مشورہ کی اہمیت
ایک مسلم نوجوان نے ایک تعلیم یافتہ خاتون سے شادی کی۔ یہ لوگ کچھ برسوں تک ایک ساتھ رہے۔ پھر ان کے یہاں دو بچے پیدا ہوئے۔ اس کے بعد دونوں کے درمیان جھگڑا ہوگیا۔ یہاں تک کہ بیوی اپنے دونوں بچوں کو لے کر اپنے میکہ چلی گئی۔ اب دونوں کے درمیان ایک بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی۔ دونوں طرف سخت باتیں ہونے لگیں۔
اس طرح کا موقع بحران کی تنظیم (crisis management) کا موقع ہوتا ہے۔ بحران کو اگر حکمت کے ساتھ دور کرلیا جائے تو وقتی تلخی کے بعد دوبارہ دونوں کے درمیان معتدل تعلقات قائم ہوجائیں گے۔ لیکن اگر بحران کو درست طورپر حل نہ کیا جائے تو معاملہ اور زیادہ بڑھ جائے گا اور پوری زندگی تباہ ہو کر رہ جائے گی۔
جب کوئی شخص بحران میں مبتلا ہو تو وہ خود زیادہ معتدل انداز میں سوچ نہیں پاتا۔ وہ منفی سوچ یا انتہاپسندی میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ ایسی حالت میں مشورہ کی بے حد اہمیت ہے۔ ایسے وقت میں صاحب معاملہ کے ساتھیوں کا فرض ہوتا ہے کہ وہ ٹھنڈے ذہن سے سوچ کر معاملہ کی نزاکت کوسمجھیں اور بحران میں مبتلا شخص کو صحیح مشورہ دیں۔ مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ بحران کی حالت میں مشورہ دینے والے خود بھی بحران کا شکار ہوجاتے ہیں۔
مثلاً مذکورہ معاملہ میں جوشخص بحران میں مبتلا ہوا اس کے کچھ ساتھیوں نے اس کو یہ مشورہ دیا کہ تم موجودہ بیوی کو طلاق دے دو اور دوسری شادی کرلو۔ مگر یہ مشورہ سخت تباہ کن تھا۔ اس مشورہ پر عمل کرنے کا یقینی نتیجہ یہ تھا کہ آدمی چھوٹے مسئلہ سے نکل کر زیادہ بڑے مسئلہ میں اپنے آپ کو مبتلا کردے۔ مجھے معلوم ہوا تو میں نے اس آدمی کو مشورہ دیا کہ تم یک طرفہ بنیاد پر اپنی بیوی کے ساتھ مصالحت کرو۔ اپنی زبان پر کنٹرول رکھو۔ بیوی کو یا اس کے رشتہ داروں کو ہر گز برا نہ کہو اور پھر بیوی کے ساتھ معتدل انداز میں نئی زندگی شروع کردو۔ اس نے ایسا ہی کیا اور اب دونوں پر سکون طورپر ایک گھر میں رہ رہے ہیں۔