خبر نامہ اسلامی مرکز ۱۷۰

۱۔ امریکا میں یونیورسٹی آف ناٹرے ڈیم (Notre Dame) کے تحت ایک ادارہ قائم ہے جس کا نام یہ ہے:

The Joan B. Kroc Institute for International Peace Studies

اس ادارہ کے پروفیسر مسٹر اے رشید عمر ۲۴ فروری ۲۰۰۵ کو نئی دہلی میں صدر اسلامی مرکز سے ملے۔ وہ اس ادارہ کے ایک پروجیکٹ کے کوآرڈینیٹر ہیں جس کا موضوع یہ ہے:

Religion, Conflict and Peace-building

اس سلسلہ میں انہوں نے اسلام اینڈ پیس کے موضوع پر صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کے جوابات کے تحت بتایا گیا کہ اسلام کی تمام تعلیمات بالواسطہ یا براہِ راست طورپر امن پر مبنی ہیں۔ اسلام میں جہاد پر امن دعوتی جدوجہد کے لیے ہے۔ اسلام میں قتال صرف دفاع کے لیے جائز ہے اور یہ دفاع بھی صرف ایک قائم شدہ حکومت کرسکتی ہے۔ کسی غیر حکومتی تنظیم کے لیے کسی بھی حال میں مسلح جدوجہد جائز نہیں۔ آخر میں پروفیسر موصوف کو اسلامی مرکز کی امن کے موضوع پر شائع شدہ انگریزی کتابیں دی گئیں۔

۲۔ ڈاکٹر مرسیا ہرمن سن (Mercia Hermansen) امریکا کی ایک نومسلم خاتون ہیں۔ اُنہوں نے مسلم ممالک کا سفر کرکے اسلام کی تعلیم حاصل کی ہے۔ وہ شکاگو کی ایک یونیورسٹی (Loyola University) میں اسلامک اسٹڈیز کی پروفیسر ہیں۔ آج کل وہ اسلامی خلیفہ عمر فاروق پر ریسرچ کررہی ہیں۔ وہ ۷ مارچ ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز سے نئی دہلی میں ملیں۔ انہوں نے اپنے ریسرچ کے موضوع پر تفصیلی انٹرویو لیا۔ یہ ملاقات تقریباً دو گھنٹہ جاری رہی۔ اُن کو خلیفہ عمر فاروق کی زندگی کے مختلف پہلوؤں سے آگاہ کیاگیا۔ ایک سوال کی وضاحت کرتے ہوئے بتایا گیا کہ اسلام کی ابتدائی تاریخ میں عمر فاروق کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ مگر یہ کارنامہ ایک شخصی فضیلت کی بات نہیں۔ اس میں دوسرے اصحابِ رسول پوری طرح شریک ہیں۔ خلیفۂ چہارم حضرت علی سے پوچھا گیا کہ آپ کے زمانہ میں حالات بگڑ گئے۔ جب کہ ابوبکر و عمرکی خلافت کے زمانہ میں حالات اچھے تھے۔ اُنہوں نے جواب دیا: ان ابابکر و عمر کانا والیین علی مثلی وأنا والٍ علی مثلکم۔ اس سے معلوم ہوا کہ عمر فاروق کا کارنامہ صحابہ کی وجہ سے ممکن ہوا۔ جب کہ علی بن ابی طالب کے زمانہ میں صحابہ مسلم معاشرہ میں اقلیت بن گئے ـتھے۔ خلیفہ عمر فاروق پر بہت سی عربی کتابیں لکھی گئی ہیں۔ ایک کتاب شبلی نعمانی کی الفاروق ہے۔ اس کا انگریزی ترجمہ ظفر علی خاں نے کیا ہے جو اس نام سے چھپا ہے: الفاروق عمر دی گریٹ۔

