حقیقت پسند بنئے
موجودہ زمانے کے مسلمانوں کی سب سے بڑی کمزوری ان کی منفی ذہنیت ہے۔ وہ دنیا کی تمام قوموں کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ وہ غیر اقوام کی تمام کاروائیوں کو اس نظر سے دیکھتے ہیں کہ وہ ان کے خلاف دشمنی کی بنا پر کی گئی ہیں۔ اس منفی ذہن نے ان کی پوری سوچ کو غیر حقیقت پسندانہ بنا دیا ہے۔ آپ درخت کے نیچے ہیں اور اوپر سے بچا ہوا پھل آپ کے سر پر گر پڑتا ہے ، اب اگر آپ یہ سوچیں کہ درخت نے آپ کی ضد میں آپ کے سرپر اپنا پھل گرایا ہے تو کبھی آپ معاملہ کا صحیح حل تلاش کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے ۔
مثال کے طور پر امریکا فلسطینی مسلمانوں کے مقابلے میں اسرائیلی یہودیوں کا ساتھ دیتا ہے ۔ تمام دنیا کے مسلمان اس کا مطلب یہ لیتے ہیں کہ امریکا مسلمانوں کا دشمن ہے اور اس دشمنی کی وجہ سے وہ مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن کا ساتھ دے رہا ہے ۔ مگر اصل یہ ہے کہ یہ دنیا مفادات کی دنیا ہے۔ امریکہ اس لیے اسرائیل کا ساتھ دیتا ہے کہ اس سے اس کا مفاد وابستہ ہے نہ کہ محض کسی کی ضد یادشمنی کی وجہ سے۔
اسرائیل کی مدد سے امریکہ دو طرفہ مفاد حاصل کر رہا ہے۔ ایک یہ ہے کہ اس طرح وہ تیل پیدا کرنے والے خلیجی ممالک کو مسلسل دباؤ کی حالت میں رکھے ہوئے ہے۔ اس صورت ِحال کی بنا پر یہ ممالک مجبور ہیں کہ وہ امریکہ سے امریکہ کی شرائط پر معاملہ کریں نہ کہ خود اپنی شرائط پر ۔
دوسرا فائدہ کاروباری فائدہ ہے ۔ موجودہ زمانے میں ترقی یافتہ ملکوں کا ایک نہایت محفوظ بزنس یہ ہے کہ وہ کمزور یا غیر ترقی یافتہ ممالک کو امداد کے نام پر قرض دیں اور اس پر ان سے سود وصول کریں۔ امداد کی رقم کی واپسی تو قسطوں میں ہوتی ہے مگر سود کی رقم ہر سال پوری کی پوری ادا کی جاتی ہے ۔ یہ قرضے ترقیاتی کاموں میں بھی دیے جاتے ہیں مگر ان کی سب سے بڑی مدجدید ہتھیاروں کی خریداری ہے۔ ترقیاتی قرضے تو دوسرے ملکوں سے بھی ملتے ہیں مگر جنگی ہتھیاروں کی تجارت امریکہ کی اجارہ داری ہے۔ اسرائیل اور عربوں میں مسلسل جنگ کی حالت امریکہ کو موقع دے رہی ہے کہ وہ اسرائیل کے ہاتھ قیمتی ہتھیار قرض کی بنیاد پر فراہم کرے اور اس پر اس سے بھاری سود وصول کرے ۔ چنانچہ ایک اقتصادی رپورٹ کے مطابق اسرائیل امریکی قرضوں پر سود کی جو رقم ادا کرتا ہے اس کی سالانہ مقدار 910 ملین ڈالر ہے۔ عرب ممالک امریکہ سے مہنگے داموں جو ہتھیار خریدتے ہیں ان کی مقدار اس کے علاوہ ہے۔