کتمانِ حق
قرآن کی سورہ نمبر 3 میں بتایا گیا ہے کہ یہود سے اللہ تعالی نے عہد (میثاق) لیا۔ اِس عہد میں اُن کو یہ تاکیدی حکم دیاگیا تھا کہ: لتبیننہ للناس ولا تکتمونہ(آل عمران:187) یعنی تم خدائی ہدایت کو ضرور لوگوں کے سامنے پوری طرح کھول کر بیان کروگے اور اُس کو لوگوں سے ہر گز نہ چھپاؤ گے۔
اِس آیت میں یہود کے بارے میں جس حکم کا ذکر کیاگیا ہے، وہ خود یہود کی اصلاح کا حکم نہیں ہے، اس سے مراد غیر یہود کو وہ ہدایت پہنچانا ہے جو یہود کو اُن کے پیغمبروں کے ذریعے دی گئی تھی۔یہ عین وہی حکم تھا جس کو امتِ محمدی کی نسبت سے، شہادت علی الناس (البقرۃ: 143) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ اِسی ذمے داری کی بنا پر یہود کو وہ خصوصی حیثیت دی گئی جس کو منتخب گروہ (chosen people) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔
اِس تقرری کے عہد کا ذکر بائبل میں موجود ہے۔ مثلاً بائبل کی کتاب یسعیاہ میں یہود کے بارے میں ہے کہ— تم میرے گواہ ہو(Isaiah 43: 10) You are My witness :۔جیوش انسائکلوپیڈیا میں اِس حقیقت کو حسب ذیل الفاظ میں واضح طورپر بیان کیاگیا ہے: بنی اسرائیل کوخصوصی طورپر یہ ذمے داری تفویض کی گئی تھی کہ وہ لوگوں کے سامنے خدا کی توحید کا اعلان کریں:
Upon Israel specially devolved the duty of proclaiming God’s unity
شہادت علی الناس کی یہی ذمے داری اب امتِ محمدی کے اوپر ہے۔ قرآن کی مذکورہ آیت میں کتمان سے مراد کتاب کو یہود سے چھپانا نہیں ہے، بلکہ اس کو غیر یہود سے چھپانا ہے۔ یہی معاملہ امتِ محمدی کا ہے۔ امت محمدی اگر ایسا کرے کہ وہ خود قرآن کو پڑھے اور پڑھائے، لیکن وہ قرآن کو غیرمسلموں تک نہ پہنچائے تو یہ اس کے لیے قرآن کے کتمان کے ہم معنی ہوگا۔اِس قسم کا کتمان جس طرح یہود کے لیے خدا کے نزدیک اپنی اصل حیثیت کو کھونے کے ہم معنی تھا، اِسی طرح یہ کتمان امتِ محمدی کے لیے بھی اس کی اصل حیثیت کو کھونے کے ہم معنی ثابت ہوگا۔