تحفہ کی نفسیات
ایک سفر میں میری ملاقات کویت کے ایک عرب پروفیسر سے ہوئی۔ ان کے ہاتھ پر ایک خوبصورت گھڑی بندھی ہوئی تھی۔ میں نے ان سے ٹائم پوچھا تو وہ اپنی گھڑی کی شکایت کرنے لگے۔ میں نے کہا کہ کویت میں تو اچھی گھڑیاں ملتی ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ آپ کا کہنا صحیح ہے مگر یہ تحفہ کی گھڑی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تحفہ کی نفسیات یہ ہے کہ لوگ خوش نما چیز دیتے ہیں نہ کہ کار آمد چیز۔
تحفہ کے بارے میں یہ عام مزاج ہے۔ تحفہ میں اکثر لوگ کئی چیزیں دیتے ہیں مگر ہر چیز ناقص ہوتی ہے۔ زیادہ بہتر یہ ہے کہ جو پیسہ چار چیزوں میں لگایا گیا ہے اس سے صرف ایک چیز خریدی جائے اور اس کو تحفہ میں دیا جائے۔تحفہ کا مقصد یہ ہے کہ آپس میں دوستی بڑھے، آپس میں ایک دوسرے کے درمیان اعتماد قائم ہو۔ لوگ ایک دوسرے کے خیر خواہ بن کر زندگی گذاریں مگر مذکورہ قسم کے تحفہ کا نتیجہ ہمیشہ الٹا ہوتا ہے۔نمائشی مزاج کے تحت دیا ہوا تحفہ کبھی کسی حقیقی فائدہ کا سبب نہیں بن سکتا۔ نمائشی تحفہ صرف ایک دوسرے کے درمیان تلخی اور بے اعتمادی پیدا کرتا ہے۔ ایسا تحفہ کبھی محبت کا ذریعہ نہیں بن سکتا۔
تحفہ پانے والا جب دیکھتا ہے کہ تحفہ دینے والے نے اپنے بیٹے اور اپنی بیٹی کو تو کار آمد تحفہ دیا ہے اور مجھ کو صرف نمائشی تحفہ دے دیا ہے تو ایسا تحفہ صرف بیزاری پیدا کرتا ہے۔ تحفہ پانے والا تحفہ دینے والے کے بارے میں سخت بد گمان ہوجاتا ہے۔ تحفہ دینے والے کے بارے میں اس کی رائے خراب ہو جاتی ہے۔
صحیح طریقہ یہ ہے کہ یا تو تحفہ نہ دیا جائے، یا اگر تحفہ دینا ہے تو اچھا اور کار آمد تحفہ دیا جائے جس کو لے کر تحفہ پانے والا خوش ہو۔ اگر لوگ یہ کرتے ہیں کہ ایک شخص سے انہیں ایک نمائشی تحفہ ملا اور پھر اس کو انہوں نے کسی دوسرے کے حوالہ کردیا۔ تحفہ دینے والے کو جاننا چاہیے کہ یہ بات کبھی چھپتی نہیں۔ تحفہ پانے والا کسی نہ کسی طرح اس کو جان لیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ تحفہ دینے والے کے بارے میں اگر تحفہ پانے والے کی رائے اچھی تھی تو اب اس کے بارے میں اس کی رائے خراب ہوجاتی ہے۔