امن، انصاف
انسان کو امن (peace) کی ضروت ہے اور انصاف (justice) کی ضرورت۔ بہتر سماج کے قیام کے لیے دونوں یکساں طورپر ضروری ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ دونوں کو کس طرح حاصل کیا جائے۔ عام تصور یہ ہے کہ لوگوں کو پہلے انصاف دیا جائے، اس کے بعد وہ اپنے آپ امن کے مطابق رہنے لگیں گے۔ مگر یہ سوچ فطرت کے نظام کے خلاف ہے۔ اِس دنیا میں کسی کو کوئی چیز صرف فطرت کے قانون کی پیروی کرکے مل سکتی ہے۔ فطرت کے نظام کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اِس دنیا میں کچھ ملنے والا نہیں۔فطرت کے نظام کے مطابق، امن کا فائدہ صرف یہ ہے کہ وہ مواقع (opportunities) کو کھولتا ہے۔ اور انصاف کے حصول کا ذریعہ یہ ہے کہ اِن مواقع کو دانش مندی کے ساتھ استعمال کیا جائے۔ امن کا تعلق خارجی مواقع سے ہے، اور انصاف کا تعلق خود اپنی جدوجہد سے۔ تاریخ میں جب بھی کسی کو امن اور انصاف ملا ہے، اِسی فطری اصول کی پیروی کے ذریعے ملا ہے۔ اِس اصول کی خلاف ورزی کرنے والوں کو اِس دنیا میں کبھی نہ امن ملا ہے اور نہ انصاف۔
جب بھی کوئی گروہ انصاف سے محروم ہو تو اس کا سبب ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ اس نے انصاف کو پانے کے لیے اپنا حصہ ادا نہیں کیا۔ اگر آپ کا یہ احساس ہو کہ آپ انصاف سے محروم ہیں تو براہِ راست انصاف کے لیے لڑائی نہ چھیڑیئے، بلکہ یک طرفہ طورپر صبر کی پالیسی اختیار کرکے امن قائم کیجئے۔ امن کے قائم کرتے ہی یہ ہوگا کہ مواقع اور امکانات کے تمام راستے آپ کے لیے کھل جائیں گے۔ آپ کے لئے یہ ممکن ہوجائے گا کہ آپ اِن مواقع اوراِن امکانات کو استعمال کرتے ہوئے حصولِ انصاف کی نتیجہ خیز جدوجہد شروع کردیں۔ یہی اِس دنیا میں حکمتِ حیات ہے۔ جو شخص یا گروہ اِس دنیا میں کچھ پانا چاہتا ہے، اُس کو سب سے پہلے یہ کرنا ہوگا کہ وہ یک طرفہ طورپر ٹکراؤ کا طریقہ ختم کردے، اور پھر ذاتی تعمیر کے ذریعے انصاف کے حصول کی جدوجہد کرے— موجودہ دنیا میں امن پہلا قدم ہے اور انصاف دوسرا قدم۔ جو لوگ پہلا قدم نہ اٹھائیں، اُن کے لیے دوسرا قدم اِس دنیا میں مقدر نہیں۔