مومنانہ مزاج
حضرت عثمان بن عفان اور حضرت عبد اللہ بن مسعود کے درمیان ایک معاملہ میں اختلاف تھا۔ حضرت عثمان حج کے دوران مِنی ٰمیں رباعی (چار رکعت والی) نماز کو قصر کے بجائے مکمل پڑھتے تھے ۔ جب کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ان میں قصر کرنے کے قائل تھے ۔ حضرت عثمان نے بحیثیتِ خلیفہ حج کیا تو مِنیٰ میں رباعی نماز کو مکمل صورت میں پڑھا ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود بھی اس وقت مقتدیوں میں شامل تھے۔ انھوں نے قصر کے قائل ہونے کے باوجود خلیفہ ٔثالث کی اقتدا میں مکمل نماز ادا کی ۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود سے کسی نے پوچھا کہ آپ نے اپنے مسلک کے خلاف ایسا کیوں کیا۔ انھوں نے جواب دیا کہ اختلاف کرنا برا ہے (الخلاف شرّ) اس کے ساتھ انھوں نے ایک اور بات کہی جو مومن کی نفسیات کو نہایت عمدہ طور پر بتاتی ہے ۔ انھوں نے کہا :
فَلَيْتَ حَظِّي مِنْ أَرْبَعِ رَكَعَاتٍ رَكْعَتَانِ مُتَقَبَّلَتَانِ (صحیح البخاری ،حدیث نمبر 1084)کاش میرا حصہ یہ ہو کہ چار رکعت میں سے میری دورکعت ہی قبول ہو جائے ۔
عام لوگوں کا حال یہ ہے کہ جب انھیں کسی انسان کی طرف سے معاملہ پیش آتا ہے تو وہ اسی انسان کو نشانہ بنا کر اس سے زور آزمائی کرنے لگتے ہیں۔ جس سے معاملہ پیش آتا ہے اسی انسان سے وہ صحیح اور غلط کی لامتناہی بحث چھیڑ دیتے ہیں۔ مومن کا طریقہ اس سے جدا ہے ۔
مومن اس کے برعکس یہ کرتا ہے کہ وہ ہر معاملہ میں خدا کی طرف رجوع کرتا ہے۔ اس کو انسان کی طرف سے معاملہ پیش آتا ہے تب بھی اس کا دل خدا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے ۔ جس چیز کو لوگ انسانوں کے خانے میں ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس کو وہ خدا کے خانے میں ڈال دیتا ہے ، جہاں لوگ انسان کی نسبت سے کلام کرتے ہیں وہاں وہ خدا کی نسبت سے کلام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جن مواقع پر لوگ انسانوں کی طرف دوڑتے ہیں ، وہاں وہ خدا کی طرف دوڑ نے لگتا ہے ۔ جن مواقع پر لوگ رکعتوں کی تعداد پر بحث کر رہے ہوتے ہیں، اس کا ذہن اس فکر میں ڈوب جاتا ہےکاش میری چند رکعتیں ہی قبول ہو جائیں ۔
مومن کا مزاج ہر معاملے میں خدا رخی ہوتا ہے اور غیر مومن کا مزاج انسان رخی۔