاسکتا ہے۔
حیوان کی سوچ اس کی ابتدائی ضرورتوں تک محدود رہتی ہے۔ انسان کی سوچ اِس سے وسیع ہوتی ہے، لیکن وہ بھی اپنی ذات کے دائرے میں عمل کرتی ہے۔ اِس کے برعکس، خدا کا معاملہ یہ ہے کہ وہ اِس قسم کی تمام محدودیتوں سے برتر ہوتا ہے۔ جب کوئی آدمی حقیقی معنوں میں ’نوافل‘ کی کثرت کرتا ہے تو بلا تشبیہہ اس کی ذات میں خدا سے ایک قسم کی مماثلت کی شان پیدا ہوجاتی ہے۔ اس کے ہر معاملے میں فطرت کا رنگ غالب آجاتا ہے۔ اس کی سوچ آفاقی سوچ بن جاتی ہے۔ اس کی پوری شخصیت خدا کے تخلیقی نقشے میں ڈھل جاتی ہے۔ یہی وہ ربّانی شخصیت ہے جس کو مذکورہ حدیث میں مخصوص تمثیلی انداز میں بیان کیا گیا ہے۔