دیوارِ قہقہہ

The story of the wall of laughter

ایک پُرانا قصہ ہے کہ کسی مقام پر ایک مضبوط دیوار تھی۔ یہ دیوار بہت اونچی تھی۔ اِسی کے ساتھ وہ دونوں طرف بہت زیادہ دور تک پھیلی ہوئی تھی۔ دیوار کے اِس طرف رہنے والوں کو کچھ بھی معلوم نہ تھا کہ دیوار کے دوسری طرف کیا ہے، اور کس قسم کے لوگ اُدھر رہتے ہیں۔ دیوار کے ایس طرف جو لوگ رہتے تھے، انھوں نے یہ چاہا کہ دیوار کے دوسری طرف کا حال معلوم کریں۔

اِس مقصد کے لیے انھوں نے ایک بہت لمبی سیڑھی بنائی، پھر انھوں نے اُس سیڑھی کو دیوار کے ایک طرف کھڑا کیا اور اپنے ایک آدمی کو سیڑھی پر چڑھایا، تاکہ وہ دیوار کے اوپر تک جائے اور وہاں سے دیکھے کہ دیوار کے دوسری طرف کیا ہے۔ اِس مشاہدے کے بعد وہ نیچے آکر دیوار کے اِ س طرف رہنے والوں کو دیوار کے دوسری طرف کا حال بتائے۔ لیکن جب یہ آدمی لمبی سیڑھی پر چڑھ کر دیوار کے اوپر پہنچا تو دوسری طرف کی دنیا اُس کو اتنی زیادہ خوب صورت معلوم ہوئی کہ وہ اپنے آپ پر قابو نہ رکھ سکا اور قہقہہ لگا کر دیوار کے دوسری طرف کود پڑا۔

اِس کے بعد دیوار کے اِس طرف رہنے والوں نے اپنے ایک اور آدمی کو تیار کیا اور اس کو لمبی سیڑھی کے اوپر چڑھایا، لیکن دوبارہ یہی ہوا کہ جب وہ آدمی دیوار کے اوپرپہنچا تو قہقہہ لگا کر وہ دوسری طرف کود پڑا۔ یہ تجربہ بار بار کیا جاتا رہا، لیکن ہر بار یہی ہوا کہ اوپر چڑھنے والے آدمی کو دوسری طرف کا منظر اتنا پُر کشش نظر آیا کہ وہ قہقہہ لگا کر دیوار کے دوسری طرف کود پڑا۔ اِس طرح دیوار کے اِس طرف رہنے والوں کے لیے دیوار کے دوسری طرف کا حال بدستور نامعلوم بنا رہا۔

اِس افسانوی دیوار کو اگر موت کی دیوار مانا جائے اور یہ سمجھا جائے کہ انسان کی زندگی کا ایک حصہ دیوار کے اِس طرف ہے، اور اس کا دوسرا حصہ دیوار کے دوسری طرف۔ دیوار کے دوسری طرف خوشیوں کی دنیا، یا دوسرے لفظوں میں، جنت کی دنیا بسی ہوئی ہے اور دیوار کے اِس طرف محنت اور مشقت کی دنیا ہے، تو یہ کہانی انسانی تاریخ کے اوپر مکمل طورپر صادق آئے گی۔ یہ تمثیلی کہانی گویا کہ پوری انسانی تاریخ کی کہانی ہے۔

انسان پیدائشی طورپر اپنے لیے خوشیوں کی ایک زندگی چاہتا ہے۔ اِس اعتبار سے انسان کو متلاشی ٔ مسرت حیوان (joy-seeking animal) کہاجاسکتا ہے۔ قدیم انسان نے جب یہ دیکھا کہ اُس کی زندگی مختلف قسم کے غم سے بھری ہوئی ہے، تو اس نے اپنے لیے ایک پُر مسرت زندگی کی تلاش شروع کردی۔ اِس تلاش کا غالباً پہلا نمایاں واقعہ پہیہ (wheel) کی دریافت تھی۔ پہیے کی دریافت کے بعد تلاشِ مسرت کا یہ انسانی سفر شروع ہوگیا۔ اِس سفر کو ایک متعین نام دینا ہو تو اُس کو تہذیب (civilization) کا سفر کہاجاسکتا ہے۔تہذیب کا یہ سفر چلتا رہا۔ لمبی مدت کے بعد آخر کار یہ سفر جدید تہذیب (modern civilization) کے دَور تک پہنچ گیا۔ اب اُس کو تیز رفتار سفر کے لیے مشین کی طاقت حاصل ہوگئی۔ جدید کمیونی کیشن کا زمانہ آیا اور جسمانی سفر کے بغیر انسان کی آواز اور اس کی متحرک تصویر بعید ترین مسافت تک پہنچنے لگی۔ جدید انڈسٹری نے کنزیومرازم (consumerism)کا دور پیدا کیا، جب کہ راحت اور آسائش کی تمام چیزیں غلّے اور سبزی کی طرح بازار میں بکنے لگیں، وغیرہ۔

