مسلمانوں کا مسئلہ

15 مئی 1983  کو میں مراد آباد میں تھا۔ وہاں میری دو تقریریں ہوئیں ۔ ایک کا موضوع تھا، دینی تقاضے ۔ اور دوسری کا موضوع تھا ، تعمیر ملت ۔ تعمیر ملت کے موضوع پر جب تقریر ختم ہوئی تو ایک صاحب اٹھے جو نہایت سنجیدہ اور پڑھے لکھے آدمی معلوم ہوتےتھے۔ انھوں نے دو سوالات کیے۔

پہلا یہ کہ آپ نے تعمیر ملت کے موضوع پر جو کچھ کہا ہے وہ سب اسباب کی باتیں ہیں مگر مراد آباد کا تجربہ اس سے مختلف ہے۔ مراد آباد کے فساد (1980) کے آخری مرحلے میں مسلمان اس طرح گِھر گئے کہ ان کے سامنے کوئی راستہ باقی نہ رہا۔ انھوں نے سوچا کہ اب اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ دعا کی جائے۔ چنانچہ مسلمانوں نے مل کر دعا کی اور اس کے بعد اچانک صورت حال بدل گئی اور شہر میں امن قائم ہو گیا ۔ دوسرا سوال یہ کہ اگر سارا معاملہ اسباب کا ہے تو اس میں مسلمان اور غیر مسلمان سب برابر ہیں، پھر مسلمان کا وہ امتیاز کیا ہے جوخیرِ امت کی حیثیت سے انھیں دیا گیا ہے۔

پہلے سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ میں نے جو بات کہی اس کا تعلق قانونِ عام (الرعد: 11 ) سے ہے اور آپ نے جو بات کہی اس کا تعلق قانونِ اضطرار (النمل: 62 ) سے۔ اس میں شک نہیں کہ کوئی شخص یا کوئی گروہ جب ایسے حالات میں گھر جائے جہاں بظاہر اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو   اور وہ  دل سے خدا کو پکارے تو خدا اس کی مدد کرتا ہے۔( یونس: 23 - 22 ) مگر جیسا کہ قرآن میں صراحت ہے ، حالت اضطرار میں مدد کا تعلق ہر ایک سے ہے، خواہ وہ مسلمان ہو یا غیرمسلمان۔ کسی اضطراری واقعے سے عمومی قانون اخذ نہیں کیا جا سکتا۔

میں نے جو بات کہی وہ فسادسے پہلے کی ہے۔ اور آپ جو بات کہہ رہے ہیں وہ فساد کے بعد کی ہے۔ فساد کے بعد جب ہنگامی حالت پیدا ہو چکی ہو، اس وقت کیا کرنا ہے، یہ ایک الگ مسئلہ ہے۔ مگر فساد ہونے سے پہلے حالات کو معتدل رکھنے کے لیے کیا کیا جائے، یہ بالکل مختلف مسئلہ ہے۔

مسلمانوں نے موجودہ زمانے میں برداشت کو کھو دیا ہے۔ وہ ذرا سی بات پر بھڑک اٹھتے ہیں۔ یہی عدمِ برداشت کا مزاج تمام فسادات کا اصل سبب ہے۔ جب تک کہ اس مزاج کو دور نہ کیا جائے ، کسی بھی دوسری تدبیر سے فسادات کو ختم نہیں کیاجا سکتا۔   مسلمان پچھلے 25  سال سے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کو اقلیتی کردار دینے کی لڑائی لڑ رہے تھے ۔ یہ لڑائی حکومت اور حکمراں پارٹی سے تھی۔ بالآخر 1982 میں ان کو نئے ایکٹ کے تحت ان کو  اقلیتی کردار دے دیا گیا۔ مگر مسلمانوں پارٹی کی لڑائی بدستور جاری ہے۔ فرق یہ ہے کہ پہلے اس لڑائی کا نشانہ نئی دہلی تھا ، اب اس لڑائی کا نشانہ خود ان کا مسلمان وائس چانسلر ہے۔

اس سے پہلے ہندستان کے بیشتر مسلمانوں نے تقسیم ِملک کی مانگ کی۔ اس مانگ کے لیے ان کی سب سے بڑی دلیل یہ تھی کہ مشترک ہندستان میں ملک کا اکثریتی فرقہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے۔ اس مطالبہ کے مطابق ان کو پاکستان دے دیا گیا۔ مگر ان کے شکایتی ذہن نے اپنی شکایت کے لیے نیا نشانہ تلاش کر لیا۔ اب مشرقی پاکستان کو یہ شکایت ہوگئی کہ مغربی پاکستان اس کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہے۔ دوبارہ خود اپنے درمیان ایک بھیانک لڑائی ہوئی جو اس پر ختم ہوئی کہ مشرقی پاکستان نے مغربی پاکستان سے علاحدگی اختیار کرلی۔ تاہم 1983  کے واقعات بتاتے ہیں کہ اصل مسئلہ بدستور باقی ہے۔ اب سندھ کے مسلمانوں کو پنجاب کے مسلمانوں سے شکایت ہے کہ وہ ان کے ساتھ امتیازی سلوک کرتے ہیں۔ یہ لڑائی جاری ہے اور کچھ نہیں معلوم کہ وہ کہاں جا کر ختم ہوگی۔

 حقیقت یہ ہے کہ ہندستان کے مسلمانوں کا اصل مسئلہ ہر بات میں ان کا بے برداشت ہو جانا ہے۔ جب تک وہ اپنے اس مزاج کو ختم نہ کریں ، ان کے لیے زمین تنگ رہے گی، خواہ وہ ایک ملک کا معاملہ ہو یا د وسرے ملک کا۔

 دوسرے سوال کے جواب میں میں نے کہا کہ مسلمان اپنے تقرّر کے اعتبار سے بلا شبہ خیرِامت ہیں اور اس حیثیت سے ان کے ساتھ خدا کا ایک امتیازی معاملہ ہے۔ خدا نے مسلمانوں کے لیے اپنی ایک خصوصی مدد مقدر کی ہے جو اس نے دوسروں کے لیے مقدّر نہیں کی ۔ مگر اس خصوصی مدد کا استحقاق خیر امت کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری انجام دینے پر ہے نہ کہ صرف کسی مسلم نسل  سےمتعلق ہونے کی بنا پر۔

یہ ذمہ داری دعوت و تبلیغ کی ذمہ داری ہے۔ دعوت و تبلیغ سے مراد مسلمانوں کےدر میان اصلاحی کام نہیں ہے۔ بلکہ غیر مسلموں تک خدا کا سچا دین پہنچانا ہے۔ مسلمانوں کی اصلاح بھی ایک کرنے کا کام ہے اور اس کو ضرور کیا جانا چاہیے۔ مگر

 غیر مسلموں کے مقابلےمیں مسلمانوں کی مدد کا وعدہ کبھی بھی مسلمانوں کے درمیان اصلاحی کام کرنے سے پورا نہیں ہو سکتا۔ یہ وعدہ صرف اس وقت پورا ہو گا جب کہ غیر مسلموں کے درمیان دعوت الی اللہ کا کام کیا جائے اور اس کو اس کے تمام آداب و شرائط کے ساتھ انجام دیتے ہوئے اتمامِ حجت کی حد تک پہنچایا جائے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom