جہاد اسلامی تاریخ میں
جہاد کے لفظی معنیٰ کوشش یا جدّ وجہد کے ہیں۔ اِس سے مراد اصلاً پُرامن کوشش ہے۔ قرآن کی سورہ نمبر پچیس میں ارشاد ہوا ہے— اُن سے جہاد کرو، قرآن کے ذریعے، بڑا جہاد (الفرقان: 52) قرآن کی اِس آیت میں جہاد یا ’جہادِ کبیر‘ سے مراد واضح طورپر پُرامن دعوتی جد و جہد ہے۔ اِسی طرح حدیث میں آیا ہے: المجاہد مَن جاہد نفسہ فی طاعۃ اللّٰہ (مسند احمد، جلد 6، صفحہ 22) یعنی مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس کے خلاف خدا کی اطاعت کے لیے جہاد کرے۔ اِس حدیثِ رسول میں جس چیز کو جہاد کہاگیا ہے، وہ بھی واضح طورپر ایک پُرامن عمل ہے، اُس کا جنگ اور قتال سے کوئی تعلق نہیں۔
تاہم، توسیعی معنوں میں کبھی جہاد کا لفظ قتال کے لیے بھی بولا جاتا ہے، یعنی حربی جہاد کے لیے۔ موجودہ زمانے میں جہاد کا لفظ عام طورپر مسلّح جہاد کے لیے استعمال ہونے لگا ہے۔ آج کل مختلف ملکوں میں مسلمان اپنے مفروضہ دشمنوں کے خلاف مسلّح کارروائیوں میں مشغول ہیں اور اُن کو وہ جہاد فی سبیل اللہ کہتے ہیں، مجھے اِس سے اتفاق نہیں۔ تاہم، زیر نظر مضمون میں ہم عمومی استعمال کے لحاظ سے جہاد کو مسلّح جہاد کے معنیٰ میں لیتے ہوئے اِس موضوع کا ایک تاریخی جائزہ لیں گے۔
1-پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے 610 عیسوی میں مکہ میں اپنے مشن کا آغاز کیا۔ اُس وقت مکہ پر مشرک لوگوں کا اقتدار قائم تھا۔ اُس وقت مکہ میں آپ کی حیثیت داعی کی تھی اور بقیہ لوگوں کی حیثیت مدعو کی۔ مکہ کے مشرک سردار آپ کے نظریۂ توحید کے دشمن بن گیے اور آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو تشدد کا نشانہ بنانے لگے۔ اِسی حال میں تیرہ سال گزر گیے۔ اِس دوران مکہ اور اطرافِ مکہ اور مدینہ کے بہت سے لوگ اسلام قبول کرکے آپ کے ساتھی بن گیے۔
تاریخ بتاتی ہے کہ مکی دَور کے آخر میں آپ کے ساتھیوں نے آپ سے اِصرار کیا کہ ہم مشرکینِ مکہ کے خلاف لڑیں گے۔ اُس وقت آپ کے ساتھیوں کی تعداد مجموعی طورپر تقریباً اتنی ہی تھی جتنی کہ غزوۂ بدر کے موقع پر شریک ہونے والے صحابہ کی۔ لیکن اُس وقت آپ نے جنگ کا فیصلہ نہیں کیا، بلکہ آپ نے اپنے ساتھیوں کو یہ جواب دیا کہ: اصبروا، فإنی لم أومر بالقتال یعنی تم لوگ صبر کرو، کیوں کہ مجھ کو جنگ کا حکم نہیں دیا گیا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جواب، اسلام کی ایک اہم تعلیم کو بتاتاہے۔ وہ تعلیم یہ کہ جنگ ایک قائم شدہ حکومت کاکام ہے، غیر حکومتی تنظیمیں، یا افراد جنگ نہیں کر سکتے۔ اُن کے لیے غیر سیاسی میدان میں پُرامن جدوجہد کرنا ہے، نہ کہ مسلّح ٹکراؤ کرنا۔ اِسی بات کو دورِ تابعین میں مسیّب ابن رافع تابعی نے اِس طرح بیان کیا کہ کچھ اجتماعی چیزیں وہ ہیں، جن کا تعلق صرف حُکّام سے ہوتا ہے۔ اِسی لیے اُن کو ’صَوافی الأُمراء‘ کہاجاتا ہے،یعنی حاکموں کا میدان (جامع بیان العلم، جلد 2، صفحہ 144)۔ علماء کے اتفاق کے مطابق، مسلّح جہاد کا تعلق، صوافی الامراء سے ہے، یعنی اُس کا فیصلہ صرف حکام کرسکتے ہیں، نہ کہ عوام (الرّحیل للإمام)۔
