اعترافِ خطا ایک نعمت
انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل بنی آدم خطّاء و خیر الخطائین التوّابون (الترمذی، کتاب القیامۃ، ابن ماجہ، کتاب الزہد، الدارمی، کتاب الرقاق، مسند احمد، مشکوٰۃ المصابیح، رقم الحدیث ۲۳۴۱) یعنی ہر انسان غلطی کرتا ہے اور سب سے بہتر غلطی کرنے والا وہ ہے جو اپنی غلطی کا کھلا اعتراف کرلے۔
غلطی کرنے کے بعد اُس سے لوٹنا یا غلطی کا اعتراف کرنا احتساب خویش (introspection) کا معاملہ ہے۔ غلطی کا اعتراف کوئی سادہ بات نہیں۔ یہ اپنی اصلاح آپ کا عمل ہے۔ جس آدمی کے اندر یہ ذہنی جرأت ہو کہ وہ غلطی کرنے کے بعد فوراً اس کا اعتراف کرلے۔ اس کو دوسرے فائدوں کے ساتھ یہ فائدہ حاصل ہوتا ہے کہ اس کی فکر میں وضوح آتارہتا ہے۔ وہ اس قابل ہوجاتا ہے کہ زیادہ واضح انداز میں رائے قائم کرے اور زیادہ واضح انداز میں معاملات کا تجزیہ کرسکے۔
ایک آدمی ایک غلط بات کہتا ہے۔ بعد کو معلوم ہوتا ہے کہ اُس کی کہی ہوئی بات غلط تھی۔ اب اس آدمی کے لیے دو میں سے ایک کا اختیار ہے۔ ایک یہ کہ وہ غلطی واضح ہونے کے بعد بھی اس کا اعتراف نہ کرے۔ ایسے آدمی کے ذہن میں صحیح اور غلط دونوں ایک دوسرے کے ساتھ ملے رہیں گے۔ لیکن جب آدمی یہ جرأت کرے کہ غلطی واضح ہونے کے بعد وہ کہہ دے کہ میں غلطی پر تھا تو اس کے بعد یہ ہوتا ہے کہ اس کے ذہن میں صحیح اور غلط دونوں ایک دوسرے سے الگ ہوجاتے ہیں۔ وہ صحیح کو صحیح اور غلط کو غلط صورت میں دیکھنے لگتا ہے۔فکری انتشار (confused thinking) بہت بڑی برائی ہے۔ یہ بُرائی کسی کے اندر در اصل غلطی کے عدم اعتراف سے پیداہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صحیح کو غلط سے نہ چھاٹنے کی کوتاہی کا نتیجہ ہی وہ چیز ہے جس کو ذہنی انتشار کہا جاتا ہے:
Confusion is the result of our failure to sort out the right from the wrong.