سوال وجواب

سوال

ماہ اکتوبر(2009) کا شمارہ نظر نواز ہوا۔ویسے تو آپ کی ہر تحریر مبنی بر حقیقت اور گہرے درد میں ڈوبی ہوتی ہے، لیکن مذکورہ شمارہ میں جو کچھ آپ نے مسئلہ فلسطین پر سپرد قرطاس کیا ہے، میں اس سے کُلی طورپر اتفاق کرتا ہوں۔ یہ حقیقت دراصل بہت لوگوں کے گوشہائے قلب و دماغ میں ہے، مگر اندیشۂ مخالفت، خوفِ بدنامی، اتہام والزام کا ڈر اظہار سے مانع ہے۔ مجھے دل کی گہرائیوں سے سلام کرنے کو جی چاہتا ہے آپ کے عزیمت بھرے اور شجاعتِ اظہار سے پُر قلم کو۔ ہوسکتا ہے بہت سے تنگ دماغوں اور مزاج ِ شریعت سے ناآشنا لوگوں کے لئے یہ بات ناقابلِ قبول بلکہ ایمان و اسلام کے منافی ہو، لیکن حقیقت یہی ہے کہ جو بات آپ نے رقم فرمائی ہے، وہ نصوص ثابتہ اور تاریخ سے واضح طور پر سمجھ میں آرہی ہے۔ قُدس اور فلسطین کا مسئلہ جو ساری امتِ اسلامیہ کے لیے سوہانِ روح بن چکا ہے، اس کی افزائش میں انا کا بہت دخل ہے۔ حقیقت پسندی سے کام لیتے ہوئے اگر سوچا جائے تو یہ بات صاف طورپر سمجھ میں آجاتی ہے۔ میری تو تمنا اور خواہش ہے کہ اس مسئلہ کو صرف الرسالہ تک ہی محدود نہ کردیا جائے بلکہ عالمی مسلم اور یہودی رہنماؤں کے سامنے اس بات کو پُرامن حل کے طورپر پیش کیا جائے۔ انٹرنیشنل لیول پر اس بات کو رکھا جائے، اور مسئلہ کے اس غیرمتشددانہ حل کو پیش کیا جائے تاکہ اہل عقل اس قندیل کی روشنی میں مستقبل کی راہوں کا تعین کرسکیں۔ امید کہ آپ اس بات کی طرف توجہ دیں گے۔ محترم، اس پورے مضمون میں ایک سوال میرے دل میں کھٹکتا رہاکہ آپ نے صفحہ نمبر 21 پر یہ بات رقم فرمائی ہے کہ— نزولِ قرآن کے وقت یہاں کوئی عمارت نہیں تھی، بلکہ صرف ہیکل کی خالی جگہ (site) تھی۔ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروق کے زمانہ میں 638 ء میں مسلمان یروشلم میں داخل ہوئے۔ حضرت عمر نے ہیکل کی جگہ پر کوئی عمارت تعمیر نہیں کی۔ بعد کو اموی دور میں خلیفہ عبد الملک بن مروان وفات 706 ء نے ہیکل کی جگہ 688ء میں موجودہ مسجد اقصیٰ تعمیر کی۔ مگر قرآن میں جہاں واقعہ اسراء کا تذکرہ ہے— من المسجد الحرام إلی المسجد الاقصیٰ (بنی إسرائیل:1)۔ وہاں مسجد اقصی کا صاف طورپر نام لیا گیا ہے۔ اورصحیح ترین روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد ِ اقصیٰ میں تمام انبیاء کی امامت فرمائی ہے اور بعض تاریخی روایات سے یہ بات بالکل صاف طورپر سمجھ میں آتی ہے کہ نزول قرآن کے وقت وہاں مسجد اقصیٰ موجود تھی۔ حافظ ابن کثیر نے اپنی تاریخ میں فتح بیت المقدس کے تحت حضرت عمر کے بارے میں ذکر کیا ہے ’’ودخل المسجد من الباب الذی دخل منہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (البدایۃ والنہایۃ 8/55) حافظ ابن عساکر دمشقی نے اپنی مشہور کتاب المستقصیٰ فی فضائل المسجد الاقصیٰ میں عہدفاروقی میں فتح بیت المقدس اور تعمیر وتوسیع مسجد اقصیٰ کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ نیز ابن کثیر نے المسجد الاقصیٰ کے تحت حضرت عمر کے بارے میں ذکر کیا ہے: ثم نقل التراب عن الصخرۃ فی طرف ردائہ(البدایۃ والنہایۃ 8/58)۔ حافظ ضیاء الدین مقدسی نے امام احمد کے واسطہ سے ایک لمبی تاریخی روایت ذکرکی ہے جس میں نزول قرآن کے وقت مسجد اقصیٰ کے وجود اور عہدفاروقی میں اس کی تعمیر وتوسیع صاف طورپر معلوم ہوتی ہے۔ براہِ کرم، اس شبہہ کا ازالہ اور اس کنفیوژن کو دور فرمائیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ (محمد ثناء اللہ قاسمی، محبوب نگر،آندھرا پردیش)

