سوال وجواب
سوال
اپنے علم میں اضافہ کی غرض سے میں نے اپنے ۲۱ جون ۲۰۰۴ء کے خط میں آپ کی مدد چاہی تھی۔ مگر آپ کا جواب مورخہ ۳ جولائی اپنی نوعیت میں میرے استفسار کا جواب نہیں ہے بلکہ محض میرے سوال کی تردید ہے۔ عالمانہ جواب باقی ہے۔
“ذوالکفل‘‘ نص ہی کے تو الفاظ ہیں۔ النبی الخاتم کا حوالہ اس لیے نہیں تھا کہ آپ میرے ہم خیال ہوجائیں بلکہ اس لیے تھا کہ براہِ راست اسے دیکھ لیں اور اس کی روشنی میں دوسرے علماء و مفسرین جن تک میری رسائی نہیں ہے، اور آپ کی یقینا ہوسکتی ہے، ان کی تحقیق یا آراء کی روشنی میں مفصل رہنمائی فرمائیں۔ (محمد رضوان احمد، شیخ پورہ، بہار)
جواب
ذوالکفل کا ذکر قرآن میں دو سورتوں میں آیا ہے: سورہ جن اور سورہ الأنبیاء۔ مگر قرآن یا حدیث میں ذو الکفل کے بارے میں مزید تفصیل مذکور نہیں۔ بعض مفسرین مثلاً مفسر آلوسی (صاحب روح المعانی) نے لکھا ہے کہ ذو الکفل سے مراد وہ بزرگ ہیں جن کا ذکر بائبل میں حزقی ایل پیغمبر کی حیثیت سے آیا ہے۔ مگر یہ محض قیاس ہے۔ اس کی کوئی بنیاد نہ تاریخ میں موجود ہے اورنہ قرآن و حدیث میں۔ خود بائبل میں حزقی ایل کا ذکر تو ہے مگر بائبل میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ حزقی ایل کا لقب ذو الکفل تھا۔ ذوالکفل کے لفظی معنیٰ صاحب نصیب کے ہوتے ہیں۔
میرے نزدیک اس قسم کے مسائل میں زیادہ غور و خوض کرنا درست نہیں۔ غور و خوض مفید طورپر صرف اُن مسائل میں کیا جاسکتا ہے جن میں رائے قائم کرنے کے لیے کوئی متفق علیہ بنیاد موجود ہو۔ یہ بنیاد صرف دو ہوسکتی ہے، تاریخ یا وحی۔ مگر ذوالکفل کے بارہ میں رائے قائم کرنے کے لیے دونوں میں سے کوئی بھی بنیاد دستیاب نہیں۔ ایسی حالت میں اس سوال کو اُس خانہ میں ڈالنا چاہیے جس کی بابت حدیث میں آیا ہے کہ خدا نے کچھ باتوں کو علم کے باوجود ظاہر نہیں کیا ہے۔ اس لیے انسان کو چاہیے کہ وہ ان معاملات میں بحث نہ کرے (وسکت عن اشیاء من غیر نسیان فلا تبحثوا عنہا)۔
ذوالکفل کے بارہ میں زیادہ اہم بات یہ ہے کہ اُن کا ذکر قرآن میں کس پہلو سے آیا ہے۔ وہ پہلو یہ ہے کہ ذوالکفل اور دوسرے انبیاء کا ذکر کرکے قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ یہ سب کے سب صبر کرنے والے لوگ تھے (الأنبیاء ۸۵) ایسی حالت میں ہمیں اس سے یہ نصیحت لینا چاہیے کہ ذو الکفل اور دوسرے پیغمبروں کا کردار صابرانہ کردار تھا۔ ہمیں بھی اسی پیغمبرانہ اُسوہ کو لیتے ہوئے ہر معاملہ میں صبر کی روش اختیار کرنا چاہیے۔
سوال
سورہ المائدہ،آیت نمبر۳۵ کا ترجمہ آپ کی تفسیر تذکیر القرآن میں اس طرح ہے:
“اے ایمان والو، اللہ سے ڈرو اور اُس کا قرب تلاش کرو اور اس کی راہ میں جدوجہد کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔(المائدہ ۳۵)
اس آیت میں ’’وسیلہ‘‘ عربی لفظ ہے جس کے معنٰی یہاں کے علماء بزرگان دین کا وسیلہ لیتے ہیں۔ مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اللہ کے یہاں کسی بادشاہ کے پاس حاضر ہونے کے لیے جس طرح مصاحب یا سفارشی کی ضرورت پڑتی ہے ایسا نہیں ہے۔ انسان اللہ پاک سے براہِ راست بلاکسی انسانی واسطہ کے قرب حاصل کرسکتا ہے۔ میں کہاں تک صحیح سمجھتا ہوں مطلع فرمائیں۔ (ایس۔ اے رضوی۔ حیدر آباد)