مکی دَور کے تیرہ سالوں میں اہلِ اسلام کا اقتدار قائم نہیں ہوا تھا، اِس لیے مکی دور میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظلم کے باوجود جنگ اور قتال کا فیصلہ نہیں فرمایا۔ اِس کے بعد جب ہجرت کا واقعہ پیش آیا اور مدینہ میں پیغمبر اسلام کا اقتدار قائم ہوگیا تو آپ نے دفاع کے لیے جنگ کی اجازت دی۔ اِسی زمانے میں غزوۂ بدر (2 ہجری)، غزوۂ اُحُد (3ہجری) اور غزوۂ حُنَین (8ہجری) کے واقعات پیش آئے، یہ سب دفاعی غزوات تھے۔ اسلام میں صرف دفاعی جنگ جائز ہے اور اُس کا اختیار بھی صرف حاکمِ وقت کو حاصل ہوتا ہے، کسی غیر حکومتی گروہ کو مسلح جہاد کی ہرگز اجازت نہیں۔
اسلام میں اگر چہ دفاع کے لیے جنگ کی اجازت ہے، لیکن اسی کے ساتھ شدت سے اِعراض کا حکم دیا گیا ہے، یعنی دفاع کے حالات پیدا ہونے کے باوجود آخری حد تک جنگ سے اعراض کی کوشش کی جائے گی اور جب اعراض کی تمام کوششیں ناکام ہوجائیں، اُ س وقت آخری چارۂ کار کے طور پر دفاعی جنگ کی جائے گی۔ اِس سلسلے میں یہ بات نہایت اہم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں صرف تین بار باقاعدہ جنگ(fullfledged war) ہوئی، یعنی بدر اور احد اور حنین کی جنگ۔ اس کے سوا جن واقعات کو ’غزوہ‘ کہا جاتا ہے، وہ یا تو صرف پُرامن مہمیں (peaceful campaigns)تھیں،مثلاً غزوۂ تبوک (9 ہجری)، یا جنگ کی حالت پیدا ہونے کے باوجود جنگ سے اعراض، مثلاً غزوۂ خندق (5 ہجری) یا بعض واقعات کی صورت میں صرف جھڑپیں (skirmishes)۔ غزوۂ خیبر (7 ہجری) کی نوعیت اِسی قسم کی ہے۔
جنگ کے باقاعدہ واقعات بھی اِس طرح ہوئے کہ اُن میں عملاً صرف آدھے دن کی لڑائی ہوئی، یعنی دوپہر کے بعد جنگ کا آغاز اور شام تک جنگ کا خاتمہ، جیسا کہ غزوۂ بدر اور غزوۂ احد اور عزوۂ حنین کے موقع پر پیش آیا۔ اِس لحاظ سے یہ کہنا درست ہوگا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے 23 سالہ دورِ نبوت میں مجموعی طورپر صرف ڈیڑھ دن کے لیے جنگ کی۔
2-حدیث کی کتابوں میں دوسرے ابواب کے ساتھ عام طور پر ’کتابُ الفتن‘ کا باب ہوتا ہے۔ اِس باب کے تحت، بہت سی ایسی حدیثیں آئی ہیں، جن میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے شدت کے ساتھ امت کو یہ حکم دیا کہ تم لوگ کسی بھی حال میں وقت کے حاکموں سے جنگ نہ کرنا۔ آپ نے فرمایا کہ تمھارے نزدیک خواہ حکم رانوں میں کتنا ہی بگاڑ کیوں نہ آجائے، لیکن تم اُن کے خلاف لڑائی نہ چھیڑنا۔ لوگوں نے پوچھا کہ پھر ایسے حالات میں ہم کیا کریں۔ آپ نے فرمایا کہ تم اپنے اونٹوں اور اپنی بکریوں کو لے کر پہاڑیوں میں چلے جاؤ، یا کسی کے پاس زمین ہے تو وہ اپنی زمین میں جاکر کاشت کرنے لگے (مشکاۃ المصابیح، جلد 3، صفحہ 1482)۔
اِسی بنا پر علما کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ حکم رانوں کے خلاف خروج کرنا، یا اُن سے جنگ کرنا اہلِ اسلام کے لیے جائز نہیں۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: صحیح مسلم، شرح نووی، جلد 12، صفحہ 129)۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن صریح احکام اور علمائِ اسلام کے اِس پر اتفاقِ عام کی بنا پر یہ ہوا کہ امت میں عوام اور حکم رانوں کے درمیان سیاسی ٹکراؤ کا بالکل خاتمہ ہوگیا۔پیغمبر اسلام کے بعد تقریباً بارہ سوسال تک مسلم حکومتیں ساری دنیا میں قائم رہیں۔ اُن میں ہر طرح کے سیاسی بگاڑ بھی پیش آئے، لیکن وقت کے علما نے کبھی اُن کے خلاف سیاسی ٹکراؤ یا سیاسی جنگ نہیں چھیڑی۔
