قیادت کا دیوالیہ پن
ضبط کروں میں کب تک آہ چل رے خامہ بسم اللہ
بابری مسجد اور رام جنم بھومی (اجو دھیا) کا جھگڑا سو سال سے بھی زیادہ پرانا ہے۔ تاہم اپنی موجودہ شکل میں یہ جھگڑا یکم فروری 1982 کو شروع ہوا جب کہ فیض آباد کے ڈسٹرکٹ حج ، کرشن موہن پانڈے کے عدالتی حکم کے تحت مقامی پولیس نے بابری مسجد کے دروازہ کا تالا کھول دیا جو 1949 سے بند چلا آرہا تھا۔ اس کے نتیجے میں یہ عمارت عملاً ہندوؤں کے قبضے میں چلی گئی۔
یہ واقعہ بلاشبہ غلط تھا۔ مگر اس کے بعد مسلمانوں نے جو کچھ کیا وہ یقینی طور پر اس سے بھی زیادہ غلط تھا ۔ کیوں کہ وہ سنت رسول کے خلاف تھا ۔ قدیم مکہ میں کعبہ کے مقدس ترین خدا خانے کو بت خانے میں تبدیل کر دیا گیا ۔ یہ اسی نوعیت کا سخت تر مسئلہ تھا ۔ مگر اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے ساتھیوں نے ان طریقوں میں سے کوئی طریقہ اختیار نہیں کیا جو موجودہ زمانےسکے مسلمانوں نے سیاست پسند لیڈروں کی پیروی میں اختیار کیا ہے ۔ کعبہ کے مذکورہ مسئلہ کو رسول اللہ نے قومی لڑائی کا عنوان نہیں بنایا ، بلکہ اپنی ساری توجہ انسانی ضمیر کو جگانے پر لگا دی ۔
بابری مسجد کا مسئلہ پیدا ہونے کے بعد مسلمانوں نے یہ کیا کہ انھوں نے بند ، گرفتاری، دھرنا،ریلی ، ایجی ٹیشن ، جلسوں اور تقریروں کے ہنگامے جاری کر دیے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ یہ تھا کہ جب کہ مشرکین نے خانہ ٔخدا میں بت داخل کر رکھے تھے ، آپ نے ان مشرکین کے دلوں میں توحید کو داخل کرنے کی مہم شروع کر دی ۔ یہ طریقہ خدا کی صراط مستقیم کے مطابق تھا۔ چنانچہ اس کو صد فی صد کامیابی حاصل ہوئی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوتی کوششوں سے لوگوں کے سینے توحید خانے بن گئے ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسجد بھی آخر کا ر بت خانہ کے بجائے توحید خانہ میں تبدیل ہو گئی ۔
بابری مسجد کے معاملے میں مسلمانوں نے جو ہنگامہ بر پا گیا ہے وہ سراسر ایک قومی ہنگامہ ہے۔ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ استحصال پسند لیڈروں کی پیروی میں ہے نہ کہ خدا کے پیغمبر کی پیروی میں ۔ یہی وجہ ہے کہ اس معاملے میں مسلمانوں کو خدا کی مدد نہ مل سکی ۔ ان کے ان ہنگاموں سےمعاملہ صرف نازک تر ہوتا چلا گیا ، وہ کسی بھی درجہ میں حل نہ کیا جا سکا ۔
اس معاملے میں مسلمانوں کو کم سے کم جو کر نا تھا وہ یہ تھا کہ یکم فروری 1986 کے بعد بھی وہ اسی طریقہ پر قائم رہتے جس پر وہ اس سے پہلے قائم تھے ۔ یا دوسری سیکڑوں مسجدوں کے بارے میں آج بھی جس طریقہ کو وہ عملاً اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یعنی مذکورہ غلط فیصلہ کو قانون اور گفت و شنید کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کرنا ۔ اور بالفرض اگر اس طرح کوئی حل سامنے نہ آئے تب بھی لازماً اسی پر قائم رہنا۔ کیوں کہ یہ ہرگز عقل مندی نہیں ہے کہ کوئی شخص آپ کی ایک چیز پر قبضہ کرلے اور آپ عدالت سےانصاف نہ پارہے ہوں ، تو آپ اپنے گلے میں پھندا ڈال کر خود کشی کر لیں ۔
