بلا تحقيق الزام
ہندستان ٹائمس ( 8 فروری 1988) میں اشتراکی روس سے متعلق ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے مذکورہ اخبار نے اس کو لاس اینجلس ٹائمز اور واشنگٹن پوسٹ نیوز سروس کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ رپورٹ کے مرتب کرنے والے مسٹر ولیم ایٹن ہیں جو اخباری نمائندہ کے طور پر ماسکو میں مقیم ہیں۔ انھوں نے براہ راست روسی ماخذ سے لے کر اسے تیار کیا ہے ۔ ہندستان ٹائمس نے اس رپورٹ کو اپنے صفحہ 24 پر حسبِ ذیل عنوان کے ساتھ شائع کیا ہے :
روسی گم نام شکایتوں کی تحقیق پر پابندی لگاتے ہیں۔
خبر میں بتایا گیا ہے کہ روس میں زار کے زمانے سے یہ دستور رائج تھا کہ اگر کسی شخص کے خلاف ایک شکایت پولیس میں یا اور کسی سرکاری دفتر میں پہنچ جائے تو فوراً اس کی تفتیش شروع ہو جاتی تھی۔ خواه شکایت کرنے والے نے اپنا نام اور اپنا پتہ بھی نہ لکھا ہو ۔ 1917 میں روس میں کمیونسٹ انقلاب آیا تو اس کے بعد بھی یہ الم ناک دستور نہ صرف رائج رہا بلکہ تیز تر ہو گیا۔ اب روس کے سرکاری اخبار" پر اود ا"نے اپنے شمارہ 3 فروری 1988 میں یہ خبر دی ہے کہ سپریم سوویت کی پریسیڈیم نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا ہے کہ بے نام شکایتوں پر کسی کے خلاف چھان بین کا باب کھولنے کے رواج کو فوری طور پر بند کر دیا جائے ۔ ایسی ہر شکایت کو ردّی کی ٹوکری میں ڈال دیا جائےجس پر شکایت کرنے والے نے اپنا نام اور پتہ تحریر نہ کیا ہو۔
روسی پولیس کا نظریہ اب تک یہ تھا کہ جہاں دھواں ہے وہاں آگ ضرور ہو گی ۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ کسی کے خلاف گم نام شکایت موصول ہوتے ہی اس شخص کی تفتیش شروع ہو جاتی تھی۔ اب اس کے ذمہ یہ تھا کہ وہ ثابت کرے کہ وہ قصور وار نہیں ہے ۔ اس رواج کی بنا پر لاکھوں انسان نا قابل بیان مصیبتوں کا شکار ہوئے ۔ وہ جیلوں میں بند کر دیے گئے ، انھیں گولی مار دی گئی۔ حالانکہ ان کے خلاف خبر دینے والے نے اپنی خبر کی کوئی دلیل بھی نہیں دی تھی۔
اس رواج کی بنا پر ہر آدمی کو لامحدود موقع مل گیا تھا کہ جس کو چاہے اندوہناک پریشانی میں مبتلا کر دے ۔ مثلاً کسی دفتر کا ایک ملازم اپنے افسراعلیٰ سے خفا ہو تو وہ اپنا نام ظاہر کیے بغیر اس کےخلاف الزام مرتب کرے گا اور اس کو پولیس کے دفتر میں بھیج دے گا۔ اسی طرح جس شخص کو بھی کسی سے شکایت ہو وہ بغیر نام کی ایک تحریر پولیس دفتر کو بھیج دے گا اور فوراً اس کی پوچھ گچھ شروع ہو جائے گی۔ ایسے لوگ اگر خبر کی تفصیل پوچھتے تو پولیس کی طرف سے یہ مختصر جواب ملتا "ہم کو اوپر سے سگنل ملا ہے" ۔ مذکورہ قانون کے تحت پہلی بار روسی شہریوں کو یہ حق حاصل ہوا ہے کہ وہ پولیس سے پوچھ سکیں کہ "کس نے تم کو یہ سگنل دیا ہے ، اس کا نام بتاؤ "۔
روسی شہریوں کو جو حق اشتراکی انقلاب کے ، سال بعد 1988 میں ملا ہے ، وہ اسلام نے 14 سو سال پہلے اپنے قائم کردہ نظام میں اول روز ہی لوگوں کو دے دیا تھا۔
اسلام کی تعلیم
الحجرات قرآن کی 49 ویں سورہ ہے ۔ اس کو سورۃ الاخلاق والآداب بھی کہا جاتا ہے۔ کیونکہ اس میں اسلام کی اخلاقی تعلیمات اور معاشرتی آداب بتائے گئے ہیں۔ انھیں میں سے ایک وہ ہےجو ان الفاظ میں مذکور ہے :
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ جَاۗءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَيَّنُوْٓا اَنْ تُصِيْبُوْا قَوْمًۢا بِجَــهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰي مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِيْن (الحجرات : 6) اے ایمان والو ، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس خبرلائے تو تم اچھی طرح اس کی تحقیق کر لیا کرو، ایسا نہ ہوکہ تم کسی گروہ کو نادانی سے کوئی نقصان پہنچا دو،پھر تم کو اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔
علامہ ابو البرکات عبد اللہ بن محمود النسفی نے اس کی تفسیر ان الفاظ میں کی ہے :
كأنه قال أي فاسق جاءكم بأي نبأ {فَتَبَيَّنُوآ} فتوقفوا فيه وتطلبوا بيان الأمر وانكشاف الحقيقة ولا تعتمدوا بقول الفاسق (تفسير النسفي ،ج 3صفحہ 305)گویا کہ یہ فر مایا کہ کوئی بھی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو اس کے معاملہ میں ٹھہرو اورواقعہ کی تفصیل معلوم کرو اور حقیقتِ حال کا پتہ لگاؤ محض فاسق کے قول پر اعتماد نہ کر لو۔
آیت کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کے بارے میں خبر دی گئی ہے ، اس کے پیچھے پڑنے سے پہلے خود خبر دینے والے کی تحقیق کرو کہ وہ قابلِ اعتماد ہے یا نا قابل اعتماد ۔ اور اگر شکایت کرنے والے نے اپنا نام بھی نہ بتایا ہو تو یہ صرف ایک بے بنیاد گمان ہے ، اور گمان کی تحقیق کر نا اسلام میں منع ہےجیسا کہ حدیث میں آیا ہے : إِذا ظَنَنْتَ فَلَا تُحَقِّقْ ۔گمان کی تحقیق نہ کرو ۔ (الجامع الصغير وزيادته، حدیث نمبر 6275)حضرت عبد اللہ بن عمر نے فرمایا کہ ہم کو ٹوہ لگانے سے منع کر دیا گیا ہے : إِنَّا قَدْ نُهِينَا عَنِ التَّجَسُّسِ۔( سنن أبي داود، حدیث نمبر 4890)
اسی بنا پر ایسا ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جب آپ سے متعلق روایات جمع کرنے کا کام شروع ہوا تو محدثین نے علم ِحدیث میں وہ اصول مقرر کیا جس کو "جرح و تعدیل " کہا جاتا ہے ، اور اس کے تحت ہر راوی کے ذاتی حالات کی تحقیق کی گئی ۔ جب تک راوی کی ثقاہت ثابت نہ ہو جائے، اس وقت تک اس کی روایت کو معتبر تسلیم نہیں کیا گیا۔
پھر اسی بنا پر فقہ میں مستقل اصول مقرر کیا گیا کہ الْبَيِّنَةُ عَلَى الْمُدَّعِي ۔ثبوت کا بار مدعی کے اوپر ہے۔ (الآثار لأبي يوسف، 738)جو شخص دعویٰ کرے ، اس کے اوپر یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دعوے کے حق میں ثبوت فراہم کرے، نہ یہ کہ جس کے خلاف دعویٰ کیا گیا ہے ، اس سے یہ مطالبہ کیا جائے کہ تم اپنے بے قصور ہونے کو ثابت کرو۔
اشتراکی روس میں 70 سال تک مذکورہ جابرانہ قانون کے اجراء کو اگر ارادی ظلم سمجھا جائے تو اشتراکیت کا معاشرہ سرخ جنت کے بجائے سرخ جہنم ثابت ہوتا ہے ۔ اور اگر بالفرض اس کو ارادی ظلم نہ سمجھا جائے تو یہ ماننا ہوگا کہ مذہبی قانون وضعی قانون کے مقابلے میں چودہ سو سال آگے ہے۔ ایسی حالت میں مذہب کو دورقدیم کی چیز قرار دے کر اس کو دور جدید کے لیے قابل ترک بتانا ایک ایسی بات ہے جو ثابت شدہ حقیقت کے سراسر خلاف ہے ۔ ایسی حالت میں وضعی قانون کو فرسودہ قرار دیا جانا چاہیے نہ کہ الہامی قانون کو ۔