دو کشتی کی سواری
اکثر لوگوں میں یہ کمزوری ہوتی ہے کہ وہ واضح انداز میں سوچ نہیں پاتے۔ وہ ایک چیز اور دوسری چیز کے درمیان فرق نہیں کرپاتے۔ اس بنا پر اکثر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ بیک وقت دو کشتی کی سواری کرنا چاہتے ہیں حالاں کہ دو کشتی کی سواری عملاً ممکن نہیں۔
مثلاً ایک شخص بر صغیرہند میں پیدا ہوتا ہے پھر وہ اپنے وطن کو چھوڑ کر امریکا چلا جاتا ہے۔ یہ ایک سماج سے نکل کر دوسرے سماج میں جانے کا نام ہے۔ بر صغیر ہند کے اندر پابند سماج کا ماحول ہے تو امریکا میں بے قید سماج کا ماحول ہے۔ مگر مذکورہ شخص امریکا میں قیام کرنے کے باوجود یہ چاہتا ہے کہ اس کے بچے وہاں کے بے قید سماج سے متاثر نہ ہوں۔ اس کے بچے وہاں بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کا کلچر اختیار نہ کریں۔ مگر یہ دو کشتی کی سواری ہے اور دو کشتی کی سوار ی عملاً ممکن نہیں۔ چنانچہ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اس کو اپنے بچوں کے بارے میں خلاف امید تجربات پیش آتے ہیں۔ آدمی پیسہ کی فراوانی کے باوجود ذہنی اضطراب میں جینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
اس دنیا میں آدمی صرف ایک ہی کشتی میں سواری کرسکتا ہے۔ دوکشتی میں سواری کرنا عملاً کسی کے لیے ممکن نہیں۔ دو کشتی کی سواری صرف خیالی طور پر ممکن ہوسکتی ہے۔ عملی طور پر دوکشتی کی سواری کسی کے لیے بھی ممکن نہیں۔
اصل یہ ہے کہ آدمی بیک وقت دو قسم کے فائدے حاصل کرنا چاہتا ہے۔اسی دو طرفہ مزاج کی بنا پر وہ دو کشتی میں سواری کرنے کا خیالی منصوبہ بنا لیتا ہے۔ مگر آدمی کو جاننا چاہیے کہ دو کشتی کا سفر صرف خیالات کی دنیا میں ممکن ہے۔ ایسا سفر کبھی حقیقت کی دنیا میں ممکن نہیں۔ آدمی کو چاہیے کہ وہ ترجیح کا اصول اختیار کرے۔ وہ ایک چیز کو پانے کے لیے دوسری چیز کو چھوڑنے پر راضی ہوجائے۔ وہ ایک منزل تک پہنچنے کے لیے دوسری منزل کی طرف دوڑنا نہ چاہے۔اس معاملہ میں آدمی کے پاس اس کے سوا کوئی اور انتخاب نہیں۔