اِس طرح انسانی تہذیب کا میابی کے ساتھ لمبا سفر طے کرتے ہوئے آخر کار اکیسویں صدی عیسوی میں پہنچ گئی، لیکن اِس آخری منزل پر پہنچ کر انسان کے لیے ایک نیا شدید تر مسئلہ پیدا ہوگیا۔ اب یہ ہوا کہ دیوارِ قہقہہ (laughter wall) اُن کے لیے ایک نئی قسم کی دیوارِ گریہ (wailing wall) بن گئی۔ اب معلوم ہوا کہ انسان نے لمبی جدوجہد کے بعد جو دنیا اپنے لیے بنائی تھی، وہ انسان کے لیے خوشیوں کی دنیا نہ تھی، بلکہ وہ صرف نئی ناقابلِ عبور مصیبتوں کی ایک دنیا تھی۔ چناں چہ اکیسویں صدی میں انسانی تہذیب ایک بندگلی (blind alley) تک پہنچ کر انسانی تاریخ کے خاتمہ (end of history) کے ہم معنیٰ بن گئی۔

ایسا کیوں ہوا۔ اِس کا سبب بنیادی طورپر صرف ایک ہے،وہ یہ کہ خوشیوں کی ایک دنیا بنانے کے لیے ایک مکمل انڈسٹری درکار ہے۔انسان نے لمبی جدوجہد کے بعد ایک ایسی انڈسٹری تیار کی، لیکن جب یہ انڈسٹری تیار ہوگئی تو اس کے بعد معلوم ہوا کہ یہ انڈسٹری ایک نیا ناقابلِ عبور مسئلہ لے کر آئی ہے۔ یہ مسئلہ فضائی کثافت (air pollution) کا مسئلہ ہے، جو کہ انسانی انڈسٹری کے ساتھ لازمی طور پر جُڑا ہوا ہے۔ ہم کو اپنی مطلوب راحتوں کی دنیا بنانے کے لیے بے کثافت انڈسٹری (pollution-free industry) درکار ہے، اور بے کثافت انڈسٹری کو وجود میں لانا انسان کے لیے سرے سے ممکن ہی نہیں۔ اِس طرح کثافت کے مسئلے نے عملی طورپر تہذیب کے تمام ثَمرات (achievements)کی نفی کردی ہے۔

ایک طرف، اپنی مطلوب دنیا بنانے کے لیے انسان کے عجز کا یہ معاملہ ہے اور دوسری طرف، اِسی دنیا میں یہ منظر دکھائی دیتا ہے کہ یہاں ایک بے کثافت انڈسٹری عملاً ہزاروں سال سے مکمل طورپر قائم ہے۔ یہ فطرت (nature) کی انڈسٹری ہے۔ تہذیب، بے کثافت انڈسٹری کو وجود میں لانے میں مکمل طورپر ناکام رہی، لیکن اِسی دنیا میں فطرت (nature) ایک مکمل قسم کی بے کثافت انڈسٹری بہت بڑے پیمانے پر بالفعل(in action) قائم کیے ہوئے ہے۔

موجودہ سیارۂ زمین جس پر انسان رہتا ہے، وہ مسلسل طورپر گردش میں ہے۔ وہ اپنے محور (axis) پر ایک ہزار میل فی گھنٹے کی رفتار سے گھوم رہا ہے۔ اِسی کے ساتھ وسیع خلا میں سورج کے گرد وہ اپنے مدار (orbit) پر 19 کروڑ میل کا لمبا سفر طے کرتاہے، پہلا سفر 24 گھنٹے میں پورا ہوتاہے اور دوسرا سفر ایک سال میں۔ سیارۂ زمین کا یہ دو طرفہ تیز رفتار سفر مسلسل طورپر جاری ہے، لیکن یہاں نہ کوئی شور (noise) ہے اور نہ کسی قسم کی کثافت(pollution)۔