جواب
وسیلہ کے معنٰی عربی زبان میں تقرب کے ہوتے ہیں۔ آیت کے الفاظ بتاتے ہیں کہ یہاں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اہل ایمان کو چاہیے کہ وہ خوف خدا اور دینی جد وجہد کے ذریعہ اللہ کی قربت تلاش کریں۔ آیت کے الفاظ اگر یہ ہوتے کہ و ابتغوا الوسیلۃ الیہ تو اس کا مطلب ہوتا کہ خدا کا تقرب تلاش کرو۔ لیکن آیت کے الفاظ یہ ہیں کہ: وابتغوا الیہ الوسیلۃ، یعنی الیہ کا لفظ وسیلۃ سے پہلے لایا گیا ہے۔ اس سے یہاں حصر کا مفہوم پیدا ہوگیا یعنی خدا کی ہی قربت تلاش کرو۔
حقیقت یہ ہے کہ اس آیت میں دوسروں کا تقرب تلاش کرنے کی نفی کی گئی ہے نہ یہ کہ دوسروں کو وسیلہ بنا کر خدا کی قربت حاصل کرو۔ خدا سے تقرب کے لیے دوسروں کو وسیلہ بنانا سراسر قرآن کی روح کے خلاف ہے۔ اس طرح کی کسی بات کا ثبوت خود نص قرآنی میں ہونا چاہیے۔ کوئی خارجی تمثیل اس طرح کی بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں۔
سوال
قرآن میں ہے ’’ولکُلِّ قومٍ ہاد‘‘ مگر قرآن ہی کی رو سے صرف عرب ممالک میں پیغمبروں کی بعثت ثابت ہے، نہ ایشیا کے دوسرے ممالک اور نہ یورپی ممالک کا ذکر ہے، مثلاً:
نوح عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ عراق میں تبلیغ کرتے رہے
لوط عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ اردن میں ؍؍ ؍؍
ہود عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ یمن میں ؍؍ ؍؍
شعیب عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ مدین میں ؍؍ ؍؍
صالح عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ شمالی عرب میں ؍؍ ؍؍
موسی عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ مصرمیں ؍؍ ؍؍
عیسی عَلَيْهِ ٱلسَّلَامُ فلسطین میں ؍؍ ؍؍
وغیرہ وغیرہ۔ ہندستان کے بدھ، رام، کرشن وغیرہ کے بارے میں بھی کئی وجوہ کی بنا پر رائے قائم نہیں کی جاسکتی۔اس طرح موجودہ دنیا کا بہت بڑا خطہ اور بہت ساری قومیں ایسی ہیں جن میں پیغمبر کے آنے کا ثبوت کہیں بھی نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں میں آپ کی رائے جاننا چاہتا ہوں (عبدالاحد، بنگلور)
جواب
قرآن کوئی تاریخ الانبیاء نہیں ہے۔ اس لیے قرآن میں تمام نبیوں کا تذکرہ موجود نہیں۔ اس معاملہ میں صحیح بات یہ ہے کہ ہم مجمل طور پر یہ مانیں کہ ہر زمانہ میں اور ہر مقام پر خدا نے اپنے پیغمبر بھیجے، جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے۔ قرآن کا اصل مقصد انسان کو جنت کا راستہ دکھانا ہے، اور اس مقصد کے لیے تمام انبیاء کی فہرست جاننا ضروری نہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ یہ سوال صرف غیر مذکورانبیاء کے بارے میں نہیں ہے۔ خالص علمی اعتبار سے دیکھا جائے تو تمام پچھلے انبیاء صرف اعتقادی شخصیتیں ہیں۔ خالص تاریخی معیار کے مطابق، وہ ثابت شدہ نہیں۔ انبیاء کی طویل فہرست میں صرف ایک استثناء ہے اور وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ ایک مستشرق نے آپ کی اس استثنائی حیثیت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا ہے کہ محمد تاریخ کی پوری روشنی میں پیدا ہوئے:
Mohammad was born within the full light of history.