مفسرین اور محدثین، فقہا اور علما ہمیشہ اپنے علمی دائرے میں مشغول رہے۔ اُنھوں نے کبھی سیاسی بگاڑ کے حوالے سے وقت کے حکم رانوں سے مسلّح ٹکراؤ نہیں کیا۔ عدم ٹکراؤ کے یہی پالیسی تھی جس کے نتیجے میں اسلامی علوم کی تدوین ہوئی اور اسلام کا عظیم کتب خانہ وجود میں آیا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اسلام کا کتب خانہ تو نہ بنتا، البتہ ہر جگہ شہیدوں کا قبرستان ضرور بن جاتا۔
3-بارہ سو سال کی اِس طویل مدت میں ہم کو صرف ایک استثنائی واقعہ ملتاہے اور وہ حسین بن علی (وفات: 680 ء) کا واقعہ ہے، مگر میں اپنے مطالعے کی بنیاد پر کہہ سکتا ہوں کہ جس حُسین کو لوگ جانتے ہیں، وہ ایک خود ساختہ شخصیت ہے، تاریخ میں ایسے کسی حُسین کا وجود نہیں۔
اصل واقعہ یہ ہے کہ حُسین بن علی مکہ میں تھے۔ اُن کو خبر ملی کہ کوفہ (عراق) کے کئی لوگوں نے اُن پر غائبانہ بیعت کرلی ہے اور وہ اُنھیں کوفہ بلا رہے ہیں۔ اِس خبر کو سُن کر وہ مکہ سے کوفہ کے لیے روانہ ہوئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جس دن حضرت حسین مکہ سے روانہ ہوئے، اُس دن کوفہ کے لوگ اپنی بیعت توڑ چکے تھے۔ اگر وہ ٹیلی فون کا زمانہ ہوتا تو حضرت حسین کو فوراً ہی نقضِ بیعت کی خبر مل جاتی اور یقینا وہ مکہ سے کوفہ کے لیے روانہ نہ ہوتے۔ اگر چہ اُس وقت بہت سے صحابہ موجود تھے اور انھوں نے حضرت حسین کو سفر سے روکا، لیکن وہ اپنے اہلِ خاندان کے تقریباً اَسّی افراد کو لے کر کوفہ کے لیے روانہ ہوگیے۔ اِس سفر میں کوئی صحابی اُن کے ساتھ موجود نہ تھا۔ گویا کہ یہ کوئی جنگی سفر نہ تھا، بلکہ وہ نجی نوعیت کا ایک سفر تھا۔
حضرت حسین اپنے خاندان کے لوگوں کے ساتھ جب کوفہ کے قریب کربلا کے مقام پر پہنچے تو وہاں یزید کے مقامی حاکم عبید اللہ بن زیاد (وفات: 686 ء)نے اُن کو آگے بڑھنے سے روکا۔ مستند تاریخی روایات کے مطابق، اُس وقت حضرت حسین نے کہا کہ میں تم سے لڑنا نہیں چاہتا۔ تم مجھ کو چھوڑ دو، تاکہ میں واپس لوٹ کر مکہ پہنچ جاؤں، یا پھر تم مجھ کو یزید کے پاس دمشق لے چلو اور میں یزید کے ہاتھ پر بیعت کرلوں گا(إما أن أضع یدی فی ید یزید، تاریخ الطَبری، جلد 4، صفحہ 313)۔
اُس وقت کوفہ میں یزید کی حکومت کی طرف سے شَمِر بن ذی الجوشَن ایک فوجی دستے کے ساتھ موجود تھا۔ یزید کی کسی ہدایت کے بغیر اُس نے خود سے یہ فیصلہ کیا کہ حُسین کو واپس لوٹنے نہیں دینا ہے۔ اِس کے بعد اُس نے اپنے مسلّح فوجی دستے کے ساتھ حسین کو چاروں طرف سے گھیر لیا۔ اُس نے حضرت حسین کے ساتھ وہی معاملہ کیا جس کو آج کل کی زبان میں فرضی مڈبھیڑ(fake encounter) کہاجاتا ہے۔ چناں چہ شمر ذی الجوشن نے حضرت حسین کی آمادگی کے بغیر اُن کو لڑنے پر مجبور کیا اور پھر انھیں قتل کرڈالا۔
حسین بن علی کے معاملے میں جو اصل واقعہ پیش آیا، اُس کو تاریخ طَبری یا البدایہ والنہایہ، وغیرہ میں دیکھا جاسکتا ہے۔اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ یزید کی رضا مندی کے بغیر ایک سرکش آدمی نے حُسین کو گھیر کر اُنھیں قتل کردیا۔ موجودہ زمانے میں جس طرح حُسین کی شہادت کے عنوان سے اُس کوبیان کیا جاتا ہے اور شاعری اور انشاپردازی کی زبان میں اُس کو جس طرح گلوری فائی کیا جاتا ہے، وہ تمام تر حُسین کی خود ساختہ تصویر ہے، اُس کا حقیقتِ واقعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اصل حقیقت بدستور یہی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد بارہ سوسال تک ایسا نہیں ہوا کہ علما سیاسی بگاڑ کے نام پر وقت کے حکم رانوں سے لڑائی کریں۔ اس کے بجائے، انھوں نے یہی کیا کہ حکّام سے عدم تعرض کی پالیسی اختیار کرتے ہوئے اپنے آپ کو علمی اور دینی اور دعوتی کاموں میں مشغول رکھا۔
