ایک سفر
3 اپریل 1988 کو سہارن پور سے کچھ صاحبان اسلامی مرکز میں آئے۔ یہ ڈاکٹر محمد اسلم صاحب اور ان کے ساتھی تھے۔ انھوں نے کہا کہ آل انڈیا اردو تعلیمی بورڈ اور فخر الدین علی احمد اکیڈمی کے مشترکہ فیصلہ سے یہ طے کیا گیا ہے کہ محمود علی خاں نیشنل انٹگریشن ایوارڈ (1988) آپ کو دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ہم سہارن پورمیں 9 اپریل 1988 کو ایک خصوصی تقریب منعقد کر رہے ہیں۔ میں نے کہا کہ میں اس قسم کا آدمی نہیں ہوں ۔ مجھ کو آپ ایوارڈ نہ دیجیے ، مجھ کو آپ دعا دیجیے۔ تقریباً ایک گھنٹہ تک میں ان کے ذہن کو بدلنے کی کوشش کرتا رہا ، مگر وہ کسی قیمت پر راضی نہیں ہوئے ۔ یہاں تک کہ مجبور اًمجھے اس پیش کش کو منظور کرنا پڑا۔
ان معاملات میں میرا مزاج اس سے مختلف ہے جس کی کہانیاں مسلمانوں ، نیز غیر مسلموں کی مذہبی شخصیتوں کے بارے میں پُر فخر طور پر بیان کی جاتی ہیں۔ یعنی ان کو فلاں چیز کی پیش کش کی گئی اور انھوں نے اس کو بے نیازی کے ساتھ ٹھکرا دیا۔ ذاتی طور پر میں اس روش کو تواضع کے خلاف سمجھتا ہوں۔ میرے تمام جاننے والے جانتے ہیں کہ طبعاً میں گمنامی میں رہنا پسند کرتا ہوں۔ شہرت اور اعزاز سے مجھے بیزاری کی حد تک وحشت ہوتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ میں اس کو ذہنی پستی کی علامت سمجھتا ہوں کہ کوئی شخص دوسروں کی طرف سے ملنے والے اعزاز پر خوش ہو یا اس کا طالب بنے۔ اس قسم کے اعزازات کی طلب بلاشبہ مومنانہ نفسیات کے خلاف ہے ۔ مگر یہ بات بھی مومنانہ نفسیات کے خلاف ہے کہ آدمی اس قسم کی پیش کش کو اصرار کے با وجو د ٹھکرادے ۔ کیوں کہ یہ اس تو اضع کے مطابق نہیں جو اس دنیا میں مومن و مسلم کا اصل سرمایہ ہے۔
جیمس رسل لاول (James Russel Lowell) نے کہا ہے کہ وہ چیز جس کو لوگ بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں وہ اعزاز ہے خواہ وہ جنازہ کے ماتمی جلوس کی پیشوائی کیوں نہ ہو :
What men prize most is a privilege, even
it be that of chief mourner at a funeral.
یہ اعزاز پسندی تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ تاہم اصل مطلوب ، اعزاز والی چیز کو رد کرنا نہیں بلکہ اعزاز پسندی کی نفسیات کو رد کرنا ہے۔ اور تجربہ بتاتا ہے کہ یہ دوسری چیز اکثر ان لوگوں میں مزید اضافے کے ساتھ موجود ہوتی ہے جو تمغۂ اعزاز کو رد کرنے کے چیپمئن بنتے ہیں۔ کیوں کہ اعزاز کو رد کرناعوام کی نظر میں انھیں مزید برتر اعزاز کا درجہ عطا کر دیتا ہے۔
سہارن پور دہلی سے 165 کیلو میٹر کے فاصلہ پر مغربی یوپی میں واقع ہے۔ یہ شہر 1340 ء میں آباد ہوا۔ اس وقت کے ایک مسلم بزرگ شاہ حاران چشتی کے نام پر اس کا نام " شاہ حاران پور " رکھا گیا جو بعد کے استعمال میں سہارن پور ہو گیا۔ ہندوؤں کا تیرتھ استھان ہر دوار اسی ضلع میں واقع ہے مشہور عربی درس گاہ دار العلوم دیو بند بھی اسی ضلع میں ہے جو ابتداءً 1867 ء میں قائم ہوئی تھی ۔ خود شہر سہارنپور میں مظاہر العلوم کے نام سے ایک بڑا تعلیمی ادارہ موجود ہے ۔ چھوٹے چھوٹے دینی مدارس درجنوں کی تعداد میں اس کے علاوہ ہیں۔ سہارن پور شہر کی آبادی تقریباً 5 لاکھ ہے جس میں مسلمانوں کی تعداد 30 فی صد بتائی جاتی ہے۔ تعلیمی اور معاشی اعتبار سے یہاں کے مسلمان نسبتاً اچھی حالت میں ہیں۔
رڑ کی بھی اس ضلع میں ہے جہاں ہندستان کی پہلی انجنیئرنگ یونیورسٹی قائم ہوئی۔ رڑکی کے تصور سےمجھے ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ایک صاحب ہیں جنھوں نے 1955 میں بی ایس سی ( انجنیئرنگ) کیا تھا۔ اس وقت ہندستان میں صرف رڑکی میں ایم اے ( انجنیئرنگ) کا کورس تھا۔ مزید یہ کہ اس وقت یہ کورس صرف ایک سال کا تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ اب آپ رڑ کی انجینئرنگ کالج میں داخلہ لے لیں اور انجنیئرنگ میں ماسٹر ڈگری کا کورس کر لیں۔ مگر انھوں نے میرا مشورہ نہیں مانا اور ملازمت میں چلے گئے۔
بعد کو ان سے ملاقات ہوئی تو انھوں نے کہا کہ میں نے آپ کا مشورہ نہ مان کر سخت غلطی کی۔ میں ٹیچنگ کے کام کو پسند کرتا ہوں مگر ماسٹر ڈگری نہ ہونے کی وجہ سے میں یونیورسٹی میں جگہ حاصل نہ کر سکا۔ آخر کار مجھے ایڈ منسٹریشن میں جانا پڑا۔ وہ ایک شریف آدمی ہیں۔ رشوت وغیرہ سے بہت دور رہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ میرے جیسے آدمی کے لیے یونیورسٹی ٹیچر کی زندگی بہترین زندگی تھی ۔ ایڈ منسٹریشن کے لیے، کم از کم اس ملک میں ، تو میں بالکل ہی غیر موزوں ہوں ۔ نتیجہ یہ ہے کہ میں مستقل طور پر ذہنی الجھن میں رہتا ہوں۔ مجھے کبھی وہ چیز نہ مل سکی جس کو اطمینان کار (Job satisfaction) کہا جاتا ہے۔
مذکورہ کہانی بیان کرنے کے بعد انھوں نے کہا : " میں نے اپنا ایک سال بچانا چاہا تھا ، اس کے نتیجے میں میری پوری زندگی کھوئی گئی ، اور آپ جانتے ہیں کہ زندگی صرف ایک بار ملتی ہے" ۔
دہلی سے سہارنپور تک کا سفر (9 اپریل 1988) پر وفیسر ایم ایس اگوانی (وائس چانسلر جواہر لال نہرو یونیورسٹی) کے ساتھ ہوا۔ وہ ایک علم پسند اور صاحب مطالعہ آدمی ہیں ۔ چنانچہ پورے راستے میں ان کے ساتھ مفید تبادلۂ خیال جاری رہا۔ گفتگو کے دوران انھوں نے بتایا کہ انھوں نے اپناڈاکٹریٹ ہالینڈ کی واخی ننگن یونیورسٹی(Wageningen Agricultural University) 1953 میں کیا ہے ۔ پی ایچ ڈی کے لیے ان کے مقالہ کا عنوان یہ تھا :
The United States and the Arab World.