جواب

1 -مسجد اقصیٰ کے بارے میں مسلم تاریخوں میں جو بات کہی گئی ہے، وہ میرے علم میں ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی لکھی ہوئی تاریخی کتابوں کے علاوہ، جو دیگر تاریخی ریکارڈ ہے، وہ اِس سے مختلف ہے۔ ایسی حالت میں ہمارے لیے ایک ہی راستہ ہے، وہ یہ کہ دونوں میں سے ایک کے بیان کو اصل مانیں اور دوسرے بیان کی تاویل کریں۔ میں نے اِس معاملے میں، مسلم مورخین کے بیان کو تاویل کے خانے میں ڈالا ہے اور دوسرے تاریخی ریکارڈ کو اصل قرار دیا ہے۔ اِس کا سبب یہ ہے کہ ابن خلدون (وفات:1406 ء) سے پہلے، مسلم تاریخ نگاروں کے یہاں عام طورپر علمی ذوق کا رواج نہ تھا۔ وہ خالص تاریخی واقعات کے ساتھ مروّجہ قصہ کہانیوں کو بھی اس میں شامل کردیتے تھے۔ اِس لیے اُس زمانے میں لکھی ہوئی تاریخوں پر کلّی اعتبار نہیں کیا جاسکتا۔

2 -مسجد اقصی کے بارے میں جو بات میں نے لکھی ہے، وہ بظاہر عمومی تصور کے خلاف ہے، لیکن حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔ اِس رائے کی اصل دوسرے مسلم محققین کے یہاں بھی موجود ہے۔ مثال کے طورپر عبد اللہ بن احمد النسفی (وفات: 1310 ء) نے اپنی تفسیر ’’مدارک التنزیل‘‘ میں سورہ الاسراء کی آیت نمبر 1 کے تحت مسجد اقصی کی تشریح کرتے ہوئے لکھا ہے: ہو بیت المقدس، لأنہ لم یکن حینئذ وراء ہ مسجد (جلد 2، صفحہ 306) یعنی مسجد اقصی سے مراد بیت المقدس ہے، کیوں کہ اُس وقت وہاں کوئی مسجد موجود نہ تھی۔ واضح ہو کہ قرآن کی آیت میں مسجد حرام سے مراد مسجد ہے، لیکن مسجد اقصی سے مراد معروف مسجد نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد عبادت گاہ ہے، یعنی یہودی عبات گاہ جس کو ہیکلِ سلیمان(Solomon’s Temple) کہاجاتا ہے۔

محمد بن احمدالانصاری القرطبی (وفات: 1273 ء)نے اپنی تفسیر ’’الجامع لأحکام القرآن‘‘ میں سورہ آل عمران کی آیت نمبر 96 کے تحت مسجدِ اقصیٰ کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے: وأمّا المسجد الأقصیٰ، فبناہ سلیمان علیہ السلام، کما خرجہ النسائی بإسناد صحیح من حدیث عبد اللہ بن عمرو (جلد 4، صفحہ 173) یعنی جہاں تک مسجد اقصیٰ کا تعلق ہے، تو اس کو سلیمان علیہ السلام نے بنایا تھا، جیسا کہ النسائی نے صحیح اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔

قاضی محمد ثناء اللہ العثمانی (وفات: 1810 ء) نے اپنی تفسیر ’’التفسیر المظہری‘‘ میں سورہ الاسراء کی اِس آیت کے تحت مسجد اقصی کی تشریح میں یہ الفاظ لکھے ہیں: المسجد الأقصی، یعنی البیت المقدس سُمّی أقصی لبُعدہ من المسجد الحرام، ولم یکن حینئذ ورائہ مسجد (جلد 5، صفحہ 399) یعنی مسجد اقصی سے مراد بیت المقدس ہے۔ بیت المقدس کو مسجد اقصی کانام اِس لیے دیاگیا کہ وہ مکہ کی مسجد حرام سے دور یروشلم (فلسطین) میں واقع تھی۔