4-یہ تاریخ اٹھارھویں صدی عیسوی کے آخر میں بدلتی ہے۔ اِس سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ مسلم حکم راں تمام سیاسی اور فوجی معاملات سے نپٹتے رہے، لیکن اٹھارھویں صدی میں مغربی قوموں کے ظہور کے بعد علما نے محسوس کیا کہ اب مسلم حکم راں اپنے فرض کی ادائیگی میں کوتاہ ثابت ہورہے ہیں۔ مثلاً عثمانی تُرکوں کے بحری بیڑے کو اٹھارھویں صدی کے آخر میں مغربی قوموں نے تباہ کردیا۔1799 ء میں انگریزوں نے میسور کے سلطان ٹیپو کو ہلاک کردیا۔ ہندستان میں 1857ء میں برٹش فوج نے مغل سلطنت کا خاتمہ کردیا، وغیرہ۔
اِس طرح کے واقعات کے بعد پہلی بار ایسا ہوا کہ مسلم علما نے محسوس کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ وہ اِس معاملے میں کچھ کریں۔ جس کام کو مسلم حکم راں انجام نہ دے سکے، اُس کو وہ اپنی مسلّح مداخلت کے ذریعے انجام دیں۔ اِس طرح، اسلامی تاریخ میں پہلی بار انیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں یہ واقعہ پیش آیا کہ مسلم علما اور مسلم رہ نماؤں نے اپنے دائرے سے نکل کر مسلّح سیاست کے دائرے میں قدم رکھ دیا۔
میں ذاتی طورپر اِس کو مُبتدعانہ سیاست سمجھتا ہوں۔ یہ اسلام میں بلا شبہہ ایک سیاسی بدعت تھی۔ اِس سیاسی بدعت کا آغاز غالباً سب سے پہلے انڈیا میں ہوا۔ 1831 ء میں سید احمد بریلوی (وفات: 1831) اور اُن کے ساتھیوں نے مہاراجارنجیت سنگھ کے خلاف مسلّح جہاد کیا۔ وہ اور اُن کا حلقہ واضح طور پرایک غیر حکومتی گروہ کی حیثیت رکھتا تھا، اِس اعتبار سے انھیں مسلّح جہاد کا کوئی حق نہ تھا۔ مگر ان کاخیال تھا کہ مغل حکومت اتنی زیادہ کم زور ہوچکی ہے کہ وہ پیدا شدہ مسائل سے عہدہ برآ نہیں ہوسکتی۔ اُن کا یہ اقدام دینی اعتبار سے سیاسی بدعت اور عقلی اعتبار سے سیاسی نادانی کی حیثیت رکھتا تھا، کیو ں کہ مہاراجا رنجیت سنگھ کی فوج نہایت طاقت ور فوج تھی۔ مہاراجا نے فرانس کے رٹائرڈ جنرلوں کو بلا کر اپنی فوج کو ٹرینڈ کیا تھا۔ چناں چہ سید احمد بریلوی اور ان کے ساتھیوں کا پورا قافلہ بالا کوٹ کے میدان میں ہلاکت کا شکار ہوکر رہ گیا۔
اِس کے بعد1857ء میں سہارن پور (دیوبند) کے علما نے برٹش گورنمنٹ کے خلاف مسلّح جہاد کیا۔ اِس موقع پر طاقت کا توازن انتہائی غیر متناسب طورپر برطانیہ کے حق میں تھا۔ چناں چہ دوبارہ یک طرفہ تباہی کے سوا کچھ اور حاصل نہیں ہوا۔
انیسویں صدی عیسوی اور بیسویں صدی عیسوی میں اِس طرح کے کئی واقعات عالمِ اسلام میں ہوئے۔ مثلاً مَہدی سوڈانی (وفات:1885 ء) نے سوڈان (افریقہ) کے علاقے میں برٹش راج کے خلاف مسلّح جہاد کیا، حالاں کہ اُن کو حکومتی حیثیت حاصل نہ تھی۔اِس اقدام میں اُنھیں ابتدائی طورپر کچھ کامیابی ہوئی، مگر بعد کو لارڈ کِچنر(Horatio Hebert Kitchner) نے جدید ٹکنالوجی کا استعمال کرکے مہدی سوڈانی کی ’’بغاوت‘‘ کو کچل دیا۔ لارڈ کچنر کو 1898 ء میں برطانیہ کی طرف سے سوڈان کا گورنر جنرل بنایا گیا۔