مسلمانوں کے استحصال پسند لیڈروں نے اس مسئلہ کو اس طرح ابھارا جیسے کہ وہ اس کے منتظر ہوں،انھوں نے انتہائی جذباتی تقریریں کر کے مسلمانوں کا خون گرما دیا۔ وہ اس مسئلے کو سٹرک پر لے آئے ۔ انھوں نے اس کو اتنا زیادہ بڑھایا کہ وہ پورے ملک میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان شدید ترین قومی تناؤ کا سبب بن گیا ۔ اس طرح انھوں نے نہ صرف اجودھیا کو بلکہ پورے ملک کو اشتعال کی بھٹی کے کنارے کھڑا کر دیا۔ اسی کا براہ راست نتیجہ میرٹھ اور ملیانہ کا دردناک فساد تھا۔ ان فسادات میں لیڈر صاحبان کا تو کچھ نہیں بگڑا ، البتہ بے شمار مسلم خاندان برباد ہو کر رہ گئے ۔
مرکزی رابطہ با بری مسجد کمیٹی (بابری مسجد موومنٹ کو آرڈی نیشن کمیٹی )کے چیرمین کا ایک انٹرویوافکار ملی (31 مئی 1988) میں چھپا ہے ۔ اس کا ایک سوال و جواب یہ ہے :
سوال : ملک کے باشعور طبقوں کا کہنا ہے کہ دونوں قو میں بالمشافہ گفتگو سے مسئلہ کے کسی حل پر پہنچ سکتی ہیں۔ کیا اس مسئلہ کو گفتگو کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کی گئی۔ (صفحہ 26)
جواب :لگا تار ایسی کوششیں ہوئیں اور ہر سطح پر ہوئیں ۔ لیکن ابھی تک کوئی واضح نتیجہ نہیں نکلا۔ میرے ذاتی تجربے کے مطابق، یہ بات سراسر خلاف واقعہ ہے ۔ کم از کم ایک بار اس قسم کی اعلیٰ سطحی میٹنگ میں میں خود شریک رہا ہوں۔ میں نے پایا ہے کہ نام نہاد مسلم لیڈروں کا رویہ ان مواقع پر انتہائی غیر معقول ہوتا ہے ۔ ان میٹنگوں میں مسلم نمائندے بالکل وکیلانہ اور مناظرانہ بحث کا طریقہ اختیار کرتے ہیں ۔ حالاں کہ نازک اور حساس مسائل میں وکیلانہ اور مناظرانہ طریقہ صرف مسئلہ کو مزید پیچیدہ بناتا ہے ، وہ کسی بھی درجے میں اس کو حل نہیں کرتا۔
یہاں میں ایک خصوصی میٹنگ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو نئی دہلی کے وٹھل بھائی پٹیل ہاؤس میں27 مارچ 1987 کو ہوئی تھی۔ یہ میٹنگ بابری مسجد (اجو دھیا) کے مسئلہ پر تھی ۔ ایک طرف بابری مسجد تحریک کے ذمہ داران تھے اور دوسری طرف ہندو شخصیتیں ۔ ہند و جانب سے جو افراد شریک ہوئے ، ان میں ایک ممتاز نام مہنت اوید ناتھ کا ہے جو رام جنم بھومی مکتی یگیہ سمیتی کے صدر ہیں۔ راقم الحروف بھی خصوصی دعوت کے تحت اس میٹنگ میں موجود تھا۔