انھوں نے بتایا کہ واخی ننگن میں وہ تقریباً دو ہفتہ ایک عیسائی پروفیسر ہافسٹی (Prof. Hofstee) کے یہاں مقیم رہے۔ یہ پروفیسر صاحب پروٹسٹنٹ تھے۔ ان کے یہاں کھانا پکانے کے لیے ایک خادمہ تھی جو کیتھولک چرچ سے تعلق رکھتی تھی۔ پروٹسٹنٹ اور کیتھولک میں اتنا زیادہ مذہبی اختلاف ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو بے دین سمجھتے ہیں۔ اس مذہبی اختلاف کے باوجود دونوں ایک دوسرے کا مکمل احترام کرتے تھے۔ گھر کے مالک ، ان کے بیوی بچے اور خادمہ سب ایک ساتھ میز پر بیٹھ کر کھانا کھاتے تھے۔ کیتھولک لوگوں کا طریقہ یہ ہے کہ وہ کھانے سے پہلے کچھ دعائیہ کلمات پڑھتے ہیں ، اس کے بعد انگلی سے اپنے سینہ پر صلیب کا نشان بناتے ہیں ، پھر کھا نا شروع کرتے ہیں ۔ مذکورہ پروفیسر اور ان کے گھر کے لوگ کھانے کے وقت میز کے کنارے بیٹھ جاتے تھے ۔ سب سے پہلے کیتھولک خادمہ اپنے مذہبی عقیدہ کے مطابق مختصر دعائیہ رسم ادا کرتی۔ اس وقفہ میں گھر کے تمام پروٹسٹنٹ افراد خاموشی کے ساتھ گردن جھکائے ہوئے اپنی کرسیوں پر بیٹھے رہتے۔ اور صرف اس وقت کھا نا شروع کرتے جب کہ کیتھولک خادمہ اپنی دعائیہ رسم سے فارغ ہو جاتی۔
سہارن پور جاتے ہوئے سٹرک کے دونوں طرف مسلسل ہر یالی اور باغ کا منظر تھا۔ یعنی وہی منظر جس کی قرآن میں ان الفاظ میں تصویر کشی کی گئی ہے : لَقَدْ كَانَ لِسَـبَاٍ فِيْ مَسْكَنِهِمْ اٰيَةٌ ۚ جَنَّتٰنِ عَنْ يَّمِيْنٍ وَّ شِمَالٍ ( سبا: 15) قرآن میں اہل سبا کے سرسبز باغات کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ان کو اس نعمت پر شکر کرنے کا حکم دیا گیا تھا مگر انھوں نے اعراض کیا۔ یہاں تک کہ وہ ان باغات سے محروم کر دیے گئے۔
اس معاملہ پر غور کرتے ہوئے ذہن میں آیا کہ عام طور پر لوگ شکر کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ خوداپنی ذات کے لیے کوئی نعمت ملے تو اس پر شکر کا کلمہ کہہ دیا جائے ۔ مگر یہ شکر کی بہت ناقص اور محدود شکل ہے کیوں کہ عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ موجودہ دنیا میں احسانات خداوندی کا بظاہر ایک چھوٹا سا جز ہی کسی فرد کو ذاتی طور پر ملتا ہے۔ اب اگر صرف ذاتی عطیہ پر شکر کرنا ہو تو آدمی کے اندر شکر کی ایک چھوٹی نہر تو جاری ہو سکتی ہے مگر شکر کا اتھاہ سمندر اس کے سینے میں موجزن نہیں ہو سکتا۔ حقیقت یہ ہے کہ شکر خدا وند عالم کی بے پایاں عظمتوں کے اقرار کا نام ہے ۔شکر کا یہ درجہ کسی شخص کو اس وقت مل سکتا ہے جب کہ وہ خدا کے عظیم تر احسانات پر جذ بۂ شکر سے سرشار ہو سکتا ہو۔ محدود احسان کے تصور سے محدودشکر پیدا ہوتا ہے۔ اور لامحدود احسان کے تصور سے لا محدود شکر ۔
راستے میں ہمارا قافلہ دیوبند سے گزرا۔ یہ سہارن پور کا مشہور قصبہ ہے ۔ قدیم عربی درس گاہ "دار العلوم " یہیں واقع ہے۔ دار العلوم کی النادى الادبی کی دعوت پر ستمبر 1971 کے پہلے ہفتے میں دیو بند آیا تھا ۔ النادی الاولیٰ کے سالانہ اجتماع میں مجھے مہمان خصوصی کے طور پر بلایا گیا تھا۔
اس سفر کے موقع پر دیو بند میں میری کئی تقریریں ہوئی تھیں۔ اس کی روداد الجمعیۃ ویکلی (17 ستمبر 1971) میں شائع ہو چکی ہے۔ ایک تقریر میں میں نے کہا تھا : "موجودہ حالات بظاہر دل شکن ہیں۔ مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ آدمی خواہ کتنا ہی زیادہ لٹ گیا ہو ، پھر بھی اس کے پاس کچھ چیزیں باقی رہتی ہیں۔ اوراگر دانش مندی سے کام لے کر ان موجود چیزوں کو استعمال کیا جائے تو ہر بربادی کے بعد نئی عظیم تر تعمیر کا امکان نکل آتا ہے ۔
دیو بند کے ایک طالب علم کی فرمائش پر میں نے حسبِ ذیل سطریں اس کی ڈائری میں لکھی تھیں : "زندگی اس کائنات کی سب سے قیمتی متاع ہے۔ مگر اس متاع کی قیمت بازار حیات میں اس وقت ملتی ہے جب کہ آدمی خود اس کی قیمت دے چکا ہو ۔ زندگی وہ سودا ہے جو خارجی بازار میں فروخت ہونے سے پہلے خود آدمی کے اپنے اندر فروخت ہوتا ہے ۔ یہ آپ کے حوصلہ کا امتحان ہے ۔ آپ خود اپنی جتنی زیادہ قیمت لگائیں گے ، بازارِ عالم میں اتنی ہی زیادہ اس کی قیمت لگے گی ۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی زندگی دو سروں کی نظر میں زیادہ قیمتی ٹھہرے تو سب سے پہلے خود اس کے خریدار بنئے۔ یہ دوسرے نہیں بلکہ خود آپ ہیں جو اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ بازار عالم میں آپ کی قیمت کتنی مقرر ہوگی (4 ستمبر 1971)
رائے پور ایک قصبہ ہے جو سہارن پور ضلع میں واقع ہے۔ یہاں مولانا عبد القادر رائپوری(1962 -1878) کی خانقاہ ہے۔ میں دوبار اس خانقاہ میں گیا ہوں ۔ یہ سفر بھی سہارن پور کے راستہ سے ہوا۔ پہلی بار جنوری 1972 کے آخری ہفتہ میں رائے پور کا سفر ہوا تھا۔ اس سلسلے میں دو گھنٹے کے لیے سہارن پور میں بھی قیام رہا۔ اس سفر کی روداد الجمعیۃ ویکلی 18 فروری 1972 میں شائع ہو چکی ہے۔
