قرآن میں غور وفکر
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ کتاب اِس لیے اتاری کہ اہلِ عقل اس کی آیتوں پر غور کریں اور اس سے نصیحت حاصل کریں (ص: 29) یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن میں گہری نصیحت موجود ہے، لیکن اِن نصیحتوں کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن کی آیتوں پر مسلسل غور کیا جائے۔
اِس معاملے کی ایک سادہ مثال یہ ہے کہ قرآن کی سورہ نمبر 2 میں بتایاگیا ہے کہ آدم کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کرنے کہ بعد جنت میں بسایا تھا، لیکن آدم نے اللہ کے حکم کی خلاف ورزی کی۔ اِس کے نتیجے میں وہ گنہ گار ہوگئے۔ اِس کے بعد قرآن میں یہ آیت آئی ہے: فتلقّی آدم من ربہ کلمات فتاب علیہ، إنہ ہو التواب الرحیم (البقرۃ: 37) یعنی پھر آدم نے اللہ سے کچھ کلمات حاصل کئے تو اللہ اُس پر متوجہ ہوا۔ بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والاہے۔
اگر آپ اِس آیت کو صرف تلاوت کے طورپر نہ پڑھیں، بلکہ اُس پر غور کریں تو آپ کے دل میں فوراً یہ سوال پیدا ہوگاکہ وہ کلماتِ دعا کیا تھے جو خود اللہ تعالیٰ کی طرف سے آدم کو ملے۔ یہ کلماتِ دعااتنے موثر تھے کہ اس کو ادا کرنے کے بعد آدم کا گناہ معاف ہوگیا اور وہ دوبارہ اللہ کی رحمت کے مستحق قرار پائے۔
جب آپ اِس طرح غور کریں گے تو آپ پر کھلے گا کہ اِس الہامی دعاء کے کلمات اگرچہ یہاں مذکور نہیں ہیں، لیکن وہ قرآن میں دوسرے مقام پر بتادئے گئے ہیں۔ یہ دوسرا حوالہ ہم کو قرآن کی سورہ نمبر 7 میں اِن الفاظ کے ساتھ ملتا ہے: ربّنا ظلمنا أنفسنا، وإن لم تغفر لنا وترحمنا، لنکونن من الخاسرین (الأعراف: 23)، یعنی آدم اور حوا نے دعاکرتے ہوئے کہا، اے ہمارے رب، ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اور اگر تو ہم کو معاف نہ کرے او رہم پر رحم نہ کرے تو ہم گھاٹا اٹھانے والوں میں سے ہوجائیں گے— قرآن کو غور وفکر کے ساتھ پڑھا جائے تو قرآن آدمی کے لیے دریافت کی کتاب بن جائے گا، اور بلا شبہہ دریافت سے بڑی کوئی چیز انسان کے لیے نہیں۔