۳۔ عالمی سہارا ویکلی (نئی دہلی) کے نمائندہ عبد القادر شمس نے ۲۱ مارچ ۲۰۰۵ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ امریکا کی ایک خبر کے مطابق، سوال یہ تھا کہ کیا عورت نماز کی امامت کرسکتی ہے۔ جواب میں بتایا گیا کہ اگر صرف خواتین کی جماعت ہو تو اس کی امامت ایک خاتون کرسکتی ہے۔ لیکن اگر عورتوں کے ساتھ مرد بھی موجودہوں تو مرد ہی امامت کرے گا۔ عورتوں کی مسجد الگ بنانا اگر چہ جائز ہے لیکن اس قسم کی تفریق وسیع تر مصلحت کے اعتبار سے درست نہیں۔

۴۔ اٹلی کا نیشنل ٹی وی(RAI) کی ٹیم ۲۵ مارچ ۲۰۰۵ کو اسلامی مرکز میں آئی۔ اس نے صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انٹرویو رآندری پزی (Andrea Pezzi) تھے۔سوالات کا تعلق زیادہ تر تصوف اور اس سے متعلق مسائل سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام کے آغاز میں تصوف کا لفظ موجود نہ تھا۔ قرآن میں اس کے لیے ربانی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ عباسی دور میں کچھ لوگ تھے جو اون (صوف) کے کپڑے پہنتے تھے جو اس زمانہ میں سادگی کی علامت تھے۔ چنانچہ ایسے لوگوں کو صوفی کہا جانے لگا۔ بعد کو اسی سے تصوف کا لفظ بنا۔ پھر تصوف انڈیا میں آیا۔ یہاں یوگ کے اثر سے تصوف میں مزید انڈین عناصرشامل ہوئے۔ ایک سوال کے جواب میں بتایا گیا کہ سائنسی اور سیاسی دور کے بعد سوسائٹی پر صوفیوں کا اثر بہت کم ہوگیا۔ اب تصوف زیادہ تر انفرادی سطح پر پایا جاتا ہے۔ سوسائٹی کی سطح پر اس کا کوئی قابل ذکر اثر نہیں۔

۵۔ اسلامک سینٹر (نئی دہلی) میں اسپریچول کلاس کے نام سے ایک ہفتہ وار اجتماع ہوتا ہے۔ اس میں تعلیم یافتہ ہندو اور مسلمان دونوں شریک ہوتے ہیں۔ یہ کلاس جنوری ۲۰۰۱ سے ہر اتوار کو پابندی کے ساتھ جاری ہے۔ ہر ہفتہ صدر اسلامی مرکز کسی اسلامی موضوع پر ایک تقریر کرتے ہیں۔ اس کو کلاس کے تمام افراد اسی وقت لکھ لیتے ہیں۔ ۲۷ مارچ ۲۰۰۵ سے یہ نیا سلسلہ شروع ہوا ہے کہ مز نغمہ صدیقی تقریر کے دوران پوری تقریر کو انگریزی میں چھوٹے کمپیوٹر پر ٹائپ کرتی ہیں۔ اس طرح اس ہفتہ وار تقریر کا ریکارڈ کمپیوٹر پر تیار ہورہا ہے۔

۶۔ بھوپال میں حلقۂ الرسالہ کی طرف سے مارچ ۲۰۰۵کو تین روزہ اجتماع کا انتظام کیا گیا۔ ا س میں مقامی لوگوں کے علاوہ دوسر ے مقامات کے لوگ بھی شریک ہوئے۔ صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور مختلف پروگرام میں حصہ لیا۔ اس اجتماع کی روداد انشاء اللہ الرسالہ میں شائع کردی جائے گی۔