اس سفر میں کچھ وقت قصبہ بہیٹ میں شاہ مسعود صاحب کے یہاں گزرا ۔ وہ مولانا رائے پوری کے بہت قریبی لوگوں میں سے تھے۔ انھوں نے کہا کہ "حضرت کو اس بات کا بہت خیال تھا کہ مسلمان نئے زمانےکے تقاضوں کو نہیں سمجھتے۔ حالاں کہ جب تک نئے زمانے کے لحاظ سے تیاری نہ کی جائے اور اس کے مطابق عمل نہ کیا جائے، نئے زمانےمیں کوئی جگہ حاصل نہیں کی جا سکتی "۔ شاہ مسعود صاحب نے بتایا کہ ایک بار میں نے حضرت رائے پوری کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ "دو سو سال سے ملت کا ستارہ گردش میں ہے "۔
مولانا حبیب الرحمن صاحب 1935 سے مستقل طور پر رائے پور میں مقیم تھے۔ انھوں نے مولانارائے پوری کے ملفوظات بڑی مقدار میں قلم بند کر رکھے تھے۔ انھوں نے اپنی ڈائری مجھے دیکھنے کے لیے دی ۔ اس میں یکم شوال 1370ھ کی رائے پور کی ایک صحبت کے تحت درج تھا کہ "حضرت نے فرمایا کہ اب مسلمانوں کو اپنی پستی سے اٹھنے کے لیے سو سال درکار ہیں ، بشرطیکہ وہ صحیح راستہ پاکر اس پر عمل شروع کر دیں" ۔
20 جولائی 1951 کی تاریخ کے تحت درج تھا کہ" حضرت نے آج کی مجلس میں فرمایا کہ ہماری قوم کا عجیب قصہ ہے۔ وہ تیاری تو کرتی نہیں، شور مچاتی ہے۔ غوغائی لوگ ہیں ۔ ان کو اب ، بشرطیکہ جائزہ لے کر کام کریں ، سو سال اٹھنے کو چاہئیں "۔ جب سنا کہ پاکستان میں مسٹر جناح کے نام پر ایک نیا شہر" قائد آباد " بسایا گیاہے تو فرمایا کہ ہماری قوم کا عجیب حال ہے۔ اگر ہم پانچ دس لاکھ آدمی قتل کرا دیتے تو ہمارے نام پر بھی شہر آباد کر دیتے۔ جو اُن کو تباہ کرے ، یہ اس کے ساتھ لگتے ہیں" ۔
رائے پور (ضلع سہارن پور ) کا دوسرا سفر جولائی 1972 کے دوسرے ہفتہ میں ہوا ۔ اس سفر کی روداد الجمعیۃ ویکلی 28 جولائی 1972 میں مفصل طور پر شائع ہو چکی ہے۔ یہ دونوں سفر حا فظ عتیق الرحمن دہلوی کے ساتھ ہوئے۔ خانقاہ کے ایک صاحب نے بتایا کہ تقسیم ہندسے پہلے جب مسلم لیگ کا طوفان برپا تھا اور ہر طرف انقلاب زند باد کے نعرے لگ رہے تھے، حضرت نے فرمایا : "یہ سب نعرے تو میری سمجھ میں آتے نہیں۔ مجھے تو دہریت کی گھٹائیں آتی ہوئی دکھائی دیتی ہیں۔ اس کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا"۔
مسلمانوں کی یہ غوغائی سیاست آج بھی بدستور جاری ہے"دو سو سالہ گردش "کی مدت بڑھتی جارہی ہے، اور مسلم قائدین میں کوئی ایک شخص بھی نہیں جو ماضی کی غلطیوں کا اعتراف کر کے از سرِ نو صحیح سمت میں سفر شروع کرنے کے لیے تیار ہو۔
9 اپریل 1988 کی دو پہر کو جب میں سہارن پور پہنچا تو یہ سہارن پور میں میرے باقاعدہ قیام کا پہلا واقعہ تھا۔ یہاں اندازہ ہوا کہ الرسالہ مشن یہاں کے تعلیم یافتہ طبقہ میں عام طور پر پہنچ چکا ہے۔ اور اسی طرح اطراف کی بستیوں میں بھی۔ خاص طور پر نوجوان طبقہ اب یہ محسوس کرنے لگا ہے کہ نام نہاد مسلم قائدین اب تک انھیں جو رہنمائی دیتے رہے وہ حقیقتاً ر ہنمائی نہیں تھی بلکہ قیادتی استحصال تھا۔ الرسالہ کے ذریعہ پہلی بار وہ محسوس کر رہے ہیں کہ انھیں ایک ایسی راہ عمل مل رہی ہے جس پر وہ نتیجہ خیز طور پر سرگرم عمل ہو سکیں ۔ ایک صاحب نے اپنا تاثر ان لفظوں میں بیان کیا کہ اگر الرسالہ کا پیغام مجھے پہلے مل جاتا تو میں بہت سی ان حماقتوں سے بچ سکتا تھا جو میں نے مسلم قائدین کے خطیبانہ الفاظ سے متاثر ہو کر کیں ۔
نوجوانوں کی بڑی تعداد اس طرح پر شوق طور پر ملاقات کرتی رہی جیسے کہ انھوں نے صاحب الرسالہ کی شکل میں اپنا مستقبل دریافت کر لیا ہو ۔
کئی نوجوانوں نے آٹو گراف لیے۔ میں نے ایک نوجوان کی بُک پر لکھنا شروع کیا : "زندگی اس سے زیادہ ۔۔۔" اس نے فوراً کہا ، کیا آپ وہ جملہ لکھ رہے ہیں جو اس سے پہلے الرسالہ (دسمبر 1986 صفحہ 37) میں چھپ چکا ہے۔ مجھے نوجوان کی یادداشت پر حیرت ہوئی ۔ اس نے کہا کہ ہم الرسالہ کو پڑھتے نہیں ہیں بلکہ اس کو کاغذ سے لے کر اپنے سینہ پر لکھتے ہیں۔ میں نے سابقہ الفاظ کاٹ کر اس کی جگہ یہ جملہ لکھ دیا: کائنات رزق ِخداوندی کا دستر خوان ہے ۔ جس نے موجودہ دنیا میں خدا کا رزق پایا ، وہی آخرت میں خدا کا رزق پائے گا۔ جو شخص دنیا میں خدا کے رزق سے محروم رہا وہ آخرت میں بھی خدا کےرزق سے محروم رہے گا۔
ایک شخص نے آٹو گراف کے لیے اپنی بک کھولی۔ اس میں یہ سوال لکھا ہوا تھا کہ "خوشی کیا ہے" اس کے جواب میں میں نے یہ الفاظ لکھ دیے : اس دنیا میں صرف وہ آدمی خوش رہ سکتا ہے جونا خوشی کے حالات میں خوش رہنے کا فن جانتا ہو۔
ایک ہندو نوجوان نے اپنی بک کھول کر میرے سامنے رکھی اور کہا کہ اس میں کچھ نصیحت کی بات لکھ دیجئے۔ میں نے اس کی بک میں حسب ذیل انگریزی فقرہ لکھ دیا :
If you have a good excuse, don't use it.
سہارنپور کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ وہاں فساد نہیں ہوتا۔ معمولی وقتی جھڑ پیں تو ہوئی ہیں مگر با قاعدہ قسم کا فرقہ وارانہ فساد کبھی نہیں ہوا۔ میں نے اس کے اسباب جاننے کی کوشش کی تو یہ بات سامنے آئی کہ یہاں کے ہندو اور مسلمان برابر آپس میں ملتے جلتے رہتے ہیں۔ مثلاً 9 اپریل 1988 کو نیشنل انٹگریشن کا جو اجتماع ہوا ، اس میں نہ صرف سب کو شریک کیا گیا بلکہ جن لوگوں کو انعامات تقسیم کیے گئے ان میں بھی مسلمانوں کے ساتھ ہندوؤں کے نام شامل تھے۔ حتیٰ کہ "بد نام " قسم کی فرقہ پرست پارٹیوں کے افراد کو بھی فیاضی کے ساتھ تحسین و اعتراف سے نوازا گیا۔
مجھے معلوم ہوا کہ یہاں مختلف قسم کی تقریبات اور اجتماعات میں ہندوؤں اور مسلمانوں کے سر بر آوردہ افراد بار بار آپس میں ملتے ہیں۔ ایک دوسرے کے معاملات میں شریک ہوتے ہیں۔ یہ طریقہ ہر قسم کے فساد کے لیے بلاشبہ سب سے بڑا روک ہے۔ پچھلی نصف صدی کے دور ان مسلم لیڈروں نے نمائشی دھوم پر جتنا وقت اور پیسہ برباد کیا ہے، اگر وہ اس کو ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان آپس کا میل ملاپ بڑھانےکے لیے استعمال کرتے تو یقینی ہے کہ ہندستان میں فرقہ وارانہ جھگڑے پیدا ہونے سے پہلے ختم ہو چکے ہوتے۔ ممکن ہے کہ اس غیر نمائشی تدبیر کو اختیار کرنے کی صورت میں قائدین ِملت کا اپنا قیا دتی مینار کھڑا نہ ہوتا ، مگر یقینی ہے کہ خود ملت کے مسائل پورے طور پر حل ہو جاتے۔
موجودہ زمانے کے تمام مسلم لیڈر کسی نہ کسی طور پر ایک ہی کام میں مشغول ہیں۔ حکمرانوں سے احتجاج و مطالبہ ۔ اس قسم کی سیاست سراسر نادانی کی سیاست ہے ۔ یہ عوامی جمہوریت کا زمانہ ہے۔ موجودہ زمانے میں تمام اجتماعی فیصلے عوام کی سطح پر ہوتے ہیں۔ ایسی حالت میں جدو جہد کا رُخ عوام کے بجائے حکمرانوں کی طرف کرنا صرف زمانے سے ناواقفیت کا ثبوت ہے ، یہ اپنی جہالت کا اشتہار ہے نہ کہ حقیقی معنوں میں کوئی قیادت۔
سہارن پورمیں میرا قیام وہاں کے ڈاک بنگلہ میں تھا۔"ڈاک بنگلہ "نو آبادیاتی دور کی اصطلاح ہے۔ برطانی دور میں ہندستان میں جگہ جگہ رہائش گا ہیں بنائی گئی تھیں۔ یہ عام طور پر ایک منزلہ مکانات ہوتے تھے اور ان کے گرد وسیع خالی زمین ہوتی تھی ۔ یہ مکانات نو آبادیاتی افسروں (Colonial officials) کے وقتی قیام میں ، نیز گھوڑوں کے ذریعہ ڈاک کی روانگی میں درمیانی اسٹیشن کے طور پر استعمال ہوتے تھے ۔ ان کو اس زمانے میں ڈاک بنگلہ کہا گیا۔ ڈاک بنگلہ کا لفظ بیک وقت دو چیزوں کی علامت ہے۔ سیاسی اعتبار سے نو آبادیاتی اقتدار ، اور تمدنی اعتبار سے وہ دور جبکہ ڈاک صرف حیوانی طاقت کے ذریعہ ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جا سکتی تھی۔
ڈاک بنگلہ کو ، اس کے موجودہ استعمال کے لحاظ سے ، اگر سرائے کہا جائے تو وہ زیادہ بامعنی ٰہوگا۔ مگر" وی آئی پی " حضرات جو اکثر ڈاک بنگلوں میں ٹھہرتے ہیں ، وہ شاید اس کو پسند نہ کریں۔ کیونکہ "سرائے " کے لفظ نے استعمال کی بنا پر وہ کشش کھو دی ہے جو "ڈاک بنگلہ " کے لفظ میں قدیم برطانی تاریخ کی بنا پر پائی جاتی ہے۔
9 اپریل کی شام کو مغرب کی نماز پڑھ کر میں مسجد سے با ہر نکل رہا تھا ، ایک صاحب نے کہا : آپ نے تو اپنے اسلامی نقشہ میں بَدر واُحد کو ختم کر دیا ہے ۔ ان کا یہ سوال طنزیہ لہجہ میں تھا۔ مزید یہ کہ وہ میری طرف ایک ایسی بات منسوب کر رہے تھے جو میں نے خود نہ کہی ہو۔ میں نے سوچا کہ کیسے عجیب ہیں وہ نمازی جو اپنے ظاہری جسم کے اعتبار سے تو نمازی بن گئے ، مگر اپنی سوچ اور اپنی بات میں وہ نمازی نہیں بنے۔
میں نے کہا کہ اس کو میں نے ختم نہیں کیا ، البتہ آپ جیسے مسلمان ضرور اس کو ختم کر رہے ہیں۔ بَدر واُحد وقتی اشتعال کے تحت لڑ جانے کا نام نہیں ۔ اس قسم کی لڑائی خود کشی کا عمل ہے ۔ جب کہ " بَدر واُحد " تاریخ سازی کا عمل ۔ حقیقت یہ ہے کہ بَدر واُحد ایک لمبے منصوبے کے تحت پیش آنے والا مقدّس واقعہ ہے ––––– حق کی دعوت دینا ۔ اس کو تمام آداب و حکمت کے ساتھ مسلسل جاری رکھنا۔ یہاں تک کہ وہ اتمام ِحجت کے مرحلے تک پہنچ جائے۔ پھر ہجرتِ مکانی یا ہجرتِ عملی کے ذریعہ فریق ثانی کی جارحیت کے نشانہ سے ہٹ جانا ۔ یک طرفہ طور پر اپنے آپ کو غیر جارح بنا لینا ۔ ان سب مراحل کے بعد بھی اگر فریق ثانی چڑھائی کر کے حملہ آور ہو جائے تو پھر اس سے مقابلہ کرنا۔ یہ ہے وہ " بَدر واُحد " جس کے لیے نَصْرٌ مِّنَ اللّٰهِ وَفَتْحٌ قَرِيْبٌ ۭ کی بشارت دی گئی ہے۔
موجودہ مسلمانوں نے " بَدر واُحد " کی تمام ابتدائی شرطوں کو عمل منسوخ کو رکھا ہے ۔ اس لیے ان کے حق میں وہ بَدر واُحد بھی منسوخ ہو چکا ہے جس میں خدا کے فرشتے ان کی مدد کے لیے اتریں اور انھیں غلبہ و سر بلندی کی خبریں سنائیں۔ جو کسان زراعت کی ابتدائی شرطوں کو پورا نہ کرے اس کے لیے فصل کے وقت فصل کاٹنا بھی مقدر نہیں۔ اسی طرح جو مسلمان" بَدر واُحد " کی ابتدائی شرطوں کو پورا نہ کریں ان کے لیے یہ مقدر نہیں کہ وہ " بَدر واُحد " کے مجاہدین میں لکھے جائیں اور بَدر واُحد کے ثمرات میں حصہ دار بنیں۔
ایک صاحب نے کہا کہ" الرسالہ میرے دل کی آواز ہے"۔ میں نے پوچھا ، کیا آپ نے الرسالہ کی ایجنسی لی ہے ۔ انھوں نے کہا کہ نہیں۔ میں نے کہا ، پھر میں یہ ماننے کے لیے تیار نہیں کہ الرسالہ آپ کے دل کی آواز ہے۔ دل تو ایسی چیز ہے کہ جو بات اس کی آواز بن جائے وہ دل کے اندر محدود نہیں رہ سکتی، وہ یقینی طور پر پھٹ کر نکلے گی۔ اور اسی کی ایک صورت الرسالہ کی ایجنسی ہے ۔ ایجنسی در اصل صاحب ایجنسی کی شخصیت کی توسیع ہے۔ وہ دل کے جذبات کا کاغذی روپ اختیار کر کے باہر آنا ہے ۔ ایک شخص جو حقیقی طور پہ الرسالہ سے متأثر ہو ، وہ اس کا تحمل نہیں کر سکتا کہ وہ اس کی ایجنسی لے کر اس کو پھیلانے کےعمل میں شریک نہ ہو جائے۔
انھوں نے کہا کہ میں ایجنسی لینا چاہتا ہوں ، مگر میرے پاس پیسہ نہیں۔ میں نے کہا کہ الرسالہ دنیا کا واحد پر چہ ہے جس کی ایجنسی کسی نقصان کا خطرہ مول لیے بغیر کی جاسکتی ہے اورجس کو مفت پڑھا جا سکتا ہے ۔انھوں نے پوچھا کہ وہ کیسے ۔
میں نے کہا کہ آپ پانچ پرچہ کی یا دس پرچہ کی ایجنسی لے لیں اور ایک پرچہ اپنے پاس رکھ کر بقیہ پرچوں کو فروخت کرتے رہیں۔ آپ کو مفت میں ایک پرچہ ملتا رہے گا۔ اور اگر کچھ پرچے فروخت نہ ہو سکیں تو آپ کبھی بھی ان کو پوری قیمت پر واپس کر سکتے ہیں ۔حتیٰ کہ اگر ایک شخص ایجنسی نہ لینا چاہے تب بھی وہ مفت پڑھ سکتا ہے۔ اور اس کی صورت یہ ہے کہ وہ ایک بار سالانہ چنده ( 48 روپئے) جمع کر دے اس کے بعد ہر ماہ کے پرچے صاف ستھری حالت میں اکھٹا کرتا رہے ۔ یہاں تک کہ جب بارہ پرچے ہو جائیں تو وہ ان پرچوں کو دفتر میں واپس بھیج دے۔ اس کی بنیاد پر اس کو اگلے سال کے لیے رسالہ جاری کر دیا جائے گا۔ اسی طرح ہر سال وہ 12 پرچے واپس کر کے دوبارہ خرید ار بنتا رہے۔ اورآخر میں اگر چاہے تو پرچے واپس کر کے اپنی پوری رقم وصول کرلے۔
ایک صاحب نے کہا کہ آپ نے فلاں "تنقید " دیکھی ہے جو آپ کے خلاف شائع ہوئی ہے۔میں نے کہا کہ وہ تنقید نہیں، استہزاء ہے۔ تنقید وہ ہے جس میں علمی تجزیہ ہو۔ اس میں کوئی علمی تجزیہ نہیں اس میں تو صرف لفظی مذاق اڑایا گیا ہے۔
میں نے کہا کہ استہزاء کرنا یا مذاق اڑانا ہمیشہ غیر سنجیدہ لوگوں کا شیوہ رہا ہے۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ پچھلے زمانوں میں جو پیغمبر آئے ، ان سب کا مذاق اڑایا جاتا رہا۔ چنانچہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے کہ وَلَقَدِ اسْتُهْزِئَ بِرُسُلٍ مِّنْ قَبْلِك ( الانعام:10) دوسری جگہ فرمایا گیا ہے يٰحَسْرَةً عَلَي الْعِبَادِ ڱ مَا يَاْتِيْهِمْ مِّنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا كَانُوْا بِهٖ يَسْتَهْزِءُوْنَ (یٰس:30)
پھر میں نے کہا کہ استہزاء کا میدان اتنا وسیع ہے کہ کسی بھی شخص کا مذاق اڑایا جاسکتا ہے ، خواہ بذات خود وہ کتنا ہی صحیح کیوں نہ ہو ۔ استہزاء کرنے کے لیے زیرِ استہزا ء شخص کے اندر نقص کا ہونا ضروری نہیں ۔ استہزاء کرنے والے کے اپنے اندر غیر سنجیدگی اور اللہ سے بے خوفی ہونا کافی ہے ۔ اگر یہ سرمایہ کسی کےپاس ہو تو وہ پیغمبروں تک کا حتی ٰکہ خدا کا بھی مذاق اڑ اسکتا ہے ، جیسا کہ موجودہ زمانے کے ملحدین کر رہے ہیں۔
ایک صاحب نے کہا کہ میں الرسالہ پابندی کے ساتھ پڑھتا ہوں مگر ہندستانی مسلمانوں کے مسائل کے بارے میں آپ کا جو نقطۂ نظر ہے اس سے مجھے سخت اختلاف ہے۔ مزید دریافت کرنے پر انھوں نے کہاکہ "الرسالہ مسلمانوں کو بزدل بنا رہا ہے" ۔
جن صاحب نے یہ بات کہی ، ان سے میں نے پوچھا کہ آپ اپنے بیان کے مطابق الرسالہ برابر پڑھ رہے ہیں تو کیا آپ بزدل ہو گئے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ نہیں ، میں تو بزدل نہیں ہوا۔ پھر میں نے پوچھا کہ آپ کے اس علاقے میں الرسالہ پڑھنے والے سیکڑوں افراد موجود ہیں ، کیا آپ ان میں سے کچھ لوگوں کو جانتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ہاں ، میں بہت سے لوگوں کو جانتا ہوں جو برابر الرسالہ پڑھتے ہیں ۔میں نے کہا کہ کیا آپ ان بہت سے قارئین میں سے کسی ایک شخص کا نام بتا سکتے ہیں جو الرسالہ پڑھ کر بزدل ہو گیا ہو۔ میرے اس سوال پر وہ خاموش ہو کر سوچنے لگے ۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے میرے اس سوال کے بعد ان کا پور ا قلعہ دھڑام سے گر گیا ہو ۔ ان کا چہرہ بتا رہا تھا کہ الرسالہ کے بارے میں وہ جس واقعہ کی خبر مجھے دے رہے تھے ، اس سے وہ خود بھی متعین طور پر باخبر نہ تھے۔ میں نے بار بار ان سے پوچھا کہ آپ کسی ایک ایسے شخص کا نام بتائیں جو الرسالہ کو پڑھ کر بزدل ہو گیا ہو، مگر ایسا کوئی نام بتانے سے وہ عاجز رہے ۔ انھوں نے نہ اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور نہ الرسالہ کے کسی بزدل قاری کا نام بتایا۔
پھر میں نے کہا کہ الرسالہ بزدلی نہیں سکھاتا ، الرسالہ حکمت سکھاتا ہے ۔ بزدل در اصل وہ لوگ ہیں جو الرسالہ پر جھوٹی تنقید یں کرتے ہیں۔ یہ لوگ الرسالہ کی اصل بات کو رد کرنے کی طاقت نہیں رکھتے ، اس لیے بزدلانہ طور پر یہ کرتے ہیں کہ الرسالہ کی طرف ایک خلافِ واقعہ بات منسوب کرتے ہیں اور پھر اس خلاف واقعہ بات پر تنقید کر کے خوش ہوتے ہیں کہ انھوں نے الرسالہ کی تردید کردی ۔ حالاں کہ یہ خوداپنی بات کی تردید ہوتی ہے نہ کہ الرسالہ کی بات کی تردید ۔
الرسالہ کے مخالف حضرات کا یہ حال ہے کہ وہ ہمارے لیے جائز تنقید کو بھی نا جائز بتاتے ہیں اور خود اپنے لیے ناجائز تشویہ کو جائز قرار دیے ہوئے ہیں۔ اس کی ایک عجیب مثال اس دوران سامنے آئی۔
ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ وہ ایک مشہور عربی مدرسہ میں آخری درجہ کے طالب علم ہیں۔انھوں نے الرسالہ کے اس مضمون کا ذکر کیا جو "تشو یہِ حقائق " کے عنوان سے جنوری 1988 میں شائع ہوا تھا۔ انھوں نے کہا کہ آپ نے عربی جریدہ کے جس مطبوعہ مضمون پر تنقید کی ہے وہ خود جریدہ کے ایڈیٹر کانہیں تھا۔ وہ تو انھوں نے دوسرے پرچہ سے نقل کیا تھا ، اور آپ جانتے ہیں کہ نقل ِکفر کفر نباشد ۔
میں نے کہا کہ آپ نے ادھوری بات کہی ۔ نقل کفر اس وقت کفر نہیں ہے جب کہ وہ تردید کے لیے نقل کیا جائے ۔ جو نقل کفر تصدیق کے ہم معنیٰ ہو وہ یقیناًکفر ہے ۔ انھوں نے کہا ، مگر مذکورہ جریدہ نے اس کی تصدیق نہیں کی۔ اس نے تو اپنی تصدیق شامل کیے بغیر اس کو جوں کا توں شائع کر دیا تھا۔ میں نے کہا کہ ایک غلط بات کو تردید کے بغیر شائع کرنا بالواسطہ طور پر اس کی تصدیق کرنا ہے۔
پھر میں نے کہا کہ اس معاملے میں شریعت کی واضح ہدایت موجود ہے ، اور جس معاملہ میں شریعت کی ہدایت موجود ہو اس میں ذاتی منطق لگا نا ایمان کے منافی ( الاحزاب :36) ہے۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس طرح ، اذاعتِ خبر کو قرآن میں اتباع شیطان (النساء:83 ) کہا گیا ہے۔ سورہ نساء کی اس آیت کے تحت حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ :
اس میں ان لوگوں کے خلاف انکار ہے جو معاملات کی طرف بغیر اس کی تحقیق کیے ہوئے دوڑتےہیں۔ وہ اس کو پھیلاتے ہیں اور اس کو نشر کرتے ہیں ، حالاں کہ یہ ممکن ہے کہ وہ خبر خود صحیح نہ ہو۔ اور امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث نقل کی ہے کہ کسی آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات کو بیان کرنے لگے۔ اور حدیث میں آیا ہے کہ جو شخص ایک بات بیان کرے اور وہ جانتا ہو کہ یہ جھوٹی بات ہے تو ایسا شخص دو کا ذبوں میں سے ایک ہے (تفسیر ابن کثیر، الجزءالاول ، صفحہ 30 – 529)
حقیقت یہ ہے کہ اسلام کے نزدیک ایسی خبر کو بلا تحقیق پھیلانا شیطان کی پیروی کرنا ہے ، اور اگر آدمی خبر کو جھوٹ جانتے ہوئے اسے پھیلائے تو وہ خود بھی اسی کذب بیانی کا مرتکب ہو رہا ہےجس کا ارتکاب اس شخص نے کیا تھا جس نے ابتداءً اس جھوٹ کو گھڑ ا تھا۔
9 اپریل کو ایوارڈ اور انعامات کی تقسیم کی تقریب جَن منچ (گاندھی پارک) میں ہوئی۔ وہاں ڈائس پر مجھ سے ملی ہوئی کرسی پر ایک صاحب بیٹھے ہوئے تھے۔ ان کے سادہ لباس اور سادہ اندازسے میں سمجھ نہ سکا کہ یہ "وی آئی پی "طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ تعارف کے بعد معلوم ہوا کہ وہ مسٹر چند را ما ولی(K.Chandramouli ) ہیں جو سہارن پور کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ہیں۔ وہ مدر اس کے رہنے والے ہیں اور ان کی مادری زبان تمل ہے۔ مگر وہ نہایت صاف اردو بول رہے تھے۔ پوچھنے پر انھوں نے بتایاکہ وہ یوپی کیڈر سے تعلق رکھتے ہیں۔ اور لمبے عرصہ تک اردو کے علاقوں میں رہے ہیں۔
جب میری تقریر شروع ہوئی تو وہ اپنی کرسی پر نظر نہ آئے۔ میں نے سمجھا کہ شاید وہ کسی ضرورت سےواپس چلے گئے ہیں۔ مگر بعد کو ایک صاحب نے بتایا کہ جب آپ کی تقریر کا وقت آیا تو وہ ڈائس سے اتر کر نیچے آئے اور سامنے کی کرسی پر بیٹھ گئے تاکہ تقریر کو اچھی طرح سن سکیں ۔ انھوں نے مزید کہا کہ میں ڈی ایم سے متصل کر سی پر تھا۔ انھوں نے تقریر کے بارے میں نہایت اچھے تاثر کا اظہار کیا اور اس سےپورا اتفاق کیا ۔ مسٹر چند را ما ولی کو اسلامی مرکز کا انگریزی لٹریچر ڈاک سے روانہ کر دیا گیا ہے۔
مسٹر چندر اما ولی اور دوسرے ہند و صاحبان سے بات کرنے کے بعد میں نے سوچا کہ یہ حضرات اگر چہ اردو رسم خط میں لکھی ہوئی عبارت کو پڑھ نہیں سکتے مگر اردو زبان کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ ایسے لوگوں کوالرسالہ کا پیغام پہنچانے کے لیے دوشکلیں جاری کی جانی چاہئیں۔ ایک یہ کہ الرسالہ کے ہمدرد اس قسم کے لوگوں کو الرسالہ کے مضامین پڑھ کر سنائیں۔ دوسرا طریقہ کیسٹ کا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ مرکز سے کیسٹ فراہم کیے جائیں۔ ہمارے احباب بطور خود ایسا کر سکتے ہیں کہ وہ الرسالہ کے منتخب مضامین کو کیسٹ پر ریکارڈ کر لیں اور اس کے ذریعہ ان لوگوں تک الرسالہ کا پیغام پہنچائیں جو اردو کو پڑھ نہیں سکتےمگر سن کر اس کو بخوبی سمجھ سکتے ہیں۔ یہ سلسلہ اگر بڑے پیمانے پر شروع ہو جائے تو وہ ان شاء اللہ ایک نئے انقلاب کے ہم معنیٰ ہوگا۔
سہارن پور میں میری تقریر کا موضوع قومی ایکتا (National integration) تھا۔ میں نے اپنی تقریر میں ہالینڈ کا وہ واقعہ بیان کیا جو راستہ میں پروفیسر اگوانی نے بتایا تھا۔ میں نے کہا کہ قومی ایکتا قائم کرنے کا طریقہ یہی رواداری ہے جس کی ایک مثال مذکورہ واقعہ میں ملتی ہے ۔ اسلام اس رو اداری کو آخری حد تک قائم رکھنا چاہتا ہے۔ ہالینڈ کے پروٹسٹنٹ پروفیسر نے کھانے کی میز پر ایک کیتھولک کو اپنی دُعائیہ رسم ادا کرنے کی اجازت دی۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملے میں یہاں تک گئے کہ آپ کے زمانے میں نجران کے عیسائیوں کا وفد مدینہ آیا ۔ روایات میں آتا ہے کہ اس دوران ان کی عبادت کا وقت آگیا تو آپ نے انھیں اجازت دے دی کہ وہ مسجد نبوی میں اپنی عبادت کر لیں۔ چنانچہ انھوں نے مسجد نبوی کے صحن میں اپنے عقیدہ کے مطابق عبادت کے مراسم ادا کیے (سیرۃ ابن کثیر، رابع، صفحہ 108)
عام طور پر یہ بات کہی جاتی ہے کہ اس وقت ہندستان کا مسئلہ نمبر ایک نیشنل انٹگریشن ہے۔ اس سے مجھے اصو لاً اتفاق ہے۔ مگر اس کے لیے جو تدبیر بتائی جاتی ہے اس کو میں اصل مقصد کے لیے بالکل بے فائدہ سمجھتا ہوں ۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ نیشنل انٹگریشن حاصل کرنے کے لیے ہمیں کلچرل انٹگریشن لانا ہوگا ۔ یعنی مختلف فرقوں کی تہذیبی شناخت کو ختم کر کے ایک مشترک کلچر بنا یا جائے اور سب کو اسی ایک کلچر کا پابند کیا جائے۔ میں نے اپنی تقریر میں مختلف مثالیں دے کر بتایا کہ تہذیبی شناخت کسی بھی درجہ میں ایکتا اور یکجہتی میں مانع نہیں ہے۔ کسی ملک میں یکجہتی اس طرح آتی ہے کہ لوگوں کے اندر رو ادا را نہ سوچ پیدا کی جائے۔تہذیبی فرق کومٹا کر یکجہتی پیدا نہیں کی جاسکتی۔
اس معاملے میں اصل اہمیت ذہن کی ہے نہ کہ ظاہری آداب ورسوم کی ۔ اور وہ ذہن یہ ہے کہ لوگوں کے اندر احترامِ انسانیت کا مزاج پیدا کیا جائے ۔ اس مقصد کے لیے ہمیں فرق کی شکل کو نہیں مٹانا ہے بلکہ فرق کی سوچ کو مٹانا ہے۔ ظاہر والے فرق کو ختم کرنا نہیں ہے بلکہ دل والے فرق کو ختم کرنا ہے۔ ہمیں لوگوں کے اندر یہ سوچ ابھارنا ہے کہ وہ مذہب کے فرق کو اخلاق کا فرق نہ بنائیں۔ خلاصہ یہ کہ ایک کیتھولک کیتھولک رہتے ہوئے پروٹسٹنٹ کی عزت کرے ، اور اسی طرح ایک پروٹسٹنٹ ، پروٹسٹنٹ رہتے ہوئے کیتھولک کی عزت کرے۔ یہی ایکتا اور یکجہتی پیدا کرنے کا واحد طریقہ ہے ۔ اس کے سوا اس مقصد کوحاصل کرنے کا کوئی اور ممکن طریقہ نہیں ۔
یہ تقریر مزید اضافہ کے ساتھ مرتب کر لی گئی ہے۔ ان شاء اللہ اس کو الرسالہ میں شائع کر دیاجائے گا۔ زیر عنوان " بھارت کی تعمیر "۔
سہارن پور کے خطاب اور گفتگوؤں میں میں نے لوگوں کے سامنے یہی نقطہ ٔنظر پیش کیا۔ اجتماع میں ہندو، مسلم ، سکھ، عیسائی سبھی موجود تھے۔ میری معلومات کے مطابق ، ہر ایک نے اس نقطہ ٔنظر کو پسند کیا۔ تقریر کے بعد ڈاکٹر تشہیر احمد صاحب میرے پاس آئے ۔ انھوں نے کہا کہ کئی ہندوؤں نے مجھ کو یہ کہلا کر بھیجا ہے کہ میں آپ کو مبارک باد دوں اور یہ پیغام پہنچاؤں کہ آپ کی بات انھیں خوب سمجھ میں آئی۔ وہ اس سے پوری طرح اتفاق کرتے ہیں کہ ایکتا پیدا کرنے کے لیے ذہن کو بدلنے کی ضرورت ہے نہ کہ کلچرل پہچانوں کو مٹانے کی ۔ مجھ سے براہ راست بھی کئی غیر مسلم صاحبان نے اسی قسم کے تاثرات کا اظہار کیا۔
بعض فرقہ پرست ہندو لیڈر یہ کہتے ہیں کہ قومی ایکتا پیدا کرنے کا راز بھارتیہ کرن (انڈینا ئزیشن) ہے۔ یعنی تمام لوگوں کا زبان اور مذہبی شعار ایک ہو جائے ، آپس میں شادی بیاہ ہوں، وغیرہ وغیرہ ۔ اس پر مسلم قائدین سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہیں اور "اسلام خطرہ "میں کی گھنٹی بجا کرزور وشور کے ساتھ تحفظ شریعت کی مہم چلانے لگتے ہیں۔ یہ طریقہ غیر مفید بھی ہے اور اصل مسئلہ کو شدید تر کرنے والا بھی۔ میرے نزدیک صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہم یہ کہیں کہ قومی ایکتا بجائے خود ایک ضروری چیز ہے ۔ مگر اس کو حاصل کرنے کا طریقہ کلچرل شناختوں کو مٹانا نہیں بلکہ عدم رواداری کے ذہن کو مٹانا ہے۔ مسلم قائدین کے مذکورہ طریقہ میں آدمی صرف منفی رد عمل پیش کرنے والے کے روپ میں سامنے آتا ہے اور دوسری صورت میں وہ رہنمائی دینے والا بن جاتا ہے۔ پہلی صورت میں آدمی صرف دفاعی پوزیشن میں رہتا ہے ، مگر دوسرا طریقہ اختیار کر نے کے بعد وہ اقدامی پوزیشن میں آجاتا ہے ۔ اور دفاعی پوزیشن کے مقابلےمیں اقدامی پوزیشن بلاشبہ زیادہ طاقت ور ہے۔
موجودہ زمانے کے نام نہاد مسلم لیڈروں نے تقریباً ہر معاملے میں ایسا ہی کیا ہے۔ انھوں نے خدا کے دین کو عملاً تحفظ کا دین بنا دیا جب کہ با عتبار ِحقیقت وہ اقدام کا دین تھا۔
واپسی کا سفر شاملی کے راستےسے ہو ا شاملی ایک تاریخی قصبہ ہے جو سہارن پور اور دہلی کے تقریباً وسط میں واقع ہے۔ 1858 کے ہنگامہ میں علماء کی ایک جماعت نے شاملی میں انگریزی فوج پر حملہ کیا تھاجس میں انھیں یک طرفہ طور پر شکست ہوئی۔
شاملی کے اس "جہاد" کی تفصیلات مولانا مناظر احسن گیلانی نے اپنی کتاب سوانح قاسمی (مطبوعہ 1373 ھ) میں درج کی ہیں ۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ شاملی میں انگریزوں کی ایک گڑھی (چھوٹا قلعہ) تھا۔ تھانہ بھون کے علماء اور ان کے شاگردوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ وہ تھانہ بھون اور شاملی سے جہاد کرتے ہوئے دہلی کی طرف بڑھیں۔ اور پھر دہلی کو انگریزی اقتدار سے آزاد کرائیں "۔ یہ اقدام در حقیقت پایۂ تخت دلی تک پہنچنے کے لیے کیا گیا تھا۔ "مولانا طیب کے الفاظ میں "سرفروشان دین اپنے سروں کو ہتھیلیوں پر لے کر ایک منظم طاقت سے ٹکرانے کے لیے اپنے گھروں سے نکل کھڑے ہوئے اور تھا نہ بھون سے شاملی کی طرف مارچ شروع کیا جس کا نصب العین دہلی تھا "۔ اس فوج میں مولانا محمد قاسم نانوتوی ، مولانا رشید احمد گنگوہی ، مولاناحافظ محمد ضامن ، مولانا محمد منیر نانوتوی وغیرہ شریک تھے۔
یہ جتھا تحصیل شاملی پر چڑھ دوڑا۔ شاملی کے میدان میں ان کا مقابلہ انگریزی فوج سے ہوا۔ شاملی کی یہ گڑھی جس میں انگریزی فوج کے سپاہی تھے ایک ایسے کھلے میدان میں واقع تھی جس کے چاروں طرف کوئی ایسی جگہ نہ تھی جسے گڑھی کے باہر والے آڑ بنا سکتے ہوں مجاہدین کا گر وہ جو گڑھی کے باہر والے میدان میں پتنگوں کی طرح پھیلا ہوا تھا ان پر انگریزی فوج نے بندوقوں سے مسلسل فائرنگ شروع کر دی۔ خود انگریزی فوج دیوار کے پیچھے محفوظ تھی۔ مگر مجاہدوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہ تھی جہاں وہ اپنے آپ کو گولی سے بچائیں۔ انگریزی فوج تحصیل شاملی میں قلعہ بند ہو گئی اور ادھر سے مجاہدوں پر بندوقوں کی باڑھ مارنا شروع کیا جس سے سیکڑوں مجاہدین ہلاک ہوگئے۔ انگریزی فوج اپنے قلعہ میں محفوظ تھی اور مجاہدین ان کے سامنے کھلے میدان میں تھے۔ انگریزوں کا حملہ پوری طرح کارگر اور کامیاب تھا جب کہ مجاہدین کے حملےغیر مؤثر ہو کر رہ جاتے تھے ۔ اس یک طرفہ مار کی وجہ سے مجاہدین کا بے پناہ جانی و مالی نقصان ہوا۔
مجاہدین کا ایک دستہ تحصیل شاملی پر حملہ کرنے کے لیے تھانہ بھون سے روانہ کیا گیا تھا۔ اس دستہ کے امیر الجیش مولانا حافظ محمد ضامن صاحب تھے ۔ جب یہ لوگ گڑھی کے قریب پہنچے تو انگریزی فوج کے ایک سپاہی نے فصیل سے نشان لے کر ان پر گولی چلائی اور بقول مولانا طیب "گولی ناف پر پڑی " جس کے نتیجے میں وہ ہلاک ہو گئے۔ اس خبر یعنی حافظ ضامن صاحب کی شہادت کی خبر نے مجاہدوں کی کمر توڑ دی اور وہ امید جو مجاہدوں کی مشعل راہ تھی ٹوٹ گئی جس سے قلوب میں سرد مہری کی کیفیت پیدا ہوگئی ۔ ادھرحافظ ضامن صاحب کی شہادت ہوئی اور ادھر دہلی سے خبر آئی کہ بادشاہ دلّی ( ظفر شاہ ) گرفتار ہو گئے اور دلّی پر انگریزوں کا قبضہ ہو گیا (جلد دوم ، صفحہ 170 – 135)
موجودہ زمانے کے مسلم قائدین جہاد کےنام پر جو اقدامات کر رہے ہیں، اگر یہی وہ چیز ہو جس کو شریعت میں اسلامی جہاد کہا گیا ہے تو زبان و ادب کے ماہرین کو ایک نئی لغت تیار کرنا ہو گا جس میں مقدّس اسلامی جہاد اور نادانی کی چھلانگ دونوں کو ہم معنیٰ الفاظ کے طور پر درج کیا گیا ہو۔
10 اپریل 1988 کی صبح کو 7 بجے ہم لوگ سہارن پور سے واپس روانہ ہوئے اور تین گھنٹہ کا سفر بذریعۂ روڈ طے کر کے دوبارہ دہلی واپس آگئے۔