اِسی طرح غیر حکومتی افراد کی طرف سے مسلّح جہاد کا ایک معاملہ وہ ہے جو لیبیامیں پیش آیا۔ 1911ء میں اٹلی نے سمندری راستے سے لیبیا پر حملہ کیا اور اُس پر اپنا قبضہ کرلیا۔میں نے فروری 1976ء کے سفر میں وہ وسیع مکان دیکھا، جس میں اٹلی کا گورنر رہتا تھا۔ اِس مکان کو اب قومی میوزیم بنا دیاگیا ہے۔ اٹلی کا یہ قبضہ 1911ء سے 1943 ء تک باقی رہا۔
اٹلی کے قبضے کے دوران یہاں مجاہدین کا ایک گروہ پیداہوا۔ یہ بھی غیر حکومتی گروہ کی حیثیت رکھتا تھا۔ انھوں نے اٹلی کے قبضے کے خلاف مسلح جہاد کیا۔ اِس گروہ کے لیڈر احمد الشریف السَّنوسی (وفات: 1933) تھے۔ اِس ٹکراؤ میں مذکورہ گروہ نے غیر معمولی قربانیوں کا ثبوت دیا، لیکن انھیں اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہوسکی۔ اس میوزیم میں ان مجاہدین کے کچھ آثار رکھے ہوئے ہیں۔ ان میں سے ایک کَتبہ وہ ہے جس کے اوپر یہ نعرہ لکھا ہوا ہے: مُوتوا الیوم أعزاء، قبل أن تموتوا غداً أذلاّء (آج عزّت کے ساتھ مرجاؤ، قبل اِس کے کہ کل تمھیں ذلّت کے ساتھ مرنا پڑے)۔
یہ جملہ بتاتا ہے کہ اِن عرب مجاہدین کے نزدیک، اُن کے لیے لیبیا میں صرف دو میں سے ایک کا انتخاب(option) تھا، یعنی بے عزتی کی زندگی جینا، یا عزت کے ساتھ مرجانا۔ مگر یہ صرف ایک ثَنائی سوچ (dichotomous thinking) تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ اُن کے لیے ایک تھرڈ آپشن (third option)بھی وہاں موجود تھا، جوبلاشہبہ اُن کے لیے زیادہ بہتر تھا، اور وہ تھا— سیاسی ٹکراؤ سے اعراض کرتے ہوئے غیرسیاسی میدان میں تعمیری کام کرنا۔ مثلاً تعلیم، دعوت، جدید ٹکنالوجی کو اقتصادی ترقی میں استعمال کرنا، وغیرہ۔
یہی معاملہ فلسطین میں پیش آیا۔ بالفور ڈیکلریشن (Balfour Declaration)کے تحت، فلسطین کے ایک حصے میں اسرائیل کا قیام عمل میں آیا۔یہ1948 کا زمانہ تھا۔ اُس وقت حسن البنا (وفات:1949) اور الاخوان المسلمون نے قاہرہ کی سڑکوں پر بہت بڑا جلوس نکالا۔ اِس جلوس کا نعرہ تھا: لبّیک، یا فلسطین، لبّیک، یا فلسطین۔ حسن البنا، یا الاخوان المسلمون کو بلاشبہہ حکومتی حیثیت حاصل نہ تھی، اِس کے باوجود انھوں نے اسرائیل کے خلاف مسلح جہاد چھیڑ دیا۔ اِس میں شک نہیں کہ یہ غیر حکومتی جہاد بھی ایک مبتدعانہ فعل تھا۔ چناں چہ وہ مکمل طورپرناکام ہوکر رہ گیا۔
اِسی طرح کا معاملہ جموں وکشمیر میں پیش آیا۔ یہاں مختلف ناموں کے ساتھ مجاہدین کی جماعتیں بنیں۔ اِن جماعتوں کو باہر کے مسلم ملکوں سے خفیہ امداد دی گئی۔چناں چہ انھوں نے زبردست جانی اور مالی قربانیوں کے ذریعے کشمیر میں مسلح جہاد شروع کردیا۔ یہ کشمیری مجاہدین، حکومت کا حصہ نہ تھے۔ اِس بنا پر اُنھیں مسلح جہاد کا کوئی شرعی حق نہیں تھا۔ مگر انھوں نے نہایت دھوم کے ساتھ مسلح جہاد شروع کیا۔ اگرچہ خود کُش بم باری کی آخری حد تک پہنچنے کے باوجود وہ اپنے مسلح جہاد میں کوئی بھی کامیابی حاصل نہ کرسکے۔وہ اپنے مطلوب نشانے تک پہنچنے میں پوری طرح ناکام ہوگیے۔