۷۔ ۳ اپریل ۲۰۰۵ کو پوپ جان پال دوم کا روم میں ۸۴ سال کی عمر میں انتقال ہوگیا۔ اس موقع پر ای ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے صدر اسلامی مرکز نے کہا کہ پوپ جان پال دوم نہایت معتدل درجہ کے آدمی تھے۔ انہوں نے اپنے ۲۶ سالہ مدت میں اکثر ملکوں کا دورہ کیا۔ پیس اور ہارمنی کا ماحول قائم کرنے کی کوشش کی۔ خدا انہیں اپنی رحمت سے نوازے اور ان کے پیس مشن کو مکمل کرنے کا انتظام فرمائے۔

۸۔ ہندی روزنامہ پربھات خبر (رانچی) کے نمائندہ مسٹر پروین کمار جھا نے ۸ اپریل ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ اس انٹرویو کا موضوع یہ تھا— بی جے پی ۲۵ سال بعد۔ اس موضوع پر یہ ایک تفصیلی انٹرویو تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ شروع میں بی جے پی کا یہ احساس تھا کہ اس کو ہندوؤں کے بیشتر ووٹ ملیں گے اور اس طرح وہ ہندو ووٹروں کی مدد سے مرکز میں حکومت بنالے گی۔ مگر اس کا یہ اندازہ غلط ثابت ہوا۔ کیوں کہ نچلی ذات کے ہندو اُس سے الگ ہوگئے۔ اب بی جے پی کے لیے کامیابی کا صرف ایک ہی راستہ ہے کہ وہ مسلم ووٹوں کو اپنی طرف مائل کرسکے۔ لیکن مسلم ووٹوں کو حاصل کرنے کے لیے بی جے پی کو یہ کرنا ہوگا کہ وہ مسلم ووٹروں کے اندر اعتماد حاصل کرے۔ جب کہ اس سے پہلے اُس نے مسلم ووٹروں کی کوئی پروا نہیں کی تھی۔

۹۔ عقیل احمد صاحب (میرٹھ روڈ، مظفر نگر) کی پوتی کی شادی ۹ اپریل ۲۰۰۵ کو ہوئی۔ اس موقع پر گریٹر نائڈا کے ہرٹیج کلب میں نکاح کی تقریب ہوئی۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور موقع کی مناسبت سے کامیاب ازدواجی زندگی پر ایک تقریر کی۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اُنہوں نے بتایا کہ کامیاب ازدواجی زندگی کا راز قرآن کے الفاظ میں الصلح خیر ہے۔ یعنی اختلاف کو نظر انداز کرتے ہوئے مل جل کر رہنا۔ اسی میں دنیا کا بھی فائدہ ہے اور آخرت کا بھی۔ اختلاف فطرت کا ایک حصہ ہے۔ اختلاف کا حل ہے:

One has the art of difference management rather than art of eliminating the differences.

۱۰۔ سائی انٹرنیشنل سینٹر (نئی دہلی) میں ۲۰ اپریل ۲۰۰۵ کو ایک سیمینار ہوا۔ اس کا موضوع تھا: بیسک ہیومن ویلوز اِن اسلام۔ اس میں اسکولوں کے پرنسپل حضرات شریک ہوئے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور موضوع پر ایک گھنٹہ تقریر کی۔ اس کے بعد آدھ گھنٹہ سوال و جواب کا پروگرام تھا۔ جن انسانی قدروں پر کلام کیا گیا وہ یہ تھیں :

Truthfulness, Honesty, Justice, Equality, Compassion, Tolerance, Modesty, Generosity, Forgiveness, Admitting Mistake.

۱۱۔ دوردرشن کی ایک ٹیم نے ۲۱ اپریل ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کی تقریر ریکارڈ کی۔ یہ تقریر سیرت رسول کے بارے میں تھی۔ اس تقریر میں سیرت کے عمومی انسانی پیغام کو بتایا گیا۔

۱۲۔ دوردرشن (نئی دہلی) پر ۲۲ اپریل ۲۰۰۵ کو ۱۲ ربیع الاول کے موقع پر میلاد النبی کا پروگرام تھا۔ اس میں لائیو ٹیلی کاسٹ کے تحت صدر اسلامی مرکز کی ۱۰ منٹ کی تقریرنشر کی گئی۔ اس میں انہوں نے پیغمبر اسلام کی سیرت پر کلام کیا۔ خاص طورپر یہ بتایا کہ آپ اخلاقیات کی تکمیل کے لیے مبعوث کیے گئے۔

