ایک نصیحت
ایک مسلم لڑکی نے مجھ سے ملاقات کی۔ وہ بہت گھبرائی ہوئی تھیں۔ اُنہوں نے کہا کہ میرے باپ نے میرا رشتہ طے کردیا ہے اور اب جلد ہی میری شادی ہونے والی ہے۔ شادی کے بعد مجھے ایک مشترک خاندان میں رہنا ہوگا۔ میں ڈرتی ہوں کہ آئندہ کیاہوگا۔ سسرال والے میرے ساتھ اچھا سلوک کریں گے یا برا سلوک کریں گے۔ یہ سوچ کر میں بہت پریشان ہورہی ہوں۔
میں نے کہا کہ اس معاملہ کی کنجی خود آپ کے ہاتھ میں ہے۔ اس دنیا کا اُصول یہ ہے کہ جیسا دینا ویسا پانا۔ آپ اگر چاہتی ہیں کہ دوسرے لوگ آپ کے ساتھ اچھا سلوک کریں تو آپ کو خود بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ یہ فطرت کا اُصول ہے جس میں کبھی کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ آپ اگر دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کریں تو دوسرے لوگ اس کا تحمل نہیں کرسکتے کہ وہ آپ کے ساتھ برا سلوک کریں۔
پھر میں نے کہا کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی خود تو اچھا سلوک نہیں کرتا مگر وہ دوسروں سے اچھے سلوک کی امید کرنے لگتا ہے۔ ایسے لوگ بھی ہیں جو عملاً تو اچھا سلوک نہیں کرتے مگر خود ساختہ طور پر یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ان کا سلوک دوسروں کے ساتھ اچھا ہے۔ یہ بہت بڑی بھول ہے۔ اگر دوسرے لوگ آپ کے سلوک کے بارے میں اچھی رائے نہ رکھتے ہوں تو آپ یقین کرلیجئے کہ آپ کا سلوک ویسا ہی ہے جیسا کہ دوسرے لوگ بتاتے ہیں۔ آپ کو چاہیے کہ آپ خوش فہم نہ بنیں بلکہ حقیقت پسند بنیں۔ اس کے بعد آپ کو کسی سے کوئی شکایت نہ ہوگی۔
مسئلہ کا حل ہمیشہ آدمی کے اپنے اندر ہوتا ہے۔ مگر وہ اس کو اپنے سے باہر تلاش کرنے لگتاہے۔ یہی مزاج اصل مسئلہ ہے۔ کسی مسئلہ کے حل میں اس سے بڑی کوئی اور رکاوٹ نہیں کہ آپ اس کا ذمہ دار دوسروں کو بتا کر دوسروں سے اس کے حل کا مطالبہ کرنے لگیں۔ ہر مسئلہ کی کنجی آپ کے اپنے پاس ہے، نہ کہ کسی دوسرے کے پاس۔