خبر نامہ اسلامی مرکز - 41
1۔الرسالہ اور اسلامی مرکز کے حلقہ کی جانب سے بار بار یہ تقاضا سامنے آرہا ہے کہ اسلامی مرکز کا کل ہند اجتماع کیا جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں اطلاع دی جاتی ہے کہ ان شاء اللہ 1988 کے آخر میں اسلامی مرکز کا کل ہند اجتماع ہو گا ۔ مقام اور تاریخ کا قطعی اعلان بعد کو کیا جائے گا۔
2۔ نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا کے تحت لندن میں کتابوں کی بین اقوامی نمائش( International Book Fair ) ہوئی۔ یہ نمائش28- 30 مارچ 1988 کو تھی۔اس نمائش میں ہندستان کی منتخب مطبوعات رکھی گئی تھیں۔ ان منتخب کتابوں میں اسلامی مرکز کی کتاب مذہب اور جدید چیلنج بھی شامل تھی ۔ اس کا ذکر نیشنل بک ٹرسٹ کی رپورٹ میں صفحہ 45 پر کیا گیا ہے اس نمائش میں ہندی ، بنگالی، انگریزی، پنجابی، اردو کتابیں رکھی گئی تھیں ۔
3۔سہارن پور میں 9 اپریل 1988 کو ایک مشترکہ جلسہ ہوا جس میں صدر اسلامی مرکز نے خطاب کیا۔ خطاب کا موضوع تھا : "قومی ایکتا اور انسانی ترقی میں مذہب کا رول" اس موقع پر صدر اسلامی مرکز کو ایک خصوصی ایوارڈ پیش کیا گیا ۔ اس پروگرام کی تفصیل ان شاء اللہ سفر نامہ میں شائع کر دی جائے گی ۔
4۔غالب اکیڈمی (نئی دہلی) میں 17 اپریل 1988 کی شام کو ایک عمومی اجتماع ہوا۔ پروفیسر ایم ۔ ایس اگوانی (وائس چانسلر جواہر لال نہرو یونیورسٹی )نے صدارت کے فرائض انجام دیے۔ صدر اسلامی مرکز نے اس موقع پر ایک مفصل تقریر کی جس کا عنوان یہ تھا : "اسلام دور جدید کا خالق"۔ تعلیم یافتہ اصحاب کا بڑا طبقہ شریک ہوا۔ شرکاء اجتماع میں جناب حکیم عبد الحمید صاحب، جناب بدر الدین طیب جی اور دوسرے معزز حضرات شامل تھے ۔ مسلمانوں کے علاوہ غیر مسلم حضرات بھی شریک ہوئے۔ لوگوں نے تقریر کو پسند کیا اور کہا کہ اس قسم کی تقریر کا سلسلہ ہر مہینہ جاری رہنا چا ہیے ۔ تجویز ہے کہ ہر "سکنڈ سٹرڈے" کو بعد نماز مغرب یہ سلسلہ ٔتقریر شروع کیا جائے ۔
5۔اسلامی مرکز کا ایک مستقل شعبہ کتابوں کی اشاعت ہے۔" عصری اسلوب میں اسلامی لٹریچر"کے لیے اب اسلامی مرکز ایک معروف نام بن چکا ہے ۔ اس کے تحت چھپنے والی تازہ کتا بیں حسب ِذیل ہیں : مذہب اور سائنس نامی کتاب کا انگریزی ترجمہ ، خاتون اسلام ، نیا ایڈیشن سو صفحات کے اضافے کے ساتھ ، میوات کا سفر نامہ ، بھارت کی تعمیر ۔
6۔ تذکیر القرآن پورے قرآن کی تفسیر دو جلدوں میں ہے ۔ اس کی اشاعت کے بعد ہم کو ایسے خطوط مل رہے ہیں جن میں تذکیر القرآن کے مطالعہ کے شدید شوق کا اظہار ہوتا ہے ۔ اسی کے ساتھ وہ لوگ لکھتے ہیں کہ ہم اپنی ناداری کی وجہ سے تذکیر القرآن کو قیمت دے کر خرید نہیں سکتے ۔ صاحب استطاعت حضرات سے ہماری اپیل ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی طرف سے قیمت ادا کر کے انھیں تذکیر القرآن فراہم کرنے میں تعاون فرمائیں ۔ تعاون کرنے والےاگر چاہیں گے تو انھیں مرسل الیہ کا نام و پتہ روانہ کر دیا جائے گا۔
7۔ عرصہ سے یہ تقاضا کیا جاتا رہا ہے کہ الرسالہ کا ہندی ایڈیشن نکالا جائے ۔ اب ایک عملی تجویز یہ سامنے آئی ہے کہ ہندی ترجمہ نہ کیا جائے بلکہ موجودہ الرسالہ ہی کو ہندی رسم خط (لیپی) میں منتقل کر کے ہر ماہ اسے شائع کیا جائے ۔ یعنی زبان اُردو الرسالہ ہی کی ہو۔ صرف رسم خط بدل دیا جا بدل دیا جائے۔ اس سلسلےمیں الرسالہ مشن کے ہمدرد حضرات اپنی رائے دیں۔ نیز یہ بھی لکھیں کہ مذکورہ صورت میں وہ بطور ایجنسی ہر ماہ کتنی تعداد منگانے کی ذمہ داری لے سکیں گے۔