مولانا عبد الماجد دریابادی (وفات: 1977 ء) نے اپنی انگریزی تفسیر ’’تفسیر القرآن‘‘ میں سورہ الاسراء کی اِس آیت کی شرح کرتے ہوئے لکھا ہے کہ—یہاں لفظ مسجد سے مراد جگہ (site) ہے، نہ کہ مسجد کی کوئی عمارت:

Masjid: properly denotes the site, not the building of a mosque (Vol. 3, p. 2)

اِس معاملے کی مزید تفصیل الرسالہ کے شمارہ، دسمبر 2009 میں صفحہ 39-41 کے تحت دیکھی جاسکتی ہے۔

3 -آپ نے لکھا ہے کہ اِس مسئلے کو صرف الرسالہ تک محدود نہ کردیا جائے، بلکہ عالمی سطح کے مسلم اور یہودی رہنماؤں کے سامنے اِس بات کو ایک پر امن حل کے طورپر پیش کیا جائے، تاکہ اہلِ عقل اس کی روشنی میں مستقبل کی راہوں کا تعین کرسکیں۔

آپ کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ یہ کام بالفعل ہورہا ہے۔ 27-29 اکتوبر 2008 کو اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب (Tel Aviv) میں ایک انٹرنیشنل کانفرنس خاص اِسی موضوع پر ہوئی۔ اِس میں دنیا کے 50 ملکوں کے رہنما شریک ہوئے۔ اِن میں ریاست اسرائیل کے صدر مسٹر شمعون پیریز کے علاوہ اعلیٰ سطح کے یہودی، مسیحی اور مسلم رہنما موجود تھے۔ فلسطین کے عرب نمائندے بھی بڑی تعداد میں اِس کانفرنس میں شریک تھے۔ اِس کانفرنس کی دعوت پر راقم الحروف نے اپنے 6 ساتھیوں کے ہم راہ اِس میں شرکت کی، اور وہاں تقریر اور ڈسکشن کے ذریعے اپنا نقطۂ نظر لوگوں کے سامنے رکھا۔ اِس موقع پر شرکائِ کانفرنس کو قرآن کا انگریزی ترجمہ اور اسلامی لٹریچر دیاگیا۔ اس کے علاوہ، خاص اِسی موقع کے لیے انگریزی زبان میں 15 صفحات کا ایک پمفلٹ تیار کیا گیا تھا۔ اِس کا ٹائٹل یہ تھا:

How to Establish Peace in the Holy Land— Ten Point Program

یہ پمفلٹ بڑے پیمانے پر کانفرنس کے شرکاء اور مقامی لوگوں کو دیا گیا۔اِس پمفلٹ کو سی پی ایس کی ویب سائٹ (www.cpsglobal.org) پر دیکھا جاسکتا ہے۔

سوال

الحمد للہ میں ’’الرسالہ‘‘ کا مطالعہ گذشتہ دو سالوں سے کررہا ہوں۔ الرسالہ کے ہر مضمون سے نفع حاصل ہوتا ہے۔ اب میرے ساتھ یہ معاملہ ہوگیا ہے کہ نہ صرف میں خود الرسالہ پڑھتا ہوں، بلکہ اپنے دوستوں کو بھی پڑھنے کے لیے دیتاہوں، کیوں کہ الرسالہ میں اسلامی تعلیمات کو اس انداز میں بیان کیا جاتا ہے کہ وہ پڑھنے اور سننے والے کے مائنڈ کو ایڈریس کر ے۔ میرے ذہن میں کچھ سوالات تھے جومسلسل الرسالہ کا مطالعہ کرنے سے دور ہوگئے، لیکن دورانِ مطالعہ کئی بار ایسا محسوس ہوا کہ چند موضوع پر آپ کے افکار متضاد ہوتے ہیں مگر کبھی اس کے ذکر کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔ مگر گذشتہ دو ماہ (جنوری اور فروری 2009) کے الرسالہ میں ایک ہی موضوع پر دو مختلف آراء نے مجھے مجبور کیا کہ اِس طرف آپ کی توجہ مبذول کروں۔جنوری اور فروری 2009 کے الرسالہ کو راقم نے پورا پڑھا۔ جنوری کے شمارہ میں ’’ظاہری تبدیلی، حقیقی تبدیلی‘‘ کے زیرِ عنوان آپ نے امریکی میگزین ٹائم (17 نومبر 2009) پر شائع براک اوباما کی تقریر کا پہلا جملہ’’تبدیلی امریکا تک پہنچ گئی”Change has come to America پر اظہار خیال کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’یہ ایک بے بنیاد بات ہے۔ اصل یہ ہے کہ امریکا میں جو چیز بدلی ہے، وہ صرف وہاں کی صدارت ہے۔ نہ کہ وہاں کے حالات۔ زیادہ درست بات یہ ہے کہ اس طرح کہاجائے کہ Change has come to American Presidency)صفحہ 13(