5 - غیر حکومتی گروہوں کے ذریعے مسلّح جہاد کا یہ عمل مکمل طورپر غیر شرعی تھا۔ اِس کے باوجود وہ کیوں جاری رہا۔ اِس کا واحد سبب یہ تھا کہ تمام دنیا کے علما نے یا تو اُس کی کھلی تائید کی، یا خاموش رہ کر اُس کی حوصلہ افزائی کی۔ دو سو سال کی اِس پوری مدت میں پوری مسلم دنیا کے علما کا یہی رویّہ تھا اور تادمِ تحریر اُن کا یہی رویہ بدستور قائم ہے۔ اِس معاملے میں کچھ علما، خاص طورپر عرب علما، اِس حد تک گیے کہ انھوں نے خودکُش بم باری کو بھی ایک جائز فعل قرار دیا۔مثلاً دکتور یوسف القرضاوی نے فلسطینیوں کی خود کش بم باری (suicide bombing) کو استشہاد قر ار دیا ہے، یعنی طلبِ شہادت کا عمل(عملیّۃ استشہادیۃ، المجتمع، 18 جون 1996،صفحہ 34, 35)۔ مگر یہ سرتاسر ایک غیر اسلامی فتویٰ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں شہید ہونا ہے، اسلام میں شہید کروانا نہیں، جن لوگوں نے خود کش بم باری کو استشہاد قرار دیا، انھوں نے بلا شبہہ ایک ایسا فعل کیا جس کا اسلامی شریعت میں کوئی جواز موجود نہیں۔
جیسا کہ تاریخ سے معلوم ہوتا ہے، اِس مدت میں چند علما ایسے نکلے جنھوں نے مذکورہ قسم کے مسلح جہاد سے اتفاق نہیں کیا۔ مثلاً سید احمد بریلوی نے مہاراجا رنجیت سنگھ کے خلاف 1831ء میں پنجاب میں جو مسلح جہاد کیا، اُس کے خلاف خود اُن کے حلقے کے ایک عالم نے اُس سے سخت اختلاف کیا۔ اُن کا نام یہ تھا— مولانا میر محبوب علی دہلوی (وفات: 1864ء)۔ جب سید احمد بریلوی نے ان کی بات نہیں مانی تو وہ اُن سے الگ ہوکر اپنے وطن (دہلی) واپس آگیے۔
اِسی طرح دیوبنداورسہارنپور کے علماء نے 1857 ء میں انگریزوں کے خلاف مسلّح جہاد کیا۔ اُس وقت وہاں ایک بڑے عالم مولانا شیخ محمد تھانوی (وفات: 1865) موجود تھے۔ انھوں نے کہا کہ آپ لوگوں کے لیے یہ مسلح جہاد جائز نہیں۔ اِس پر دیوبند کے علما سے اُن کی گفتگو ہوئی، لیکن علما اُن کی بات کو ماننے پر تیار نہیں ہوئے۔
اِسی طرح الاخوان المسلمون کے مُرشدِ عام حسَن الہُضیبی (وفات: 2004) ایک مصری عالم تھے۔ انھوں نے الاخوان المسلمون سے اختلاف کیا اور اس پر ایک کتاب بھی لکھی جو عربی میں ’دُعاۃ... لاقُضاۃ‘ کے نام سے قاہرہ سے شائع ہوچکی ہے۔ حسن الہضیبی اگر چہ الاخوان المسلمون کے مرشدِ عام تھے، لیکن اِس کتاب کا کوئی اثر الاخوان المسلمون کی تحریک پر نہیں پڑا۔
بعض علما کی یہ اصلاحی کوشش کیوں کامیاب نہ ہوسکی۔ اس کاسبب یہ تھا کہ یہ لوگ زیادہ مدلّل انداز میں اپنی بات پیش نہ کرسکے۔ اُن کے ارشادات زیادہ تر اختلاف کی نوعیت کے تھے، وہ معاملے کی مدلل تردید کی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔ اِس بنا پر اُن کے خیالات کا بے اثر ہوجانا ایک فطری امر تھا اور عملاً ایسا ہی ہوا۔
6 - قرآن میں پیغمبر اور آپ کے ساتھیوں کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے: وقاتلوہم حتیٰ لاتکون فتنۃ، ویکون الدّینُ کلّہ للّٰہ (الأنفال:39) یعنی تم اُن سے جنگ کرو، یہاں تک کہ فتنہ نہ رہے اور دین سب کا سب اللہ کا ہوجائے۔اِس آیت میں ’قاتلوہم‘ سے مراد عوام سے جنگ نہیں، بلکہ سردارانِ وقت سے جنگ ہے۔ جنگ ہمیشہ اقتدار کے مالکوں سے کی جاتی ہے، جیسا کہ قرآن میں آیا ہے: قاتلوا أئمۃَ الکفر (التوبۃ: 12)
اِس آیت میں ’فتنۃ‘ کالفظ استعمال ہوا ہے۔ مفسرینِ قرآن نے عام طورپر یہ لکھا ہے کہ فتنہ سے مراد کفر اور شرک ہے۔ مگر اس کا مطلب مجرد شرک یا اعتقادی شرک نہیں ہوسکتا۔ کیوں کہ شرک یا کفر، دوسرے امتحانی پرچوں کی طرح امتحان کا ایک پرچہ ہے۔ امتحان کے تمام پرچے قیامت تک باقی رہیں گے۔ اُن میں سے کسی امتحانی پرچے کو قیامت سے پہلے منسوخ یا معدوم نہیں کیا جاسکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ اِس آیت میں فتنہ سے مراد شرکِ جارح، یا کفرِ جارح ہے، جیسا کہ عبد اللہ بن عباس کی روایت سے معلوم ہوتا ہے۔
