ابدی صحرا
نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (9 فروری 2008)میں ایک سبق آموز واقعہ نظر سے گزرا۔ بمبئی کے ایک ایکٹر آنند سوریا ونشی(Anand Suryavanshi) نے اپنی بڑی موٹر کار گورے گاؤں (بمبئی) میں پے اینڈ پارک ایریا (pay-and park area) میں کھڑی کی۔ کچھ دیر کے بعد جب وہ واپس آئے تو ان کی کار وہاں موجود نہ تھی۔ وہ چوری ہوچکی تھی۔ انھوں نے اخبار کے رپورٹر آلیورا (Roshni Olivera) کو بتایا کہ اِس کار میں میری تمام ذاتی چیزیں موجود تھیں۔ مثلاً لیپ ٹاپ، قیمتی اسٹون رِنگ، 30، 40 ڈی وی ڈیز(DVDs)، تقریباً 50 سی ڈیز(CDs)، شوٹنگ کے کپڑے، موبائل فون، اور پرسنل ڈائری، وغیرہ۔ مسٹر آنند نے کہا کہ میں اِن چیزوں سے جذباتی طورپر وابستہ تھا:
I was emotionally attached to them.
اِس قسم کی تفصیلات کو بتاتے ہوئے انھوں نے دکھ بھرے لہجے میں کہا کہ— اِس حادثے کے بعد مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے جیسے کہ میں اچانک کسی ویران جزیرے میں آکر پھنس گیا ہوں:
I feel like I am stranded on some island (p. 4)
یہی معاملہ زیادہ بڑے پیمانے پر آخرت میں پیش آئے گا۔ موت کے پہلے کی زندگی میں آدمی ہر قسم کے ساز وسامان میں جیتا ہے۔ مکان، گاڑی، اولاد، بزنس، شہرت، بینک بیلنس، وغیرہ۔ موت کے بعد کی زندگی میں آدمی اچانک اپنے آپ کو ایک نئی دنیا میں پائے گا۔ یہاں وہ پوری طرح اکیلا ہوگا۔ اس کے تمام مادّی سامان اُس سے چھوٹ چکے ہوں گے۔ اُس کے پیچھے وہ دنیا ہوگی جس کو وہ ہمیشہ کے لیے چھوڑ چکا۔ اُس کے آگے وہ دنیا ہوگی جہاں اُس کے لیے ابدی صحرا کے سوا اور کچھ نہیں۔ موت سے پہلے آدمی اِس آنے والے دن کے بارے میں سوچ نہیں پاتا۔ موت کے بعد اچانک یہ دن آجائے گا۔ اُس وقت انسان سوچے گا، لیکن اس کا سوچنا اس کے کام نہ آئے گا۔سب سے بڑی عقل مندی یہ ہے کہ آدمی اِس آنے والے ہول ناک دن کی تیاری کرے۔