ربّانی دعاء
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ آدم سے جب یہ غلطی ہوئی کہ انھوں نے شجر ممنوعہ کا پھل کھالیا تو اچانک وہ اللہ کی رحمت سے محروم ہوگئے۔ اس کے بعد ان کو سخت ندامت ہوئی اور انھوں نے اللہ سے معافی کی دعاء کی۔ اِس سلسلے میں قرآن کے الفاظ یہ ہیں: فتلقّی آدم من ربّہ کلمات فتاب علیہ، إنہ ہو التواب الرحیم (البقرۃ: 37)۔
اِس آیت میں تلقّی کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ تلقّی کے لفظی معنی ہیں ملنا(to receive)، یعنی آدم نے اپنے رب سے کچھ کلمات اخذ کئے، پھر اس کے مطابق، دعاء کی تو اللہ نے ان کی دعاء کو قبول فرمایا۔ یہاں یہ سوال ہے کہ اِس تلقّی کی صورت کیا تھی۔اِس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ نے آواز دے کر آدم کو بتایا، یا کوئی فرشتہ آیا اور اس نے انھیں اِن کلمات کی تلقین کی۔یہاں اِس قسم کا مفہوم لینا درست نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ یہ الہام (inspiration) کا ایک معاملہ تھا۔ اِسی طرح کے معاملے کی بابت امام مالک بن انس نے کہا ہے: نورٌ یُلقیٰ فی قلب المؤمن۔یعنی یہ ایک روشنی ہے جو مومن کے دل میں ڈالی جاتی ہے۔ جب کسی بندے پر شدید انابت طاری ہوتی ہے، وہ گریہ و زاری کے ساتھ اللہ کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے، وہ آخری حد تک اپنے آپ کو اللہ کے آگے ڈال دیتا ہے، اُس وقت نفسیات کی سطح پر اس کے اوپر ربّانی کیفیات طاری ہوتی ہیں۔ یہ کیفیات کچھ خاص الفاظ میں ڈھل جاتی ہیں۔ اِسی کو ربانی دعا کہاجاتا ہے۔اس قسم کی ربانی دعا ء اپنے آپ میں قبولیت کی پیشگی خبر ہوتی ہے۔
اِس قسم کی ربانی دعاء کی توفیق کس کو ملتی ہے۔ یہ توفیق اُس شخص کو ملتی ہے جو اپنے آپ کو کامل عبدیت کے مقام پر پہنچائے، جو اِس حقیقت کو کامل سطح پر دریافت کرے کہ وہ پانے والا ہے اور خدا دینے والا۔ اِس قسم کا گہرا احساس جب آدمی کے اوپر طاری ہو تو وہ ایک ایسا لمحہ ہوتاہے جب کہ بندے کا خصوصی تعلق اللہ سے قائم ہوجاتا ہے۔ اُس وقت اس کی زبان سے ذکر ودعاء کے الہامی الفاظ نکلنے لگتے ہیں۔ اِسی کا نام ربانی دعاء ہے۔