اس موقع پر دونوں طرف کے لوگوں نے اپنا اپنا نقطہ ٔنظر بیان کیا ۔ اکثر ہند و صاحبان نے مصالحت کے انداز میں تقریر کی۔ مہنت اوید ناتھ نے واضح اور متعین انداز اختیار کیا۔ انھوں نے کہا کہ بابری مسجد ہمارے نزدیک رام جنم بھومی پر بنائی گئی ہے ۔ مسجد تو آپ دوسری جگہ بھی بنا سکتے ہیں مگر جنم بھومی تو وہیں رہے گی جہاں کہ وہ ہے۔ اس لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ یہ جگہ ہم کو واپس دے دی جائے تاکہ ہم اس کو اس کی ابتدائی صورت میں تعمیر کر سکیں ۔ مسلم نمائندے حسب ِمعمول اس طرح تقریر کرتے رہے جیسے کہ وہ مسلمانوں کی طرف سے محض قومی وکیل بن کر اس مجلس میں شریک ہوئے ہیں ۔
اجودھیا کے اس جھگڑے نے جو شدت اور نزاکت اختیار کر لی ہے، اس کے پیشِ نظر اس معاملے میں کرنے کا اصل کام یہ ہے کہ دونوں فریقوں کو فیصلہ کی ایسی مشترک بنیاد پر لایا جائے جس سے دونوں اتفاق کر سکیں ۔ قومی وکالت اور جارحانہ مناظرہ والا انداز کسی بھی درجہ میں حل کا دروازہ کھولنےوالا نہیں بن سکا ۔
مذکورہ میٹنگ میں جب دوسرے لوگ بول چکے تو حاضرین کے اصرار پر میں نے ایک مختصر تقریر کی ۔ سب سے پہلے میں نے یہ کہا کہ مسجد کا معاملہ اسلام میں بے حد نازک ہے۔ مسجد کا مسئلہ یہ ہے کہ جو مسجد ایک بار بن جائے وہ ہمیشہ کے لیے مسجد ہے ۔ اس کو نہ اس کی جگہ سے ہٹایا جا سکتا اور نہ کسی طرح اسے ختم کیا جا سکتا ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک مسجد اگر واقعی وہ مسجد ہے تو مسلمان اپنےعقیدہ کی رو سے کبھی اس کو چھوڑنے پر راضی نہیں ہو سکتے ۔
مگر اسی کے ساتھ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ مسجد ایک مقدس عبادت خانہ ہے ۔ اس لیے مسجد کی تعمیر لازماً جائز زمین پر ہونا چاہیے۔ اگر غصب کی ہوئی زمین پر مسجد بنائی جائے تو اسلامی فقہاء کا کہنا ہے کہ ایسی مسجد میں نماز جائز نہیں (لا تجوز فيه الصلوة)
جہاں تک غیر مذاہب کے عبادت خانے کو ڈھا کر اس کی جگہ مسجد بنانے کا سوال ہے، تو اصولاً یہ اسلام کے بالکل خلاف ہے ، مذاہب کے عبادت خانوں کو ڈھانا، قرآن کے مطابق ایک ظالمانہ فعل ہے ( الحج: 40) خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق کے زمانے میں شام و فلسطین کے عیسائی علاقے اسلامی مملکت میں شامل ہوئے ۔ اس وقت ان کے لیے جو عہد نامے لکھے گئے ، ان میں دوسری باتوں کے ساتھ یہ بھی درج تھا کہ ان کے مذہبی امور میں کوئی دخل اندازی نہ کی جائے گی (لا يحال بينهم و بين شرائعهم ) اہلِ فلسطین کے معاہدہ میں یہ بھی درج کیا گیا کہ ان کے گرجا میں رہائش نہ کی جائے گی اور نہ ان کو ڈھایا جائے گا اور نہ ان میں کچھ کمی جائے گی ۔أَنَّهُ لَا تُسْكَنُ كَنَائِسُهُمْ وَلَا تُهْدَمُ وَلَا يُنْتَقَصُ مِنْهَا۔( تاريخ الطبري،ج 3ص609)
ان تمہیدی باتوں کے بعد میں نے کہا کہ اجودھیا کی بابری مسجد کے بارے میں ہمارے سامنے دو مطالبے ہیں۔ اور دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ مسلمان کہتے ہیں کہ یہ شروع سے مسجد ہے۔ ہندو کہتے ہیں کہ وہ پہلے رام جنم استھان تھی ۔ بعد کو اُسے توڑ کر مسجد بنایا گیا۔ اب سوال یہ ہے کہ دونوں فریقوں کے درمیان فیصلہ کی بنیاد کیا ہو ۔
