دو طرفہ معاملہ
ایک روایت کے مطابق، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لایرمی رجلٌ رجلاً بالفسق ولا یرمیہ بالکفر إلاّ ارتدّت علیہ، إن لم یکن صاحبہ کذلک (مسند احمد، جلد 5، صفحہ 181) یعنی جب بھی ایک آدمی دوسرے آدمی پر کافر یا فاسق ہونے کا الزام لگاتا ہے، تو ضرور یہ الزام خود قائل کی طرف لوٹ آتا ہے، اگر دوسرا آدمی ویسا نہ ہو۔
یہ کوئی پُراسرار بات نہیں۔ یہ فطرت کا ایک قانون ہے جس کو خدا نے اِس دنیا میں قائم کررکھا ہے۔ اِس قانون کو موجودہ زمانے میں بوم رینگ (boomerang) کا قانون کہا جاتا ہے۔ یعنی کسی چیز کو آپ جس قوت سے دوسرے کی طرف پھینکیں، اُسی قوت سے وہ آپ کی طرف لوٹ کر آئے گی:
It is the law of the boomerang— the harder and faster you throw it, the faster and more violently it comes back.
جب کوئی آدمی کسی کو برا کہتا ہے، یا اس کو فاسق یا کافر بتاتا ہے تو وہ اپنے داخلی احساس کے تحت اس کو محض ایک یک طرفہ معاملہ سمجھتا ہے، یعنی ایک ایسی بات جس کا تعلق خود اس کی اپنی ذات سے نہیں ہے، بلکہ صرف دوسرے شخص کی ذات سے ہے۔ مگر یہ ایک خطرناک بھول ہے۔ کیوں کہ اگر دوسرا آدمی ویسا نہیں ہے جیسا آپ نے اس کو بتایا ہے، تو آپ کا کہا ہوا خود آپ کی طرف لوٹ آئے گا۔ جو الزام آپ دوسرے شخص کو دے رہے تھے، آپ خود اس کے مجرم بن جائیں گے۔
اب اگر یہ دیکھا جائے کہ فسق یا کفر کا تعلق انسان کے دل سے ہے، اور دل کا حال صرف خدا جانتا ہے تو ہر وہ شخص جو خدا سے ڈرتا ہو، اس کا حال یہ ہوجائے گا کہ اِس قسم کی زبان استعمال کرنے سے وہ آخری حد تک بچے گا۔ وہ اگر کسی شخص کے اندر کوئی برائی دیکھ رہا ہے تو وہ خیر خواہانہ انداز میں اس کو نصیحت کرے گا۔ وہ ہر گز ایسا نہیں کرے گا کہ وہ اس کے بارے میں فاسق اور کافر جیسی زبان بولنے لگے۔ وہ کسی شخص کے فسق اور کفر کو خدا کے اوپر چھوڑدے گا، اور اپنی ذمّے داری صرف یہ سمجھے گا کہ وہ نصیحت اور تلقین کے ذریعے دوسرے انسان کی اصلاح کی کوشش کرتا رہے۔