نظریاتی جنون
دہلی کا انگریزی اخبار ہندستان ٹائمس (18 مئی 1988) آپ دیکھیں تو اس کے آخری صفحہ پر آپ کو ماسکو کی ڈیٹ لائن کے ساتھ ایک خبر ملے گی جس کی سرخی یہ ہے :
Stalin uprooted 15 million people
اس سرخی کے نیچے جو مفصل خبر درج ہے ، اس میں بتایا گیا ہے کہ سوویت روس میں سرکاری ٹیلی وژن پر ایک ڈاکومنٹری فلم دکھائی جا رہی ہے جس میں روس کے سابق اشترا کی حکمراں جوزف اسٹالن کے بھیانک مظالم کو واقعاتی شکل میں دکھایا گیا ہے۔ اسٹالن نے اپنے زمانۂ اقتدار (1953- 1924) میں ملک کے بے شمار باشندوں کو بے رحمی کے ساتھ ہلاک کر دیا تھا ۔ انھیں میں سے ایک سابق اشتراکی لیڈر بخارن( (Nikolai Bukharinبھی تھا جس کو 1938 میں گولی مار کر ہلاک کیا گیا ۔ آج چالیس سال بعد اس کی بیوی لارینا (Anna Bukharin Larina) اسٹیج پر آکر لوگوں کو بتا رہی ہے کہ اس کے شوہر کو بے قصور مارا گیا ۔ اسٹالن نے بخارن کو مروا دیا ، مگر حقیقت یہ ہے کہ خود اسٹالن ایک مسلّمہ مجرم تھا :
I consider him a criminal.
مذکورہ ڈاکومنٹری وہ مناظر دکھاتی ہے جب کہ روس کی زرعی زندگی کو مکمل طور پر بر باد کر دیا گیا۔یہ اس وقت ہوا جب کہ اسٹالن نے اجتماعی کھیتی کے منصوبہ کو بجبر عملی جامہ پہنایا۔ تین ملین سے زیادہ کسان گھرانے یا بالفاظ دیگر، پندرہ ملین زرعی باشندوں کو اس ڈکٹیٹر نے جڑ سے اکھاڑ دیا ۔ ایک مبصربتاتا ہے کہ روس کے زرعی نظام میں اس تبدیلی کا نتیجہ یہ ہوا کہ سوویت روس غلہ کو درآمد کرنےوالا ایک ملک بن گیا، جب کہ اس سے پہلے وہ غلہ کو بر آمد کرنے والا ملک تھا :
The documentary shows scenes of wholesale destruction of rural life with the beginning of collectivisation. More than three million peasant households or 15 million people were uprooted by the dictator, and a commentator says this transformed the Soviet Union from an exporter of grains to an importer (p. 20).
اسٹالن جس وقت یہ ظالمانہ کارروائی کر رہا تھا ، اس وقت روس غلہ کے معاملہ میں نہ صرف خود کفیل تھا ، بلکہ وہ اپنے فاضل غلہ کو بیرونی ملکوں کے ہاتھ فروخت کرتا تھا ۔ دوسری طرف سعودی عرب اس وقت ایک صحرائی ملک شمار ہوتا تھا ، اور اپنی ضرورت کا تقریباً تمام غلہ باہر کے ملکوں سے خریدتا تھا مگر آج صورت حال اس کے برعکس ہے۔ روس غلہ خریدنے والا ملک بن گیا۔ دوسری طرف سعودی عرب میں ملکی ضرورت سے زیادہ غلہ پیدا ہونے لگا۔ 1988 میں سعودی عرب میں غلہ کی پیداوار دو ملین سے زیادہ ہوئی ہے ۔ اس میں سے پچاس ہزار ٹن گیہوں اس نے سوویت روس کے ہاتھ فروخت کیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اسٹالن نے ایسا فعل کیوں کیا جو بیک وقت بدترین ظلم بھی تھا اور بدترین حماقت بھی ۔ اس کا سبب ، ایک لفظ میں ، نظریاتی انتہا پسندی ہے ۔ تاریخ میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ کچھ لوگوں نے بطور ِخود ایک نظریہ بنایا اور اس کو جبرا ً لوگوں کے اوپر نافذ کر دیا ۔ مگر تجربہ کے بعد معلوم ہوا کہ ان کا کیس نظریاتی جنون کا کیس تھا نہ کہ نظریاتی صداقت کا کیس۔
بہت سے لوگوں کا یقین محض نظریاتی جنون ہوتا ہے نہ کہ حقیقتاًیقین ۔ بہت سے لوگوں کی قربانیاں محض اندھے جوش کے تحت ظاہر ہوتی ہیں نہ کہ فی الواقع سچائی کی طلب کے تحت ۔ یہ دنیا امتحان گاہ ہے۔ اور اس امتحان گاہ کا سب سے زیادہ نازک پہلو یہ ہے کہ یہاں یقین بھی جھوٹی بنیادوں پر پیدا ہو سکتا ہے ، اور عمل اور قر بانی بھی۔