میں نے کہا کہ یہ ایک کھلی ہوئی بات ہے کہ صرف دعویٰ اور مطالبہ کی بنیاد پر اس کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا ۔ فیصلہ کے لیے کسی دوسری چیز کو بنیاد بنا نا پڑے گا جو ان دونوں سے الگ ہو۔ یہ دوسری چیز صرف ایک ہو سکتی ہے ، اور وہ تاریخ ہے ۔ اس مسئلہ کو ختم کرنے کی واحد معقول صورت یہ ہے کہ دونوں فریق اس پر راضی ہو جائیں کہ تاریخ کا جو فیصلہ ہوگا اس کو دونوں فریق بلا بحث قبول کر لیں گے ۔
پھر میں نے کہا کہ آپ حضرات اگر اصولی طور پر اس بات کو مان لیں تو پھر میری تجویز ہے کہ مسلمہ تاریخ دانوں کا ایک بورڈ بنایا جائے ۔ یہ بورڈ خالص تاریخی حقائق کی روشنی میں معاملہ کا جائزہ لے اور تاریخی شہادتوں کی بنیاد پر وہ جس رائے پر پہنچے اس کے مطابق وہ اس کا فیصلہ کر دے ۔ دونوں فریق پیشگی اقرار نامہ کے مطابق، اس کے پابند ہوں کہ مذکورہ بورڈ کا جو فیصلہ ہوگا اس کو ہر دو فریق مزید بحث کے بغیر مان لیں گے ۔
مزید میں نے کہا کہ اس بورڈ (یا تاریخی عدالت) میں حکومت کا بھی ایک با ضابطہ نمائندہ موجودہو، تاکہ فیصلے کے بعد اس کے عملی نفاذ کی یقینی ضمانت ہو سکے ۔
میری تقریر تمام لوگ بیحد غور کے ساتھ سنتے رہے ۔ جب وہ ختم ہوئی تو مہنت اوید نا تھ اور ان کے ساتھیوں نے کہا کہ ہم کو یہ بات منظور ہے۔ اس انداز پر بات کو آگے بڑھایا جائے ۔ انھوں نے مزید کہا کہ مولانا صاحب (راقم الحروف) سے میں تفصیلی گفتگو کرنا چاہتا ہوں ۔ مجھے یقین ہے کہ اگر ان کے بتائےہوئے راہ عمل پر چلا گیا تو یہ مسئلہ خوش اسلوبی کے ساتھ حل ہو جائے گا ۔
بات یہاں تک پہنچ چکی تھی کہ عین اس وقت بابری مسجد رابطہ کمیٹی کے چیئر مین ، جو کہ ایم پی بھی ہیں ، مشتعل ہو کر چیخنے لگے ۔ وہ اتنے زور زور سے بول رہے تھے کہ یہ سمجھنا مشکل تھا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں بمشکل میں اتنا سن سکا کہ "ہم اس تجویز پر راضی نہیں ہیں "۔
اس گفتگو کے موقع پر جماعت اسلامی کی طرف سے بھی اس کے ایک ذمہ دار بزرگ شریک تھے۔ مگر نا قابل فہم سبب کے تحت وہ مکمل طور پر خاموش رہے ۔ یہاں تک کہ چیر مین صاحب کی چیخ پکار کے ساتھ میٹنگ برخواست ہو گئی ۔
میرے لیے یہ بات ناقابل فہم ہے کہ مسلم لیڈروں نے میری مذکورہ بات سے اختلاف کیوں کیا۔ جب کہ اپنے اعلان کے مطابق ، وہ خود اسی قسم کے باعزت حل کی تلاش میں ہیں ۔ بظاہر اس کی وجہ یہی سمجھ میں آتی ہے کہ "کریڈٹ" کے مسئلہ نے انھیں اس اختلاف پر مجبور کیا۔ وہ اپنے سیاسی مزاج کے تحت ایک ایسے حل پر راضی نہ ہو سکے جس کا کریڈٹ ان کے سوا کسی اور کو مل رہا ہو ۔
مسٹر گووند مکھوٹی (صدر دہلی بار ایسوسی ایشن )نے بابری مسجد کے مسئلہ پر اظہار خیال کرتےہوئے کہا ہے :
