صحیح مشورہ
مولانا سعید احمد اکبرآبادی (وفات: 1982) اپنے زمانے کے مشہور عالم تھے۔ وہ اردو، عربی، فارسی اور انگریزی زبانوں میں بخوبی دست گاہ رکھتے تھے۔ اُن کا ایک واقعہ ماہ نامہ معارف (جنوری، 2010،صفحہ 71) سے لے کر یہاں نقل کیا جارہا ہے: ایک مرتبہ اپنے ابتدائی دور میں جب کہ میرے ارزاں قسم کے مضامین ومقالات پنجاب کے بعض ادبی رسالوں میں شائع ہوتے تھے، ایک نظم کی نسبت خیال ہوا کہ معارف جیسے معیاری رسالے کے لائق ہے، مولانا سید سلیمان ندوی مرحوم کی خدمت میں ارسال کردی۔ مولانا نے یہ نظم واپس کرتے ہوئے بڑی محبت وشفقت کے ساتھ تحریر فرمایا:آپ اِس نظم نویسی کے چکّر میں کہاں پڑ گئے۔ یہ آپ کے مرتبے سے گری ہوئی چیز ہے۔ کچھ محنت کیجئے اور مقالہ نویسی پر توجہ دیجئے۔ قوم کو آپ سے اِسی کی توقع ہوسکتی ہے اور یہی ہونی چاہئے۔ مولانا اکبرآبادی پر اِس خط کا یہ ردعمل (اثر) ہوا کہ بقول اُن کے مولانا کے گرامی نامے کے جواب میں یہ شعر لکھ دیا:
کون ہوں، کیا ہوں، کہاں ہوں، سب حقیقت کھل گئی تو نے وہ ٹھوکر لگائی، چشم ِ عبرت کھل گئی
مولانا سید سلیمان ندوی کا یہ مشورہ بلاشبہہ ایک صحیح مشورہ تھا۔ اصل یہ ہے کہ تحریری کام کی دو قسمیں ہیں— ایک، وہ جس کو فکشن (fiction) کہاجاتا ہے۔ اور دوسرا، وہ جس کو نان فکشن (non-fiction) کہا جاتا ہے۔ شاعری وغیرہ، فکشن کے دائرے کی چیزیں ہیں۔ اِس قسم کی تحریریں حقیقۃً صرف ذہنی تفریح کا سامان ہوتی ہیں، تعمیری اعتبار سے اُن کی کوئی اہمیت نہیں۔
نان فکشن میں تمام علمی موضوعات آتے ہیں۔ مثلاً تاریخ اور سائنس، وغیرہ۔ کسی تعلیم یافتہ آدمی کے لیے اصل کرنے کا کام یہی ہے کہ وہ نان فکشن کے دائرے کو اپنا میدانِ مطالعہ بنائے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے کسی علمی موضوع کو منتخب کرکے اس کا گہرا مطالعہ کرے اور اس پر مقالات یا کتابیں لکھے— انسان کو چاہئے کہ وہ اپنی زندگی کے لیے اعلیٰ مقصد کا انتخاب کرے، وہ اعلیٰ مقصد سے کم تر کسی چیز میں اپنی صلاحیتوں کو ضائع نہ کرے۔