اس سلسلہ میں تیسری بات یہ ہے کہ خود قرآن کے مطابق بھی یہ سوال صرف غیر مذکور انبیاء کے بارے میں نہیں ہے۔ وہ خود مذکورہ شخصیتوں کے بارے میں بھی ہے۔ مثلاً ان انبیاء کا ذکر تو قرآن میں آیا ہے مگر دیگر ضروری تفصیلات موجود نہیں۔ حتیٰ کہ کچھ بزرگ شخصیتوں کے نام بھی قرآن میں موجود نہیں۔ مثلاً قرآن میں ایک حق پسند انسان کا ذکر رَجُل کے لفظ کے ساتھ آیا ہے مگر ان صاحب کے بارے میں اور کچھ قرآن میں مذکور نہیں (یٰس ۲۰)
ایسی حالت میں صحیح اور محفوظ طریقہ یہ ہے کہ اپنی ذہنی کاوش ان باتوں کے دائرہ میں محدود رکھی جائے جو قرآن میں مذکور ہیں۔ جو باتیں قرآن میں مذکور نہیں ان کے بارے میں ذہنی کاوش کرنا آدمی کو صرف کنفیوژن تک پہنچائے گا۔ وہ کسی کو یقین کے درجہ تک پہنچانے والا نہیں۔
سوال
الرسالہ جولائی ۲۰۰۴ کو پڑھ کر میرے ذہن میں چند سوالات ابھرے جس نے مجھے خط لکھنے پر مجبور کردیا۔آپ الرسالہ کے صفحہ ۵ پر لکھتے ہیں کہ ’’اگر انگریز ہندستان نہ آتے تو ہندستان ابھی کم ازکم ۱۰۰ سال پیچھے ہوتا‘‘۔ مجھے آپ کا یہ جملہ بے حد شاک گزرا۔ کیوں کہ اس جملہ میں آپ نے لفظ ’’اگر‘‘ کا استعمال کیا ہے جو کہ خلاف شرع ہے۔ جیسا کہ خود آنجناب نے اپنی مرتب کردہ کتاب ’’حدیث رسول‘‘ کے صفحہ ۱۸ پر حدیث نمبر ۴۳ کا ترجمہ اس طرح کیاہے ’’ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ طاقتور مومن بہتر ہے کمزور مومن سے، اور ہر ایک کے لیے خیر ہے۔ تم اس چیز کے حریص نہ بنو جو تم کو نفع دینے والی ہے اور اللہ سے مدد مانگو اور ہمت نہ ہارو۔ اور اگر تمہارے اوپر کوئی مصیبت آئے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں نے ایسا اور ایسا کیا ہوتا تو بچ جاتا۔ بلکہ یہ کہو کہ اللہ کا مقدر تھا۔ اللہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔ کیوں کہ ’’اگر‘‘ شیطان کے عمل کا دروازہ کھولتا ہے۔
مذکورہ حدیث کی روشنی میں آپ کا جملہ کیا ظاہر کرتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی مرضی سے انگریز ہندستان آئے اور اللہ ہی کی مرضی سے ہندستان کا نقشہ بدلا۔ پھر یہ کیوں کہا جائے کہ اگر ایسا ہوتا تو ایسا ہوتا۔ وہ بھی ایک عالم دین کو تو ہر گز ایسی بات نہ لکھنی چاہیے۔ پھر بھی آپ نے اتنی بڑی بات کیسے لکھ دی۔ وضاحت کریں۔
الرسالہ کے اسی شمارہ میں صفحہ ۲۳ پر آپ لکھتے ہیں کہ ۲۴ نومبر ۲۰۰۳ کو دوپہر کے کھانے کے بعد حسب معمول کھانا شرکاء کانفرنس کے ساتھ کھایا۔ گویا کہ آپ نے رمضان المبارک کے مہینے میں بھی روزہ توڑ دیا اور آپ باضابطہ اس کا اعلان کررہے ہیں کہ میں نے دن میں کھانا کھایا۔ یہ بھی واقعہ خلاف شرع ہے کہ آدمی اسلام کی نمائندگی کرنے کے لیے غیر مسلموں کے اجتماع میں جائے اور روزہ نہ رکھے۔ حالانکہ ایسے موقع پر تو روزہ رکھ کر غیر مسلم حضرات کو مزید متاثر کیا جاسکتا ہے کہ دیکھو ہر معاملہ میں اسلام ہی ہمارے لیے سب سے اونچی چیز ہے۔ جو کہ اپنی خواہشوں کی قربانی مانگتا ہے جو کہ ہر حالت میں اور ہر وقت اللہ کی مرضی پر عمل کرنے والا انسان بنا دیتا ہے۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔ اس پر مزید اضافہ یہ کہ آپ لوگوں کو بتابھی رہے ہیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ کیا سفر کی تمام سہولت کے باوجود بھی شریعت کی وہی بات لاگو ہوگی ’’سفر میں قصر‘‘۔ حالاں کہ شریعت کا اصول ہے کہ حالات کے تحت احکام بدل جاتے ہیں۔ کیا آپ اس کی وضاحت کریں گے کہ آپ نے اس دن روزہ کیوں نہیں رکھا۔
مذکورہ واقعہ پر خود آپ کی بات آپ ہی پر لاگو ہوگی جو کہ آپ نے ایک صاحب کے بارے میں الرسالہ کے اسی شمارہ صفحہ ۱۹ پر ایک حدیث کا ترجمہ کیا ہے کہ ’’مجھے سب سے زیادہ اندیشہ اس منافق انسان سے ہے جو حکمت کی بات کرے مگر اس کا عمل اس کے خلاف ہو۔مولانا صاحب کیا آپ وضاحت کرکے ہم قارئین کو مطمئن کریں گے۔(شاہ عمران حسن، دلاور پور، بہار)
جواب
)۱(یہ صحیح ہے کہ حدیث میں لَو (اگر) کے استعمال سے منع کیا گیا ہے مگر یہ ممانعت مطلق معنوں میں نہیں ہے۔ چنانچہ حدیث اور اقوال صحابہ میں کثرت سے اس کا استعمال موجود ہے۔ مثلاً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لو کان موسیٰ حیا ما وسعہ الا اتباعی۔ اسی طرح حضرت عمر فاروق نے فرمایا: لو لا عَلِیّ لہلک عمر۔ لو کا استعمال کس موقع پر منع ہے اس کو آپ میرے مذکورہ مضمون میں پڑھ کر جان سکتے ہیں۔
)۲(رمضان کے مہینہ میں اگر سفر پیش آجائے تو روزہ قضا کیا جاسکتا ہے۔یہ خود قرآن میں موجود ہے اور تمام علماء اور فقہاء کا اس پر اتفاق ہے۔ میرے سفر نامہ میں جس واقعہ کا ذکر ہے وہ حالت سفر کا واقعہ ہے، وہ حالت حضر کا واقعہ نہیں۔
)۳(ایک عربی مثل میں کہا گیا ہے کہ الناس أعداء ما جہلوا (لوگ اس چیز کے دشمن ہوجاتے ہیں جس سے وہ بے خبر ہیں )۔میرا تجربہ ہے کہ اکثر لوگوں کی تنقیدیں اور الزامات اسی قول کا مصداق ہوتے ہیں۔ مجھے ان لوگوں پر سخت تعجب ہے جو علم تو حاصل نہیں کرتے البتہ اپنا یہ حق سمجھتے ہیں کہ وہ زبان و قلم سے بے مہابا تنقید کرتے رہیں۔ حالاں کہ اس قسم کی تنقید اخلاقی نقطۂ نظر سے ایک غیر سنجیدہ فعل ہے اور اسلامی نقطۂ نظر سے وہ سخت گناہ کی بات ہے۔
سوال
الرسالہ جون ۲۰۰۴ کے صفحہ ۲۸، سوال نمبر ۱۲ کے جواب میں آپ نے فرمایا ’’مدارس پر الزام لگانا غلط ہے۔ مگر اسی کے ساتھ یہ بھی صحیح ہے کہ مدارس کے نظام میں عین وہی ذہن بنتا ہے جس کو جہادی ذہن کہا جاتا ہے‘‘۔اور جواب کے آخری جملہ میں آپ نے تحریر فرمایا ہے ’’ایسی حالت میں مدارس کو اس معاملہ میں مکمل طور پر بے قصور نہیں کہا جاسکتا‘‘۔
جولائی ۲۰۰۴ کے الرسالہ میں صفحہ ۲۹۔۳۰ پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے آپ نے فرمایا ’’میں خود ایک مدرسہ کا پروڈکٹ ہوں۔ میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مدرسہ کا کوئی تعلق ٹررزم سے نہیں ہے۔ کم ازکم مجھے کوئی ایسا مدرسہ معلوم نہیں جہاں مدرسہ کے نظام کے تحت ٹررزم کی تعلیم دی جاتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ مدرسہ صرف تعلیم کے لیے ہے۔ وہاں کے نصاب یا وہاں کے نظام کا کوئی تعلق اس چیز سے نہیں جس کو آج کل ٹررزم کہا جاتا ہے‘‘۔