" اس قضیہ کا فیصلہ کسی بھی عدالت میں نہیں ہو سکتا۔ اس کے لیے آسان صورت یہ ہے کہ ہندو اور مسلمان دونوں فرقہ کے روشن خیال لوگ خلوصِ دل سے اس مسئلہ کا حل نکالنے کے لیے سر جوڑ کر بیٹھیں اور تاریخی حقائق کی روشنی میں اس کا فیصلہ کریں "۔ افکار ملی، 31 مئی 1988 ، صفحہ 37
اس میں شک نہیں کہ اس معاملے میں یہی سب سے زیادہ قابل ِعمل بات ہے ۔ جس قضیہ سے عوامی جذبات اتنے زیادہ وابستہ ہوں یا وابستہ کر دیے جائیں ۔ اس کو محض عدالتی حکم کے ذریعے ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یکم فروری 1986 کو فیض آباد کی عدالت نے ایک حکم دیا تھا۔ مگر اس کا انجام یہ ہوا کہ ہندوؤں نے اس کو مانا ، اور مسلمانوں نے اس کو نہیں مانا۔ اسی طرح کوئی دوسری عدالت اس سے مختلف حکم دےتو مسلمان اس کو مانیں گے مگر ہندو اس کو نہیں مانیں گے ۔ اور پھر مسئلہ جہاں تھا وہیں باقی رہے گا۔
ایسے ہی نازک اجتماعی معاملات کے لیے حَکم اور ثالث کا اصول مقرر کیا گیا ہے ۔ یہ "عدالت" کی وہ قسم ہے جس میں دونوں فریق پیشگی اقرار کے ذریعہ اس پر راضی ہو جاتے ہیں کہ وہ اس کے فیصلے کو مانیں گے ، خواہ وہ ان کے موافق ہو یا ان کے خلاف۔ اوپر ہم نے 27 مارچ 1987 کی مشترک میٹنگ کی جو روداد درج کی ہے ، وہ بتاتی ہے کہ ڈیڑھ سال پہلے یہ مسئلہ مکمل طور پر اس قسم کے ایک باعزت مل کے قریب پہونچ گیا تھا۔ یہ گویا "تاریخ کی عدالت" کو حکم بنانے کے ہم معنیٰ تھا۔ مگر انہیں سیاست باز لیڈروں نے اس حل کو واقعہ بننے نہیں دیا جو اس مسئلہ کو حل کرنے کے نام پر لیڈری کے میدان میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لیے دوڑ لگارہے ہیں ۔
مرکزی رابطہ بابری مسجد کمیٹی کے چیرمین صاحب کا ایک انٹرویو افکار ملی (31 مئی 1988) میں چھپاہے۔ اس کا ایک سوال و جواب یہ ہے :
سوال: تحریک بازیابی بابری مسجد کی اب تک کی کار کردگی کے بارے میں آپ کا کیا تبصرہ ہے ۔
جواب :دو سال میں سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ آج ملک کے ایجنڈے پر بابری مسجد کا مسئلہ ہے۔ حکومت آخری دم تک اس کو مقامی مسئلہ کہتی رہی ہے ۔ لیکن آج حکومت تسلیم کرتی ہے کہ یہ ملکی مسئلہ ہے ۔ اس طرح ہم اسے ملکی سطح پر لے آئے۔
یہ بلاشبہ صرف ایک غیر سنجیدہ لفاظی ہے کہ بابری مسجد کا مسئلہ آج ملکی ایجنڈے پر ہے ۔ صحیح بات یہ ہے کہ بابری مسجد کا مسئلہ آج ملکی تشدد کی فہرست پر ہے ۔ اس تحریک نے ایک مقامی نزاع کو ایک ملکی نزاع بنا دیا ہے ۔ عام حالت میں جو چیز صرف ایک قصبہ کے ہندوؤں اور مسلمانوں میں تناؤ کا سبب بن سکتی تھی ، اس کو پورے ملک کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تناؤ کا سبب بنا دیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ "چیئرمین صاحب" نے جس چیز کو اپنی تحریک کی سب سے بڑی کامیابی قرار دیا ہے ، وہی اس کی سب سے بڑی ناکامی ہے ۔