اِسی موضوع پر فروری 2009کے ’’الرسالہ‘‘ میں آپ رقم طراز ہیں کہ ’’واقعہ بتاتا ہے کہ وہائٹ ہاؤس میں وہائٹ پریزیڈینٹ کی جگہ ایک بلیک پریزیڈنٹ آگیا ہے۔ یہ ایک بڑا واقعہ ہے۔ براک اوباما نے جیت کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ امریکا میں تبدیلی آگئی۔ میں کہوں گا کہ دنیا میں تبدیلی آگئی‘‘(قبرص کا سفر، صفحہ34)۔مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آئی۔ ایک جگہ آپ کہتے ہیں کہ امریکا میں جو چیز بدلی ہے، وہ صرف وہاں کی صدارت ہے، نہ کہ وہاں کے حالات۔ اور دوسری جگہ آپ صرف امریکا کی تبدیلی کو قبول نہیں کرتے بلکہ اس کے ساتھ دنیا کی تبدیلی خیال کر رہے ہیں۔

جنوری 2009 کے ہی شمارہ میں آپ ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ’’لوگ ظاہری تبدیلی کو حقیقی تبدیلی سمجھ لیتے ہیں۔ پانچ سال تک براک اوباما اس طرح پُر شور الفاظ بولتے رہیں گے، یہاں تک کہ جب پانچ سال پر ان کا دورِ صدارت ختم ہوگا تو معلوم ہوگا کہ حقیقی معنوں میں کوئی بھی ایسا کام نہیں ہوا، جس کو تبدیلی (change) کہاجاسکے، امریکا کے اصل مسائل بدستور موجود ہیں، بلکہ اُن میں مزید اضافہ ہوگیا‘‘ (صفحہ 13)۔مذکور ہ دو شماروں میں آپ کے اقتباسات خود ایک دوسرے کو رد کررہے ہیں۔ آپ سے التماس ہے کہ اس تضاد بیانی سے متعلق وضاحت فرما کر میری الجھن کودور کریں۔ (شاہد جمیل، بیل گچھیا اردو ہائی اسکول، کولکاتا)

جواب

آپ کا خط مورخہ 30 مارچ 2009 ملا۔ آپ الرسالہ کو مسلسل اپنے مطالعے میں رکھیں اور ہر شمارے کو کئی بار پڑھیں۔ ان شاء اللہ آپ کے تمام شبہات دور ہوجائیں گے۔

مذکورہ دونوں مضامین میں کوئی تضاد نہیں ہے۔ اصل یہ ہے کہ دونوں بیان دو پہلوؤں کے اعتبار سے ہیں۔ یہ ایک واقعہ ہے کہ سماجی اور اقتصادی اعتبار سے امریکا میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ لیکن صدارتی انتخاب بتاتا ہے کہ امریکا میں ایک نیا رجحان ضرور پیدا ہوا ہے، ورنہ وہاں ایک بلیک شخص کو صدر کے لیے منتخب نہ کیا جاتا۔ ہر معاملے کے کئی پہلو ہوتے ہیں۔ کبھی ایک پہلو کے اعتبار سے بات کہی جاتی ہے اور کبھی دوسرے پہلو کے اعتبار سے۔ اِس قسم کی مثالیں قرآن اور حدیث میں بھی موجود ہیں۔ مثلاً قرآن میں اہلِ ضلالت کے لیے ایک جگہ اعمیٰ (الإسراء:72) کا لفظ استعمال کیا گیا ہے، اور اُنھیں کے لیے دوسری جگہ بصرِ حدید (ق: 22) کا لفظ آیا ہے۔ یہ دونوں باتیں دو پہلوؤں کے اعتبار سے ہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom