موت کی یاد
قرآن کی سورہ نمبر 3 میں یہ آیت آئی ہے: کلّ نفس ذائقۃ الموت (آل عمران: 185) یعنی ہر انسان موت کا ذائقہ چکھنے والا ہے۔ موت کے بارے میں بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں: أکثروا ذکرَ ہاذم اللّذاتِ، الموت (الترمذی، النسائی، ابن ماجہ، مشکاۃ المصابیح، رقم الحدیث: 1607) یعنی موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو لذتوں کو ڈھا دینے والی ہے۔
اِس کا مطلب دوسرے لفظوں میں یہ ہے کہ— موت کو بہت زیادہ یاد کرو جو مبنی برخواہش سوچ کو ڈھانے والی ہے، اور مبنی بر حقیقت سوچ کو پیدا کرنے والی ہے:
Remember death much. It demolishes desire-based thinking, and produces reality-based thinking.
لذت (pleasure) کو وسیع معنی میں لیاجائے تو اِس میں انسان کی تمام سرگرمیاں شامل ہوجاتی ہیں۔ ہر کام جو آدمی کرتا ہے، وہ اِسی لیے کرتا ہے کہ اس میں کہیں نہ کہیں اس کو لذت مل رہی ہوتی ہے۔ معلوم مادی لذتوں کے علاوہ، وہ تمام چیزیں بھی اِس فہرست میں شامل ہیں جو بظاہر غیر مادی نظر آتی ہیں۔ مثلاً عزت، شہرت، اقتدار، اسٹیج، سماجی رتبہ، مقبولیت، عوامی استقبال، وغیرہ۔ غرض تمام مادی اور غیر مادی چیزیں اِس فہرستِ لذت میں شامل ہیں۔ اگر لذت نہ ملے تو آدمی کوئی کام نہیں کرے گا۔
اِس طرح موت کا احساس آدمی کو آخری حد تک سنجیدہ اور حقیقت پسند بنا دیتا ہے۔ وہ کسی ایسی چیز کواپنا ہدف نہیں بنا سکتا جو آج ملے اور کل کے دن وہ مکمل طورپر اُس سے چھن جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ موت کی حیثیت کسی عورت یا مرد کے لیے سب سے بڑے معلم (teacher) کی ہے۔ موت کا تصور آدمی کے اندر انقلاب پیدا کردینے والا ہے۔