سب سے بڑا مسئلہ
انسان کی زندگی ایک باشعور زندگی ہے۔ انسان ایک زندہ وجود ہے اور اسی کے ساتھ وہ اپنے زندہ ہونے کا شعور بھی رکھتا ہے۔ اس کا یہ شعور حسّاسیت (sensitivity)کی حد تک بڑھا ہوا ہے۔ انسان کامل درجے میں باشعور ہے اور اسی کے ساتھ وہ کامل درجے میں حسّاس بھی ہے۔انسان کی اِس صفت کا نتیجہ یہ ہے کہ اُس کو کوئی اچھا تجربہ ہو تو وہ بہت زیادہ خوش ہوتا ہے، اور اگر اس کو کوئی بُرا تجربہ پیش آئے تو وہ بہت زیادہ پریشان ہوجاتا ہے۔ خوشی اورغم دونوں قسم کے جذبات انسان کے اندر آخری انتہائی درجے تک پائے جاتے ہیں۔
انسان کے اندر یہ دونوں صفتیں پیدائشی طورپر پائی جاتی ہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ آدمی بہت زیادہ جنت کا طالب بنے اور وہ بہت زیادہ جہنم سے ڈرنے والا بن جائے۔ کیوں کہ موت کے بعد ہر آدمی کا آخری ٹھکانہ یا تو جنت میں ہونے والا ہے، یا جہنم میں۔ جنت ابدی طورپر خوشیوں اور راحتوں کی جگہ ہے اور جہنم ابدی طورپر غم اورحسرت کی جگہ۔ آدمی اپنے عمل کے اعتبار سے دونوں میں سے کسی انجام تک لازماً پہنچنے والا ہے۔ اِس لیے ہر انسان کو اِس معاملے میں سب سے زیادہ فکر مند ہونا چاہیے۔ مگر عجیب بات ہے کہ انسان اِس سنگین ترین معاملے میں اُس حدیثِ رسول کی تصویر بنا ہوا ہے جو اِن الفاظ میں آئی ہے: ما رأیتُ مثلَ الجنّۃ نامَ طالبِہَا، ومارأیتُ مثلَ النّارِ نامَ ہَارِبُہَا ( الترمذی، کتاب صفۃُ جہنّم)۔ یعنی کیسی عجیب بات ہے کہ لوگ جنت جیسی قیمتی چیز کے طالب نہیں بنتے، اور کیسی عجیب بات ہے کہ لوگ جہنم جیسی خوف ناک چیز سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے۔
خدا کا خوف کوئی منفی چیز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ خدا کی معرفت جب اپنے آخری درجے میں پہنچتی ہے تو وہ خدا کا خوف بن جاتی ہے۔ ایسا آدمی بے پناہ حد تک جنت کا طالب بن جاتا ہے۔ اِسی کے ساتھ اُس کو ہر وقت یہ اندیشہ لگا رہتا ہے کہ اگر خدا نے اس کے لیے جنت کا فیصلہ نہ کیا تو اس کا کیا حال ہوگا۔ یہ معرفت کا اعلیٰ درجہ ہے، اور اِسی اعلیٰ معرفت کا نام تقویٰ ہے۔