8۔جموں وکشمیر کا ایک ادارہ (مسلم انسٹی ٹیوٹ آف ایجو کیشن ) جس کے تحت کئی اسکول چل رہے ہیں۔ اس نے اپنے پرائیویٹ اسکولوں کے نصاب میں اسلامی مرکز کی کچھ کتابیں داخل نصاب کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اس میں باغ جنت ، نار جہنم ، حیات طیبہ اور تذکیرالقرآن کاتیسواں پارہ شامل ہے ۔
9۔ مشاہدات اور رپورٹوں سے معلوم ہوتا ہے کہ الرسالہ کی بات تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے۔ گفتگو کرنے والے اپنی گفتگو میں اور تقریر کرنے والے اپنی تقریر میں اس کو دہرانے لگے ہیں ۔ بہت سے اخبار اور رسالے الرسالہ کی باتوں کو برابر نقل کر رہے ہیں، ان میں کچھ ایسے ہیں جو نام اور حوالہ کے ساتھ نقل کرتے ہیں۔ مگر زیادہ تر وہ ہیں جو نام اور حوالہ کے بغیر اس کو اپنی بات کے طور پر شائع کرتے ہیں۔ ان پھیلانے والوں میں ہمارے مخالفین ہیں ۔ الرسالہ کا پیغام الرسالہ کے ذریعہ جتنا پھیل رہا ہے ، اس سے زیادہ دوسرے اس کو پھیلا رہے ہیں۔ کچھ احباب اگر براہ راست طور پر الرسالہ کی ایجنسی چلاتے ہیں تو دوسرے بہت سے وہ لوگ ہیں جو بالواسطہ طور پر الرسالہ کی ایجنسی کا کام کر رہے ہیں ۔
10۔ایک صاحب اپنے خط مؤرخہ (12 مارچ 1988) میں لکھتے ہیں : دو تین سال سے الرسالہ کا قاری ہوں ۔ میں نے جب اسے پہلی بار پڑھا تو دیوانہ وار کئی بار پڑھا اور اسی وقت ٹھان لیا کہ میں الرسالہ کو اپنی زندگی میں شامل کروں گا ۔ اس میں ایسی باتیں پڑھنے کو ملتی ہیں کہ اگر کم ہمتی اور بے دلی اور مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہوں تو عجب نہیں کہ صاحب مطالعہ تجدید زندگی کرے ۔ جس کی کشتی بھنور میں ہو اس کے لیے الرسالہ نا خدا سے کم نہیں ۔ نوجوانوں کے لیے اس کا مطالعہ مشعل راہ ہے ۔ آدمی اس کو دوبارہ پڑھے بغیر نہیں رہ سکتا۔اور ہر مرتبہ اس کا اثر دوبالا ہو جاتا ہے۔ (محمد عبد المجید ، بھینسا)
11۔ایک صاحب لکھتے ہیں : الرسالہ ہر دین سے لگاؤ رکھنے والے کی ربّانی اور روحانی ضرورت بن گیا ہے۔ اس کا ہر صفحہ قرآن و حدیث سے اخذ شدہ ہوتا ہے ۔ آپ پر جو تنقید کبھی کبھی نظر سے گزرتی ہے وہ صرف تنقید برائے نفسانیت ہوتی ہے یا حقیقت سے انکار کی احمقانہ جرأت۔ میں آپ کے پیغمبرانہ مشن پر اپنے آپ کو لگانے پر رضامند ہوں ۔ کچھ حضرات کے نام الرسالہ جاری کروانے کا ارادہ ہے ۔ یہاں امام صاحب الرسالہ سے پوری طرح متفق ہیں۔ ہر جمعہ کو تقریر کرتے ہیں ۔ الرسالہ سے ان کی تقریروں میں ایک نیا رنگ پیدا ہو گیاہے جو پہلے نہ تھا (مشتاق احمد ،شیو گنج )
12۔الرسالہ خدا کے فضل سے بے شمار لوگوں کے لیے نئی زندگی کا باعث بن رہا ہے۔ اس کا اندازہ بار بار مختلف شکلوں میں ہوتا ہے ۔ 16 مئی 1988 کو ایک صاحب نے ٹیلی فون پر بتایا کہ بعض اسباب کے نتیجے میں میں سخت مایوسی کا شکار تھا۔ عین اس وقت الرسالہ اپریل 1988 ملا۔ اس کے صفحہ 7 پر" چیلنج نہ کہ ظلم "کو پڑھا تو آنکھ کھل گئی اور اچانک میں نے محسوس کیا کہ میرے اندر نئی طاقت آگئی ہے ۔