"اجودھیا " اور "رام جنم بھومی" ہندو عقیدہ کے مطابق ان کے مقدس مقامات ہیں ۔ وہ ہندو قوم کے لیے انتہائی حساس اشو کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ایسے نازک اور حساس سوال کو مقامی کش مکش کے دائرہ سے نکال کر ملکی کش مکش کے دائرہ میں لانا، مجرمانہ حد تک ایک غلط فعل ہے ۔ مزید یہ کہ یہ اصل مسئلے کے حل میں رکاوٹ بھی ہے۔ کیوں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ پورے ملک کے ہندوؤں کو اپنی مخالفت پر کھڑا کر دیا جائے ۔ دورِ جمہوریت میں اس توسیع کے معنیٰ کیا ہیں، اس کو ہر آدمی سمجھ سکتا ہے۔
میں ذاتی طور پر دہلی کی کم از کم نصف درجن مسجدوں کو جانتا ہوں جو 1947 کے بعد اغیار کے قبضہ میں چلی گئی تھیں۔ بعض مسلمانوں کے دل میں ان کا درد پیدا ہوا۔ خوش قسمتی سے یہ لوگ لیڈر نہیں تھے ۔ چنانچہ انھوں نے خالص مقامی انداز میں اس کی بازیابی کی کوشش شروع کی۔ انھوں نے نہ جلسہ جلوس کی دھوم مچائی۔ اور نہ اخبارات میں بیانات شائع کیے ۔ بس خاموش انداز میں دفتری اور قانونی کارروائی کرتے رہے ۔ انھیں اس کام میں مقامی ہندوؤں کا بھی موثر تعاون ملا۔ ان میں سے کئی مسجدوں کا رقبہ بابری مسجد سے بہت زیادہ بڑا تھا۔ مگر یہ تمام مسجدیں مکمل طور پر مسلمانوں کے قبضہ میں آگئیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ جذباتی تقریریں کر کے ایک مسجد کو مقامی اشو کے بجائے ملکی اشو بنانا سستی لیڈری حاصل کرنے کی کوشش تو ہو سکتی ہے ، مگر وہ مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش ہر گز نہیں ۔ اجودھیا کی بابری مسجد تحریک کے" چیرمین " کے جس انٹرویو کا ذکر اوپر ہوا ، اس کا ایک حصہ یہ ہے :
سوال: کیا مسلم قائدین اجودھیا مارچ میں شریک ہوں گے ، یا مسلم قائدین گھر میں بیٹھیں گے اورعوام مارچ میں نقصان اٹھائیں گے ۔
جواب: ترتیب پر منحصر ہے۔ میں نے تو کوئی ایسی فوج نہیں دیکھی جس میں جنرل بھی آگے جا کر لڑتا ہے۔ کسی کا یہ کہنا احمقانہ ہے کہ صرف قائدین آگے چلے جائیں۔ یا یہ کہنا کہ محض عوام ہی آگے رہیں قائدین آگے نہ آئیں (افکار ملی 31 مئی 1988 ، صفحہ 24)
بابری مسجد ریلی (30 مارچ 1987) کے بعد سے بار بار مارچ (کوچ) کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے نام نہاد قائدین کی میٹنگیں ہوتی تھیں، مگر ہر بار تاریخ کا تعین کیے بغیر میٹنگ برخواست ہو جاتی تھی ۔ عام لوگ یہ خیال کرنے لگے تھے کہ مارچ کی تاریخ کا تعین اس لیے نہیں کیا جا رہا ہے کہ مارچ کے پر خطر اقدام میں لیڈر کو آگے رہنا پڑے گا ۔ اور لیڈر صرف ملت کے بچوں کو یتیم بنانے میں دل چسپی رکھتاہے، وہ اپنے بچوں کو یتیم بنانا نہیں چاہتا ۔
مگر مذکورہ سوال و جواب بتاتا ہے کہ لیڈر کے سیاسی ذہن نے غالباً اس مشکل کا حل دریافت کر لیا ہے۔اور وہ یہ ہے کہ اگر مارچ ہو تو لیڈر مارچ کا "جنرل "بن جائے ۔ وہ مارچ سے دور کی محفوظ مقام پر بیٹھ کر مارچ کی رہنمائی کرے ۔ مگر اس قسم کی جھوٹی ہوشیاری لیڈر صاحبان کے کام آنے والی نہیں۔ کیوں کہ ہر شخص جانتا ہے کہ جنرل ایک منظّم فوج کو دوسری منظم فوج سے لڑاتا ہے ۔ جب کہ مارچ (کوچ) اس قسم کی لڑائی نہیں۔ مارچ اصلاً ایک مظاہرہ ہے۔ اور مظاہرہ اس وقت تک نامکمل ہے جب تک لیڈرکی گاڑی اس کے آگے آگے نہ چل رہی ہو ۔
اجودھیا مارچ کا فیصلہ نام نہاد مسلم لیڈروں نے بوٹ کلب ریلی کے موقع پر 30 مارچ 1986 کو کیا تھا۔ اس کے بعد سے مسلسل مسلمانوں کے جذبات اس عنوان پر ابھارے جاتے رہے۔ یہاں تک کہ فیض آباد کی میٹنگ (22 مئی 1988) میں" بابری مسجد ایکشن کمیٹی "کے ذمہ داروں نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ 14 اکتوبر 1988 کو طویل مارچ کر کے اجودھیا پہنچیں گے اور ہر قیمت پر بابری مسجد میں داخل ہو کر جمعہ کی نماز ادا کریں گے۔ کل ہند بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے کنوینر (جو کہ ایم پی بھی ہیں) نے ایک پریس کانفرنس میں اس فیصلہ کا اعلان کیا۔ ( قومی آواز ، 23 مئی 1988)
یہ فیصلہ بلا شبہ مجنونانہ حد تک غلط ہے ۔ اس قسم کا فیصلہ وہی لوگ کر سکتے ہیں جو لیڈری کی ہوس میں اندھے ہو چکے ہوں۔ اور انھیں اپنی لیڈری کے سوا کوئی اور چیز دکھائی نہ دیتی ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی نام نہا د قیادت نے بابری مسجد کے بارے میں جوش دلا کر مسلمانوں کو اب ایک ایسے نازک مقام پر لا کر کھڑا کر دیا ہے جہاں ان کے ایک طرف گہری کھائی ہے اور دوسری طرف خونخوار بھیڑیا ۔
اب ظاہر ہے کہ صرف دو امکان ہے۔ یا تو بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے اعلان کے مطابق 14 اکتوبر 1988 کو اجودھیا مارچ ہو ، یا اجودھیا مارچ نہ ہو۔ تاہم دونوں میں سے جو بات بھی ہوگی وہ یقینی طور پر سنگین ترین نتائج پیدا کرے گی۔ موجودہ صورت حال میں جب کہ دونوں طرف کے لوگوں کے جذبات انتہائی حد تک بھڑ کا دیے گئے ہیں، دونوں میں سے کوئی بات بھی سادہ بات نہیں ہو سکتی ۔
اگر مذکورہ اعلان کے مطابق ، مسلمانوں کا جتھا مارچ کرتے ہوئے اجودھیا پہنچتا ہے اور بابری مسجد میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے تو اس میں شک نہیں کہ اس کو نہایت خونخوار مزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا۔ تقریباً یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ حالات میں اس قسم کا اقدام میرٹھ اور ملیانہ سے بھی زیادہ برے انجام کی طرف جان بوجھ کر چھلانگ لگانے کے ہم معنیٰ ثابت ہو گا۔ سطحی قسم کے قائدین اس کے بعد" ظلم اور سازش" کے انکشاف میں سرگرم ہوجائیں گے۔ مگر یقینی طورپر یہ مسلم قیادت کے دیوالیہ پن کا ثبوت ہو گا نہ کہ کسی دوسرے کے ظلم اور سازش کا ۔
اور اگر لیڈر کا زر خیز دماغ کوئی عذر نکال کر اجودھیا مارچ کو ملتوی یا منسوخ کر دے تو یہ بلاشبہ اس سے بھی زیادہ برا ہے۔ کیوں کہ 30 مارچ 1987 کی ریلی میں مسلم مقررین نے جس طرح فریق ثانی کو دھمکیاں دی تھیں ، اس کے بعد سے اب تک تمام چھوٹے بڑے مسلم قائدین جس طرح چیلنج کی زبان میں بات کرتے رہے ، جس طرح جلسوں کی بھیڑمیں بابری مسجد لے کے رہیں گے جیسے " فلک شگاف " نعرے لگائے جاتے رہے ، اس کے بعد مارچ کا التواء محض سادہ واقعہ نہیں ہو سکتا۔ مسلمانوں نے الفاظ کے بے پناہ اسراف سے جو ملکی فضا بنائی ہے، اس کے بعد اگر وہ اقدام سے باز رہتے ہیں تو یہ فریق ثانی کی نظر میں سخت ترین بزدلی کا مظاہرہ ہو گا جس کی تلافی مستقبل بعید تک بھی نا ممکن ہوگی ۔ اس کے بعد وہ ذلت اور حقارت کے ،ایسے دور میں داخل ہو جائیں گے جس کا اب تک انھوں نے تصوّر بھی نہیں کیا تھا ۔
حقیقت یہ ہے کہ نا اہل قیادت نے ہندستانی مسلمانوں کو اب ایسے نازک مقام پر لا کر کھڑا کر دیاہے جہاں ان کے لیے انتخاب (Choice) بربادی اور غیر بربادی میں نہیں ہے ، بلکہ ایک بربادی اور دوسری بربادی میں ہے۔ شاید عربی شاعر نے اسی قسم کی نکمی قیادت کے بارے میں یہ شعر کہا تھا کہ جب کوّ اکسی قوم کا سردار ہو جائے تو وہ ان کو ہلاکت کے گڑھے کی طرف لے جائے گا :
إِذَا كَانَ الْغُرَابُ رَئِيسَ قَوْمٍ سَيَهْدِيهِمْ إِلَى دَارِ البَوارِ
یہاں ہم ہفت روزہ نئی دنیا (3-9 جون 1988) کا ایک پیراگراف نقل کریں گے۔ اس نے اجودھیا مارچ کے مسئلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے" خود کشی یا جہاد"کے عنوان کے تحت لکھا ہے :
"کیا حق ہے اور کیا ناحق ، اس سے قطع ِنظر، آج کے ہندستان کی حقیقت یہ ہے کہ فاشسٹ اور فرقہ پرست عناصر اس مارچ کے سوال کو لے کر ہندستان کے امن و امان کو آگ لگانے کی کوشش کریں گے ۔ سید شہاب الدین یا بابری مسجد رابطہ کمیٹی کے کچھ لیڈ ر کتنی بھی من شانتی کی بات کریں اور گاندھیائی انداز میں مارچ کرنے کا نعرہ لگائیں، عام آدمی کے ذہن میں اس مارچ کا مطلب ہندومسلم ٹکراؤ ہو گا، جو فاشسٹ طاقتیں ہندستان سے سیکولزم کا جنازہ نکالنا چاہتی ہیں، مارچ کو بہانہ بناکر گاؤں گاؤں، قصبہ قصبہ فساد کرانے اور ہنگامے کرانے کی سازش کریں گی ۔ جس طرح میرٹھ کے قتل عام کے موقع پر مسلم قیادت بے دست و پا نظر آرہی تھی ، اسی طرح اس موقع پر بھی خاموش تماشائی بنی نظر آئے گی، اور کٹے گا، مرے گا ، لٹے گا عام مسلمان ، غریب مسلمان ، بدحال ، بے بس مسلمان ۔ مارچ کے اس فیصلہ کے ساتھ مسلم لیڈروں کو اس بات کو سامنے رکھنا ہو گا کہ ان کا موقف کتنا بھی درست کیوں نہ ہو ، ان کی حکمتِ عملی کے نتائج کیا ہوں گے۔ اور یہ نتائج کسے بھگتنے ہوں گے۔ اور سب سے بڑی بد نصیبی تو یہ ہوگی کہ ان سب قربانیوں کے باوجود اس راستہ کو اپنا کر مسلمانوں کو بابری مسجد نہیں مل سکے گی ۔ خود بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے قائد بھی اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہیں "۔صفحہ 1