ایک طرف آپ کو اس حقیقت کااعتراف ہے کہ مدرسوں میں صرف دینی تعلیم دی جاتی ہے اور آج کل جسے ٹررزم کہا جاتا ہے اس کا تعلق ان مدارس سے نہیں ہے۔ اور اسی کے ساتھ یہ بھی آپ کہہ رہے ہیں کہ ان مدارس کے نظام میں وہی ذہن بنتا ہے جس کو جہادی ذہن کہا جاتا ہے، یہ کہاں تک درست ہے۔ کیا یہ تضاد بیانی اس بات کی گواہ نہیں ہے کہ دینی مدارس کے تعلق سے آپ کی تحقیق حقیقت پر غالب آگئی ہے اور اس الزام کو تقویت دیتی ہے کہ دینی مدارس میں جہادی ذہن سازی ہوتی ہے جو ٹررزم کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے۔گذارش ہے کہ آپ اس تضاد بیانی کو الرسالہ کے کسی آئندہ شمارے میں واضح فرمائیں گے۔ (محمد بشیر احمد)
جواب
آپ نے دو باتوں کے فرق کو نہیں سمجھا۔ اس لیے آپ کو میرے مضمون میں تضاد نظر آیا۔ جو لوگ فرق کے اصول کو نہیں سمجھتے ان کو قرآن میں بھی تضاد نظر آتا ہے۔ مثلاً ایک مستشرق نے لکھا ہے کہ قرآن میں ایک جگہ کہا گیا ہے کہ منکرین قیامت میں اندھے اٹھائے جائیں گے (طٰہ ۱۲۵) اور دوسری جگہ قرآن میں منکرین کے بارے میں ارشاد ہوا ہے کہ قیامت میں ان کی نگاہ بہت تیز ہوگی (ق ۲۲) مستشرق نے اس کو تضاد کا معاملہ سمجھا۔ حالاں کہ یہ فرق کا معاملہ ہے۔ یعنی ایک بات کے دو الگ الگ پہلوؤں کو بتانا۔
میں نے اپنی تحریروں میں بار بار یہ بات لکھی ہے کہ ہمارے علماء جو مدارس میں تیار ہو کر نکلے، وہ تقریباً سب کے سب فکری اعتبار سے جہاد (بمعنٰی قتال) کا ذہن لے کر نکلے۔ ہر ایک نے اپنی تقریروں اور تحریروں میں کہا کہ اسلام کا اقدامی عمل جہاد (بمعنٰی قتال) ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال مولانا تقی عثمانی کی کتاب فقہی مقالات ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے اپنے والد مولانا مفتی محمد شفیع صاحب کا یہ نظریہ بتایا ہے کہ اسلام کا اقدامی عمل جہاد (بمعنٰی قتال) ہے۔
میں اس نقطۂ نظر کو غلط سمجھتا ہوں۔ میں نے اپنی تحریروں میں بار بار یہ واضح کیا ہے کہ اسلام کا اقدامی عمل پر امن دعوت ہے۔ جہاد (بمعنٰی قتال) ایک دفاعی کارروائی ہے جو استثنائی طورپر کبھی پیش آتی ہے۔ مزید یہ کہ اس دفاعی کارروائی کا حق صرف باضابطہ طورپر قائم شدہ حکومت کو ہے۔ غیر حکومتی تنظیموں کو ہرگز مسلح جہاد کی اجازت نہیں۔ جس شخص نے میری تحریروں کو پڑھا ہو اس کو میرا یہ نقطۂ نظر پوری طرح معلوم ہوگا۔
