قناعت، عدم قناعت
خدا نے جس منصوبے کے تحت، انسان کو پیدا کیا ہے، اس کے مطابق، انسان کی زندگی دو دوروں (periods)میں بٹی ہوئی ہے۔ اِن میں سے ایک کو دنیا کہا جاتا ہے، اور دوسرے کو آخرت۔ اِس طرح، ہر انسان کو دو تقاضوں کے درمیان جینا پڑتا ہے۔ ایک تقاضاتعمیر دنیا کا ہوتا ہے اور دوسرا تقاضا تعمیر آخرت کا تقاضا۔
یہاں یہ سوال ہے کہ اِن دونوں تقاضوں کے درمیان کس طرح موافقت پیدا کی جائے، زندگی کا وہ نقشہ کیا ہے جس میں دونوں تقاضوں کی رعایت موجود ہو۔ اِس کا قابلِ عمل فارمولا صرف ایک ہے، اور وہ ہے— دنیا کے معاملے میں قناعت، اور آخرت کے معاملے میں عدم قناعت۔
انسان کے لیے اپنی موجودہ ساخت کے اعتبارسے یہ ممکن نہیں کہ وہ دونوں تقاضوں کو یکساں درجہ دے۔ وہ دنیا کی چیزوں میں بھی بھر پور توجہ دے، اور آخرت کے معاملے میں بھی بھر پور توجہ دے۔ اِس قسم کی برابری کسی انسان کے لیے ممکن نہیں۔
ایسی حالت میں عملی طور پر صرف یہ ہوسکتا ہے کہ انسان اِس معاملے میں ترجیح (priority) کا طریقہ اختیار کرے، یعنی وہ دونوں میں سے ایک کو اوّلین (primary) اہمیت دے، اور دوسرے کو وہ ثانوی (secondary) درجے میں رکھے۔
اِس فارمولے کا مطلب یہ ہے کہ انسان دنیا کے معاملے میں قناعت (contentment) کا طریقہ اختیار کرے، اور آخرت کے معاملے میں عدم قناعت (discontentment) کا طریقہ، یعنی دنیا کی چیزوں کے معاملے میں اُس کا مزاج یہ ہو کہ جو کچھ آخرت کا نقصان کیے بغیر مل جائے، اُس کو وہ کافی سمجھے۔ جہاں تک آخرت کا معاملہ ہے، اپنی زیادہ سے زیادہ توجہ اور اپنی زیادہ سے زیادہ توانائی وہ اس کے حصول میں لگا دے— دنیا کے معاملے میں وہ کم پر راضی ہوجائے، اور آخرت کے معاملے میں وہ زیادہ سے زیادہ کے لیے کوشش کرتا رہے۔