کامیابی کا فارمولا
ایک صاحب نے پوچھا کہ موجودہ دنیا میں کامیاب زندگی کی تعمیر کا فارمولا کیا ہے۔ میں نے کہا کہ کامیاب زندگی کا انحصار دو چیزوں پر ہے— آدھا عمل پر، اور آدھا بے عملی پر۔ اُن کو میرا یہ جواب بہت عجیب معلوم ہوا۔ انھوں نے دوبارہ پوچھا کہ اس کا مطلب کیا ہے۔میں نے کہا کہ عمل یہ ہے کہ آپ اپنی صلاحیتوں کا بھر پور استعمال کریں۔ بے عملی یہ ہے کہ آپ دوسروں سے نہ ٹکرائیں۔ جب بھی دوسروں کے ساتھ کوئی شکایت کی بات پیش آئے تو اُس وقت آپ اُن کے مقابلے میں بے عمل بن جائیں، یعنی دوسروں سے الجھے بغیر اپنا سوچا سمجھا کام جاری رکھیں۔ موجودہ دنیا میں کامیابی کے لیے یہ دونوں چیزیں یکساں طورپر ضروری ہیں۔اِس اصول کا تعلق، انفرادی کامیابی سے بھی ہے اور اجتماعی کامیابی سے بھی۔
انفرادی معاملے کی ایک مثال یہ ہے کہ آپ کسی چیز کو لینے کے لیے لائن (قطار) میں کھڑے ہوئے ہیں۔ بعد کو ایک آدمی آتا ہے اور وہ لائن توڑ کر آگے بڑھ جاتا ہے اور اپنا کام پہلے کرالیتا ہے۔ ایسے موقع پر آپ خاموش مشاہد بن جائیے۔ اس کو نظر انداز کرتے ہوئے آپ اپنا کام کیجئے اور خاموشی کے ساتھ واپس چلے جائیے۔ یہ انفرادی معاملے میں ’’بے عملی‘‘ کی مثال ہے۔ اِس طرح کے معاملے میں اگر آپ غصہ ہوجائیں اور ٹکراؤ کا طریقہ اختیار کریں تو آپ کا ایسا کرنا ہمیشہ خود آپ کے لیے نقصان کا باعث ہوگا۔
اجتماعی معاملے کی ایک مثال پالٹکس آف اپوزیشن ہے۔ آج کل ہر لیڈر یہ کررہا ہے کہ وہ کوئی سماجی مسئلہ لے کر اتھارٹی کے خلاف احتجاج (protest) کی مہم چلادیتا ہے۔ اِس طریقِ کار کے نتیجے میں لیڈر کو تومقبولیت مل جاتی ہے، لیکن سماج کو اِس کا کوئی فائدہ نہیں ملتا۔ یہاں بھی صحیح طریقہ یہ ہے کہ اتھارٹی کے خلاف احتجاجی مہم چلانے کے بجائے تعمیر کے میدان میں کوئی مثبت کام کیاجائے۔ مثلاً تعلیم کا میدان— اِس دنیا میں کامیابی کے لیے عمل جتنا زیادہ ضروری ہے، اتنا ہی یہ بھی ضروری ہے کہ آپ بے عمل ہونے کا فن بھی جانتے ہوں۔