البتہ اسی کے ساتھ میرا یہ خیال ہے اور اس کو میں نے بار بار اپنی تحریروں میں واضح کیا ہے کہ ہندستان کے مدارس میں عملی عسکریت یا عملی ٹررزم کی نہ تو تربیت ہوتی ہے اور نہ یہ مدارس اس قسم کی کسی عملی تحریک کا اڈہ ہیں۔ البتہ بعض دوسرے ملکوں میں ایسے مدارس ضرور پائے جاتے ہیں جو عملی عسکریت میں ملوث ہیں۔ میں نے ان مدارس پر تنقید کی ہے اور یہ لکھا ہے کہ کسی بھی مدرسہ کے لیے یہ جائز نہیں کہ عملی طور پر وہ عسکریت کا نظام چلائے۔ بالفرض کسی ملک میں دفاعی جہاد کی ضرورت پیدا ہوجائے تب بھی عملی دفاع کی ذمہ داری صرف قائم شدہ حکومت کی ہوگی۔ اسلامی تعلیم کے مطابق، کسی مدرسہ یا کسی غیر حکومتی تنظیم کے لیے ہر گز یہ جائز نہیں کہ وہ جہاد کے نام پر مسلح جدوجہد شروع کردے۔
سوال
میں آپ کا الرسالہ برابر پڑھتا ہوں اور آپ کی بیشتر کتابیں بھی میں نے پڑھی ہیں۔ آپ اکثر دوسروں کے اوپرتنقید کرتے ہیں۔ میری ادباً آپ سے گذارش ہے کہ آپ اپنی تحریروں میں تنقیدی باتوں کو نہ لائیں تو بہتر ہے۔ کئی لوگ آپ کے تعلق سے مشکوک ہوجاتے ہیں۔ اس طرح اُمت کا ایک بڑا طبقہ آپ کی دینی کتابوں سے دوری اختیار کیے ہوئے ہے۔ یہ امت کا بہت بڑا خسارہ ہے (قاضی ظہور الدین، اورنگ آباد)
جواب
تنقیدی اسلوب کے بارہ میں اصل مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کو ن اُس کو پسند کرتا ہے اور کون اُس کو پسند نہیں کرتا۔ اس معاملہ میں اصل سوال یہ ہے کہ مسنون اُسلوب کیا ہے۔ واقعات بتاتے ہیں کہ تمام پیغمبربشمول پیغمبر اسلام کا اُسلوب تنقیدی ہی تھا۔ اسی لیے اُن کے معاصرین اُن سے غصہ ہوتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ تنقیدی اُسلوب مسنون اُسلوب ہے اور غیر تنقیدی اُسلوب مبتدعانہ اُسلوب۔
تنقید کے معاملہ میں صرف ایک شرط عاید کی جاسکتی ہے۔ وہ یہ کہ تنقید کو تنقیص یا تعییب نہیں ہونا چاہیے۔ تنقید کو تمام تر دلائل پر مبنی ہونا چاہیے۔ تجربہ بتاتا ہے کہ تنقیدی اسلوب ہی کے ذریعہ ذہنوں میں انقلاب آتا ہے۔ غیر تنقیدی اسلوب کے ذریعہ کوئی حقیقی تبدیلی لانا ممکن نہیں۔ غیر تنقیدی اُسلوب عوام کی بھیڑ تو اکھٹا کر سکتا ہے مگروہ سیرت و کردار میں انقلاب نہیں لا سکتا۔
سوال
میں آپ کے کام کو جہاد سمجھتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ آپ کے کام میں برکت عطا فرمائے۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ چند شاگرد تیار کردیتے تاکہ آپ کے بعد آپ کا یہ مشن جاری رہتا۔ لیکن معلوم ہوتا ہے کہ کوئی دوسرا شخص آپ کے معیار پر پورا نہیں اُترتا ہوگا کیوں کہ آپ perfectionist ہیں۔ اگر آپ اس جانب توجہ فرمائیں تو بہت بہتر ہوگا۔ (ناصر مصطفی، راولپنڈی، پاکستان)
جواب
ایک ایسا مشن جو انسانی فطرت پر مبنی ہو اور جس کے اندر یہ طاقت ہو کہ وہ ذہن کی تشکیل نو کرسکے، وہ اپنے آپ ایسے افراد پیدا کرتا ہے جو مشن کو جاری رکھنے کی ضمانت ہے۔ یہ ایک طاقتور مشن کی تصغیر ہے کہ اس کے بارے میں یہ سوال کیا جائے کہ وہ مشن کو زندہ رکھنے کے لیے افراد پیدا کررہا ہے یا نہیں۔ اللہ کے فضل سے الرسالہ مشن کے تحت ساری دنیا میں ایسے افراد پیدا ہورہے ہیں جو اس مشن کو مستقبل میں جاری رکھنے کی ضمانت ہیں۔
ہمارے مشن کے تحت جو عام تقریری اور تحریری سرگرمیاں جاری ہیں ان کا مختصر تذکرہ الرسالہ میں آتا رہتا ہے۔ اس کے علاوہ ہم اسپریچول کلاس کے نام سے دہلی میں ایک ہفتہ وار کلاس چلاتے ہیں۔ اس میں اعلیٰ تعلیم یافتہ مسلم اور غیر مسلم شریک ہوتے ہیں۔ اللہ کے فضل سے اس کے نتائج بے حد امید افزا ہیں۔ یہ کہنا شاید مبالغہ نہ ہو کہ اس کلاس کے ذریعہ پہلی بار یہ کوشش کی جارہی ہے کہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ذہنی تعمیر کی جائے۔ اس کلاس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی لوگ شریک ہوتے ہیں۔
آج کل ہمارے خلاف جو بے بنیاد پروپیگنڈہ کیا جارہا ہے۔ اس کو دیکھ کر منفی رائے قائم کرنے کی ضرورت نہیں۔ اس قسم کے پروپیگنڈے صرف مشن کی قوت کا اعتراف ہیں۔ اس قسم کے پروپیگنڈے کبھی کسی مشن کو روکنے والے ثابت نہیں ہوئے۔ ہمارے مشن کو بھی انشاء اللہ وہ کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں گے۔
سوال
میں حفظ کا طالب علم تھا۔ حفظ کے دوران میں نے ایک مدرسہ کو چھوڑ کر دوسرے مدرسہ میں داخلہ لیا۔ استاد صاحب نے مجھ سے کہا کہ تم کیوں مدرسہ چھوڑ رہے ہو۔ میں نے انہیں کوئی وجہ نہیں بتائی تو انہوں نے کہا کہ اگر تم بغیر کسی وجہ کے مدرسہ چھوڑ رہے ہو تو تم تعلیم حاصل نہیں کرسکتے۔ استاد صاحب کی بات بالکل صحیح ہوئی اور میری یادداشت بہت کم ہوگئی۔ مجھے کچھ بھی یاد کرنے میں مشکل ہوتی ہے اور جلد بھول بھی جاتا ہوں اور میں یہ بھی نہیں جانتا کہ وہ اس وقت کہاں ہیں۔ مدرسہ چھوڑنے کی وجہ استاد صاحب کا ڈر تھا۔ اب مجھے کیا کرنا چاہیے۔ (عاطف، کراچی)
جواب
آپ کی یاد داشت اگر کم ہوگئی ہو تو اس کا سبب ہر گز استاذ صاحب کا مذکورہ قول نہیں ہے۔ کسی کے قول سے یا کسی کی بد دعا سے کسی شخص کا حافظہ ختم نہیں ہوسکتا۔ یہ قانون فطرت کے خلاف ہے۔
میرے اندازہ کے مطابق، آپ کی یاد داشت پہلے ہی کمزور ہوچکی تھی اور غالباًاس کی وجہ سے آپ کو دشواری پیش آرہی تھی۔ آپ کی دشواری پر پچھلے استاد نے ہمدردانہ غور نہیں کیا بلکہ آپ کے ساتھ سختی شروع کردی۔ اس بنا پر آپ نے پچھلا مدرسہ چھوڑ دیا۔ اب حافظہ کی کمزوری کا تجربہ جوآپ کو ہورہا ہے وہ در اصل پچھلی حالت کا تسلسل ہے اس کے سوا اور کچھ نہیں۔
اس معاملہ میں غلطی آپ کی نہیں ہے بلکہ آپ کے سرپرستوں اور آپ کے اساتذہ کی ہے۔ آج کل یہ ایک عجیب رواج ہوگیا ہے کہ وہ مطلق طورپر اور بچہ کے ذہن کا اندازہ کئے بغیر لوگ اس کو تحفیظ القرآن کے مدرسہ میں ڈال دیتے ہیں۔ اس عمومی رواج کا سبب وہ بے اصل روایتیں ہیں جن میں حافظ قرآن کے بارے میں عجیب وغریب قسم کے غیر ثابت شدہ فضائل عوام میں پھیل گئے ہیں۔ حفظ بلا شبہہ ایک اچھا کام ہے مگر ہر ایک کو حافظ بنانا ہر گز ضروری نہیں۔ اب ہم پریس کے دور میں ہیں۔ قرآن آخری طورپر محفوظ کتاب بن چکا ہے۔ اب اصل اہمیت تعلیم قرآن کی ہے نہ کہ تحفیظ قرآن کی۔ یہ طریقہ بلا شبہہ درست نہیں کہ لوگ خود ساختہ عقائد کے تحت چھوٹے بچوں پر حفظ قرآن کا بوجھ ڈال دیتے ہیں جس کے نتیجہ میں ان کا دماغ ہمیشہ کے لیے کمزور ہوجاتا ہے۔ اگر کوئی شخص حفظ قرآن کو ضروری سمجھتا ہو تو اس کو یہ کام پختہ عمر میں پہنچنے کے بعد کرنا چاہیے۔ ناپختہ عمر میں چھوٹے بچوں کو حفظ قرآن کرانا بلا شبہہ نظام فطرت کے خلاف ہے اور جو چیز نظام فطرت کے خلاف ہو وہ کبھی مطلوب نہیں۔
میرا مشورہ ہے کہ آپ اب حفظ قرآن کا ارادہ چھوڑ دیجئے اور دوسرا کوئی کام کریں جس میں آپ کو اپنے دماغ پر زیادہ بوجھ نہ ڈالنا پڑے۔ خواہ وہ تعلیم کا کام ہو یا کوئی عملی کام۔
یہاں ایک اور بات کی وضاحت ضروری ہے۔ قرآن میں ارشاد ہوا ہے: ولقد یسرنا القرآن للذکر فہل من مدکر (القمر ۱۷) قرآن کی اس آیت کا ترجمہ کچھ لوگ یہ کرتے ہیں کہ ہم نے قرآن کو یاد کرنے کے لیے آسان کردیا، پس ہے کوئی یاد کرنے والا۔ مفسر القرطبی نے اس رائے کو ان الفاظ میں نقل کیا ہے: ای سہلناہ للحفظ فہل من طالب لحفظہ (۱۷؍۱۳۴)
مذکورہ قرآنی آیت کی یہ تفسیر درست نہیں۔ شاہ عبد القادر صاحب نے آیت کا ترجمہ درست طورپر یہ کیا ہے: اورہم نے آسان کردیا قرآن سمجھنے کو پھر ہے کوئی سوچنے والا۔
اس آیت میں ذکر سے مراد نصیحت ہے نہ کہ الفاظ قرآن کو رٹ کر اس کو یاد کرنا۔ اس آیت کاکوئی تعلق اس عمل سے نہیں ہے جس کو عام طورپر تحفیظ کہا جاتا ہے۔
اس آیت میں یسرنا سے مراد سادہ طورپر سہل کردینا نہیں ہے۔ اس سے مراد در اصل وہ چیز ہے جس کو وضوح (clarity) کہا جاتا ہے۔ یعنی قرآن کا اندازِ بیان فنی کتابوں کی طرح مغلق نہیں ہے بلکہ وہ ایسی کتاب ہے جس کو پڑھ کر اور جس پر غور کرکے آسانی کے ساتھ اس کو سمجھا جاسکتا ہے۔
سوال
میں نے بعض علماء دین سے سنا ہے کہ داڑھی کا ایک مُشت ہونا واجب ہے۔ اگر کوئی شخص داڑھی بالکل نہیں رکھتا یا ایک مُشت سے کم رکھتا ہے تو وہ ہر وقت گناہ میں مبتلا رہتا ہے جب تک کہ اس کی داڑھی مکمل ایک مشت نہ ہوجائے۔ کیا یہ بات صحیح ہے۔ (یحییٰ بن زکریا، سنگم وہار، نئی دہلی)
جواب
داڑھی کے معاملہ میں ایک مُشت کا مسئلہ ایک استنباطی مسئلہ ہے۔ وہ کسی نص شرعی سے ثابت نہیں۔ صحیح مسلک یہ ہے کہ آدمی کو داڑھی رکھنا چاہیے۔ مگر لمبی داڑھی ضروری نہیں۔ اس معاملہ میں میرا ذاتی مسلک یہ ہے کہ میں نے تقریباً تیس سال سے داڑھی کا ایک بال بھی نہیں کاٹا۔ مگر جہاں تک شرعی مسئلہ کا تعلق ہے، وہ وہی ہے جو اوپر بیان ہوا۔
اس سلسلہ میں اصولی بات یہ ہے کہ اسلام میں اصل اہمیت فارم کی نہیں ہے بلکہ اسپرٹ کی ہے۔ آخرت میں نجات کا مسئلہ کسی فارم پر منحصر نہیں۔ اس کا فیصلہ تمام تر نیت یا داخلی کیفیت پر ہوگا۔ جو لوگ فارم پر زیادہ زور دیتے ہیں وہ شفٹ آف امفیسس(shift of emphasis) کی غلطی کرتے ہیں۔
میرے نزدیک دین میں اصل اہمیت دو چیزوں کی ہے—خدا کا خوف اور بندوں کی خیر خواہی۔ یہ دو صفتیں اگر نہ ہوں تو فارم اور مظاہر کی کوئی بھی مقدار آدمی کو خدا کی رحمتوں کا مستحق بنانے والی نہیں۔