شرکِ جارح کیا چیز ہے، اِس سے مراد وہی چیز ہے جس کو آج کل کی اصطلاح میں مذہبی تعذیب کہاجاتا ہے۔اس کا ایک حوالہ قرآن کی سورہ نمبر 85 میں ملتا ہے۔ اس سورہ میں ارشاد ہوا ہے— ہلاک ہوئے خندق والے جس میں بھڑکتے ہوئے ایندھن کی آگ تھی۔ جب کہ وہ اُس پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اور جو کچھ وہ ایمان والوں کے ساتھ کررہے تھے، وہ اُس کو دیکھ رہے تھے۔ اور اُن سے اُن کی دشمنی اِس کے سوا کسی وجہ سے نہ تھی کہ وہ ایمان لائے اللہ پر، جو زبردست ہے، تعریف والا ہے (البروج:4-8)۔
اصل یہ ہے کہ قدیم زمانے میں مذہب کو اسٹیٹ کے معاملات (state affairs) میں سے ایک معاملہ سمجھتا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں اسٹیٹ ریلیجن (state religion) کے سوا، کسی اور مذہب کو اختیار کرنا، اسٹیٹ سے بغاوت کے ہم معنیٰ تھا۔ یہ صورتِ حال، خدا کے تخلیقی نقشہ (creation plan) کے خلاف تھی۔ خدا کے تخلیقی نقشے کا تقاضا ہے کہ دنیا میں مذہبی جبر نہ ہو، بلکہ مذہبی آزادی ہو۔ تاکہ لوگوں کے بارے میں صحیح یا غلط کا حکم لگایا جاسکے۔اِس لیے خدا نے پیغمبر اور اصحابِ پیغمبر کو یہ حکم دیا کہ وہ اِس سیاسی جارحیت کا خاتمہ کردیں، تاکہ اسٹیٹ کا معاملہ اور مذہبی عقیدے کا معاملہ دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجائیں۔
اِس معاملے پرمزید غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اِس تعلیم کا مطلب انسانی تہذیب میں ایک نیے دور کا آغاز کرنا تھا۔ ایک ایسا دورجس میں اسٹیٹ کا حاکمانہ تعلق صرف انتظامِ مُلکی سے رہے اور بقیہ تمام معاملات حکومتی اقتدار سے باہر کی چیز بن جائیں۔ یہ گویا کہ مذہبی آزادی کی تکمیل ہے۔ اِس معاملے کو دوسرے لفظوں میں، ڈی سنٹرلائزیشن آف پاور(de-centralization of power) کہا جاسکتا ہے۔
سیاسی اقتدار کی تحدید(demarcation) انسانی تاریخ میں ایک انقلابی تبدیلی لانے کا معاملہ تھا۔ اِس قسم کا انقلاب تاریخ میں اچانک واقع نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ ایک لمبے عمل (process) کے ذریعے ظہور میں آتا ہے۔ اِس معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ رسول اور اصحابِ رسول کے زمانے میں شرکِ جارح کو ختم کیا گیا۔ یہ واقعہ عرب میں مشرکانہ اقتدار کے خاتمے اور دوسری طرف بازنطینی ایمپائر اور ساسانی ایمپائر کے خاتمے کے ذریعے پیش آیا۔
اس واقعے کے بعد تاریخ میں ایک نیا پراسس شروع ہوا۔ یہ ڈی سنٹرلائزیشن آف پاور کا پراسس تھا۔ یہ پراسس مدینہ سے شروع ہوا۔ اس کے بعد وہ مسلسل جاری رہا۔ اٹھارھویں صدی کاآخر اِس پراسس کا نقطۂ انتہا (culmination) تھا۔ اِس کے بعد رفتہ رفتہ ساری دنیا میں یہ نظام قائم ہوگیا کہ حکومتی اقتدار کاتعلق صرف انتظام ِ ملکی(administration) تک محدود ہوگیا۔اِس کے سوا، زندگی کے تمام شعبے سیاسی اقتدار سے آزاد ہوگیے۔ مثلاً تعلیم، مذہب، صحافت، نظریاتی اشاعت، صنعت اورتجارت، وغیرہ۔
اِس انقلاب کے بعد دنیا میں ایک نیا دور آگیا، جس کو انسٹی ٹیوشن کا دور کہاجاتا ہے، یعنی وہ دور جب کہ آزاد ادارہ بنا کر کسی بھی کام کو کیا جاسکتا ہے۔ پولٹکل پاور کو اب یہ حق نہیں رہا کہ وہ اداروں کے قیام کو روکے۔ موجودہ زمانے میں سیاسی ادارہ صرف ایڈمنسٹریشن تک محدود ہوگیا۔ اِس کے سوا تمام دوسرے کام، آزاد اداروں کے ذریعے انجام دیے جاسکتے ہیں۔