سورج آگ اور انرجی کا بہت بڑا بھنڈار ہے۔ وہ اتنا زیادہ بڑا ہے کہ اُس سے 12 لاکھ زمینیں بن سکتی ہیں۔ وہ زمین سے 9 کروڑ 30 لاکھ میل دور رہتے ہوئے مسلسل طورپر ہم کو روشنی اور حرارت بھیج رہا ہے، لیکن دوبارہ یہاں کسی قسم کی کوئی کثافت (pollution) مطلق موجود نہیں۔ اِسی طرح نیچر میں ایک اور انڈسٹری ہے۔ یہ درختوں اور پودوں کی صورت میں قائم ہے۔ یہ انڈسٹری ایک نہایت پیچیدہ نظام کے تحت، انسان کو مسلسل طورپر صحت بخش آکسیجن سپلائی کررہی ہے۔ اِسی کے ساتھ وہ ہماری سانس سے نکلی ہوئی کاربن ڈائی آکسائڈ کو اپنے اندر جذب کررہی ہے۔ یہ بلاشبہہ ایک عظیم انڈسٹری ہے، لیکن یہ انڈسٹری بھی شور اور کثافت جیسی نامطلوب چیزوں سے مکمل طورپر پاک ہے۔

اِسی طرح پانی کو دیکھیے۔ پانی کا بہت بڑا ذخیرہ بڑے بڑے سمندروں کی صورت میں ہماری زمین پر موجود ہے۔ اِس ذخیرے میں تحفظّاتی مادّہ (preservative) کے طورپر تقریباً 10 فی صد نمک ملا ہوا ہے۔ اِس بنا پر وہ براہِ راست طورپر انسان کے لیے قابلِ استعمال نہیں۔ یہاں بارش کی صورت میں ایک عظیم آفاقی عمل جاری ہے، جس کو ازالۂ نمک (desalination) کا عمل کہا جاتا ہے۔ یہ بھی ناقابلِ بیان حد تک ایک عظیم انڈسٹری ہے، لیکن یہ انڈسٹری کسی قسم کی کوئی کثافت پیدا نہیں کرتی۔

یہی معاملہ انسانی خوراک کا ہے۔ انسان کو اپنی زندگی کے لیے خوراک کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ خوراک غلّہ اور سبزی اور پھل اور دودھ اور مچھلی اور گوشت، وغیرہ سے حاصل ہوتی ہے۔ یہ تمام خوراک بھی مسلسل طور پر انسان کے لیے وجود میں لائی جارہی ہے۔ یہ عمل بھی ایک عظیم انڈسٹری کے ذریعے انجام پاتا ہے، لیکن یہاں بھی انسانی صنعتوں کی مانند کوئی کثافت پیدا نہیں ہوتی۔

یہ دو مختلف قسم کے تجربے ہیں۔ ایک، انسانی تہذیب کی انڈسٹری اور دوسرے، ڈوائن نیچر کی انڈسٹری۔ انسانی تہذیب کی انڈسٹری ہمارے لیے خوشیوں اور راحتوں کی دنیا بنانے میں ناکام ہے۔ وہ راحت کے سامان وجود میں لانے کی کوشش میں مصیبتوں کا ایک نیا جنگل اُگا دیتی ہے۔ دوسری طرف، عین اُسی وقت، ڈوائن نیچر کی انڈسٹری راحت کے تمام سامان پیدا کررہی ہے، لیکن وہ مکمل طورپر ایک بے کثافت انڈسٹری ہے، نہ کہ انسانی انڈسٹری کی طرح پُرکثافت انڈسٹری۔

اب اگر قدیم کہانی کے مطابق، دیوار کو موت کی دیوار قرار دیاجائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ اِس دیوار کے ایک طرف دنیائے گریہ (wailing world) ہے، اور اِس دیوار کے دوسری طرف دنیائے قہقہہ (laughter world)ہے۔ اکیسویں صدی میں پہنچ کر تہذیبِ انسانی کی ناکامی ہمیں ایک نیاپُرامید سبق دے رہی ہے، وہ یہ کہ ہم “دیوار‘‘ کے اِس طرف ناکام طورپر اپنی دنیائے قہقہہ بنانے کی کوشش نہ کریں، بلکہ “دیوار‘‘ کے دوسری طرف کی “دنیائے قہقہہ‘‘ میں اپنی سیٹ حاصل کرنے کی کوشش کریں، جو کہ بَروقت ہی ڈوائن نظام کے تحت “دیوار‘‘ کے دوسری طرف موجود ہے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom