دورِ جدید کا شجرِ ممنوعہ
اللہ تعالیٰ نے پہلے انسان (آدم) کو پیدا کیا تو اُن کو جنت میں آباد کیا۔ پوری جنت ان کے لیے کھلی ہوئی تھی۔ لیکن وہاں ایک درخت تھا جو اس سے مستثنی تھا۔ اُن کو ہدایت دی گئی کہ وہ اِس درخت کے پاس نہ جائیں اور اِس کا پھل نہ کھائیں۔ لیکن وہ اس ہدایت پر قائم نہ رہ سکے اور جنت کے اُس شجرِ ممنوعہ کا پھل کھالیا۔ اِس کے بعد وہ جنت سے نکال دئے گئے۔
شجرِ ممنوعہ (forbidden tree) کا تعلق صرف ایک مخصوص درخت سے نہیں۔ اپنی حقیقت کے اعتبار سے وہ سورس آف ڈسٹریکشن (source of distraction) کا نام ہے۔ اِس اعتبار سے دیکھئے تو ہر دور کا ایک شجرِ ممنوعہ ہوتا ہے۔ موجودہ زمانے کا بھی ایک شجرِ ممنوعہ ہے، اور وہ وہی چیز ہے جس کو موبائل (mobile) کہاجاتاہے۔
آج کل لوگوں کا حال یہ ہے کہ ہر آدمی کی جیب میں موبائل ہوتا ہے۔ اس کا ذہن مسلسل طورپر اِسی موبائل میں مشغول رہتا ہے۔ وہ مجلس میں ہو یا مسجد میں ہو، وہ کسی جلسے میں ہو یا حالت ِ سفر میں ہو، ہر جگہ اور ہر وقت وہ اپنے موبائل میں مشغول رہتا ہے۔ اِس طرح موبائل موجودہ زمانے میں ڈسٹریکشن (distraction)کا سب سے بڑاسبب بن گیا ہے۔ لوگ موبائل کے ذریعے سطحی باتوں میں مشغول رہتے ہیں، گہری باتوں کے بارے میں سوچنے کا اُن کے پاس وقت ہی نہیں۔ اِس موبائل کلچر نے تمام عورتوں اور مردوں کو معرفت سے محروم کردیا ہے۔ معاملات میں گہری سوچ سے وہ آشنا نہیں، وہ تجزیہ (analysis) کی صلاحیت سے محروم ہوگئے ہیں۔
کسی بھی شخص سے بات کیجئے تو وہ گہری عقل کی کوئی بات نہیں کہہ پائے گا۔ ہر آدمی کا ذہن کنفیوژن کا جنگل بناہوا ہے۔ ہر آدمی بے شعوری کی حالت میں جی رہا ہے۔ زندگی ہمارے لیے ایک نہایت قیمتی موقع ہے، لیکن لوگ اِس موقع کے اعلیٰ استعمال سے محروم ہو رہے ہیں۔ اور موجودہ زمانے میں اِس کا سب سے بڑا سبب بلا شبہہ موبائل ہے۔ اِس عموم میں اگر کوئی استثناء ہے تو وہ ایک فی صد سے بھی کم ہے۔