قتالِ فتنہ کی مذکورہ آیت میں ارشاد ہوا تھا— ’’اور دین سب اللہ کا ہوجائے‘‘۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی انتظام کے سوا جو مذہبی معاملات ہیں، براہِ راست طورپر یا بالواسطہ طورپر، وہ سب سیاسی حاکمیت سے آزاد ہوجائیں۔ انسان کو یہ موقع حاصل ہوجائے کہ وہ مذہب کے معاملے میں آزادانہ طورپر جو چاہے کرے، کسی سیاسی اقتدار کو اُس پر پابندی عائد کرنے کا حق باقی نہ رہے۔
7 - وہ زمانہ جس کو موجودہ زمانہ کہاجاتاہے، وہ اِسی کامل مذہبی آزادی کا زمانہ تھا۔اِس زمانے میں اہلِ اسلام کو مکمل طورپر یہ موقع حاصل تھا کہ وہ سیاسی اقتدار کے محدود دائرے کے باہر اسلام کی تمام سرگرمیاں آزادانہ طورپر جاری کرسکیں۔ اسلامی تنظیم، اسلامی تعلیم، اسلامی دعوت، اسلامی اصلاح، اسلامی اقتصادیات، وغیرہ تمام معاملات میں انھیں پورا ختیار حاصل ہوچکا تھا، مگر زمانی تبدیلی سے بے خبری کی بنا پر اہلِ اسلام جدید مواقع کے استعمال کی منصوبہ بندی نہ کرسکے، بلکہ انتہائی نادانی کے ساتھ سیاست کی چٹان سے ٹکرانے لگے۔
جدید مواقع سے مراد مذہبی آزادی، جدید کمیونکیشن، پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا، ادارتی تنظیم کی جدید سہولتیں، اشاعتِ افکار کے عالمی مواقع، سائنٹفک دلائل کا ظہور، ذہنی کٹرپن کا خاتمہ، اسپرٹ آف انکوائری، انگریزی کی صورت میں عالمی زبان کا وجود میں آنا، اعلیٰ ترین تعلیمی اداروں کے قیام کے امکانات، وغیرہ۔ اِن جدید مواقع کو استعمال کرنے کی صوت میں مسلمان تمام اسلامی مقاصد کو اعلیٰ ترین درجے میں حاصل کرسکتے تھے۔
آغازِ اسلام کے بعد ایک ہزار سال سے زیادہ مدت تک علمائِ اسلام یہ کرتے رہے کہ حکم رانوں سے ٹکراؤ، یا مفروضہ ظالموں کے خلاف مسلّح جہاد سے وہ مکمل طورپر دور رہے۔ انھوں نے اپنی ساری توانائی قرآن اور حدیث اور دوسرے علومِ اسلامی کی خدمت میں لگا دی۔ وہ دعوتِ دین اور تعلیمِ اسلام جیسے کاموں میں مصروف رہے۔ انھوں نے مسجد اور مدرسہ جیسے تعمیری اور ربّانی ادارے قائم کرکے غیر سیاسی انداز میں اسلام کی خدمات انجام دیں۔ اِسی پالیسی کا یہ نتیجہ تھا کہ اسلام ایک اعلیٰ تہذیب اور ایک شان دار تاریخ کے روپ میں دنیا میں قائم ہوگیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ماضی میں اسلام کے تمام شان دار کارنامے علمائِ دین کی اِسی تعمیری پالیسی کا نتیجہ تھے۔
موجودہ زمانے میں علمائِ اسلام کو یہی موقع دوبارہ زیادہ بڑے پیمانے پر حاصل ہوا۔ اُن کو چاہیے تھا کہ وہ اہلِ اقتدار کے خلاف مسلّح جہاد کے ممنوعہ میدان میں نہ داخل ہوں، بلکہ وہ اسلام کو دوبارہ علمی اور فکری اور تہذیبی اعتبار سے آج کی دنیا میں قائم کرنے کی کوشش کریں۔ اگر وہ ایسا کرتے تو وہ قدیم سیاسی ایمپائر سے بھی زیادہ بڑے پیمانے پر اسلام کا غیر سیاسی ایمپائر بنا سکتے تھے، مگر علمائِ اسلام کو زمانی بصیرت سے محرومی کی یہ قیمت دینی پڑی کہ انھوں نے اپنے خیال کے مطابق، قربانی کی یادگاریں تو ضرور قائم کیں، لیکن وہ اسلام کو دنیا کے سامنے اِس طرح پیش نہ کرسکے کہ دینا، اسلام کو اپنے لیے زندگی کا سرچشمہ سمجھے اور حال کا انسان بھی اُس کو اُسی طرح قبول کرے جس طرح ماضی کے انسان نے اس کو آگے بڑھ کر قبول کیا تھا۔