۱۳۔ ٹوٹل ٹی وی (نئی دہلی) نے یکم مئی ۲۰۰۵ کو لائیوٹیلی کاسٹ کے تحت صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو نشر کیا۔ یہ انٹرویو نکاح اور طلاق کے بارے میں تھا۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نابالغ لڑکی کے نکاح کے بارے میں مسلمانوں کو الگ سے کسی فتویٰ کی ضرورت نہیں۔ اس معاملہ میں جو ملکی قانون ہے وہی دوسری لڑکیوں کے ساتھ مسلم لڑکیوں پر بھی قابل انطباق ہونا چاہیے۔

۱۴۔ انڈیا انٹرنیشنل سینٹر (انیکسی) میں یکم مئی ۲۰۰۵ کو گڈورڈ بُکس کی طرف سے صدر اسلامی مرکز کے ایک خصوصی لکچر کا اہتمام کیا گیا۔ اس کا موضوع تھا: یونیورسل میسیج آف قرآن۔ یہ دوگھنٹہ کا پروگرام تھا۔ اس میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا کہ قرآن کا یونیورسل میسیج کیا ہے۔ لوگوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ سامعین میں ہندو اور مسلمان دونوں شریک تھے۔

۱۵۔ ہندی روزنامہ پربھات خبر (رانچی) کے نمائندہ مسٹر پروین کمار جھا نے ۲ مئی ۲۰۰۵ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ اُن کے سوالات کا تعلق زیادہ تر ماڈل نکاح نامہ سے تھا۔ جواب میں بتایا گیا کہ جاننے والوں کو پہلے سے یہ بات معلوم تھی کہ ماڈل نکاح نامہ عملاً چلنے والا نہیں۔ اسی لیے اب بورڈ کے لوگوں نے اس کو آپشنل نکاح نامہ کہا ہے۔ پھر ایسے نکاح نامہ سے کیا فائدہ۔ دوسری بات یہ کہ مسلم سماج میں جو اصل کمی ہے وہ تعلیم کی کمی ہے۔ تمام درد مند لوگوں کو چاہیے کہ وہ مسلم سماج کو تعلیم میں آگے بڑھائیں۔ اس کے بعد تمام مسائل خود ہی حل ہوجائیں گے۔ تیسری بات یہ کہ عورتوں کی جو مانگیں ہیں ان کے معاملہ میں کڑا رویہ اپنانا مسئلہ کا حل نہیں۔ اس کے بجائے ان مانگوں پر نرم رویہ اختیار کیا جانا چاہیے۔

۱۶۔ ہندی روزنامہ ہندستان (نئی دہلی) کے نمائندہ مسٹر فضل غفران نے ۴ مئی ۲۰۰۵ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو لیا۔ انٹرویو ماڈل نکاح نامہ کے حوالے سے تھا۔ جواب کا خلاصہ یہ تھا کہ اس قسم کا نکاح نامہ کبھی چلنے والا ہی نہیں۔ حتیٰ کہ بنانے والے گھروں میں بھی وہ نہیں چل سکتا۔ مسلم سماج کی اصل کمی یہ ہے کہ وہ تعلیم میں پچھڑی ہوئی ہے۔ ان لوگوں کو چاہیے کہ وہ کوئی ٹھوس کام کریں۔ وہ مسلم پرسنل لا بورڈ کو ختم کرکے مسلم تعلیمی بورڈ بنائیں۔

۱۷۔ ہندی روزنامہ ویر ارجن (نئی دہلی) کے نمائندہ ویر اکرم سنگھ نے ۶؍مئی ۲۰۰۵ کو ٹیلی فون پر صدر اسلامی مرکز کا انٹرویو ریکارڈ کیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ماڈل نکاح نامے سے تھا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اس قسم کا نکاح نامہ سِرے سے قابل عمل ہی نہیں۔ کیوں کہ اس کے پیچھے نہ لوگوں کا اتفاقِ رائے ہے اور نہ اس کی پشت پر کوئی تنفیذی طاقت ہے۔ اسی لیے خود ماڈل نکاح نامہ بنانے والوں نے اس کو آپشنل (اختیاری) قرار دے دیاہے۔سوال یہ ہے کہ جب وہ آپشنل ہے تو پھر اس کو وضع کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے۔ صحیح یہ ہے کہ یا تو مسلم عوام کے اندر شعوری بیداری لائی جائے، یا حکومت سے مطالبہ کرکے اس کے موافق ایکٹ بنوایا جائے، جیسا کہ شاہ بانو کے معاملے میں کیا گیا تھا۔

۱۸۔ ہندی روزنامہ مہامے دھا (نئی دہلی) کے سب ایڈیٹر مسٹر سنجے کمار نے ۷مئی ۲۰۰۵ کو صدر اسلامی مرکز کا تفصیلی انٹرویو لیا۔ سوالات کا تعلق زیادہ تر ماڈل نکاح نامہ سے تھا جس کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ نے تیار کیا ہے۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ یہ ایک ایسا کام ہے جو بے فائدہ بھی ہے اور ناقابلِ عمل بھی۔ نکاح اسلام میں ایک سادہ عمل ہے۔ لڑکا اور لڑکی کے درمیان ایجاب و قبول اور اس کے اعلان سے شرعی نکاح واقع ہوجاتا ہے۔ اس معاملہ میں جو خرابیاں پیدا ہوئی ہیں وہ مسلم سماج کی پیداکی ہوئی ہیں، نہ کہ شریعت کی پیدا کی ہوئی۔ اس لیے اس معاملہ میں کرنے کا کام یہ ہے کہ ماڈل مسلم سماج بنایا جائے، نہ کہ ماڈل نکاح نامہ۔ اصل یہ ہے کہ موجودہ مسلم سماج تعلیمی پس ماندگی کا شکار ہے۔ تعلیم سے سوجھ بوجھ آتی ہے۔ معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے اصل ضرورت یہ ہے کہ مسلم سماج کو تعلیم یافتہ سماج بنایا جائے۔ اس کے بعد تمام مسائل اپنے آپ حل ہوجائیں گے۔ یہ انٹرویو اخبار کے شمارہ ۸ مئی ۲۰۰۵ میں شائع ہوا۔

۱۹۔ اسلامی مرکز کے تحت دو نئی کتابیں تیار ہوئی ہیں۔ وہ جلد ہی چھپ کر شائع ہوجائیں گی۔ ان کے نام یہ ہیں : حکمتِ اسلام، نشانِ منزل۔

۲۰۔ مجھے الرسالہ کے مندرجہ ذیل شمارے مطلوب ہیں :

)۱(اکتوبر ۱۹۷۶ء تا دسمبر ۱۹۹۳۔

)۲(۱۹۹۴ فروری، اپریل، جولائی، اگست، ستمبر، اکتوبر، نومبر اور دسمبر۔

)۳(۱۹۹۵ جنوری، جون، جولائی، ستمبر، اور اکتوبر۔

)۴(۱۹۹۶ مارچ، اپریل اور اگست تا دسمبر۔

)۵(۱۹۹۷، مارچ، اپریل، مئی، جولائی، ستمبر، نومبر اور دسمبر۔

)۶(۱۹۹۸ جنوری، فروری، مارچ اور اکتوبر۔

پتہ یہ ہے:

Shah Imran Hasan

At: Dilawarpur, Ward No. 19, Kali Tazia Road

Post + Distt: Munger, Bihar-811201

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom