خبرنامہ اسلامی مرکز— 183

1-پاکستان کے جیو (Geo TV) نے 25 اکتوبر 2007 کو اپنے اسٹوڈیو میں ایک پینل ڈسکشن رکھا۔ یہ ڈسکشن انگریزی میں تھا۔ اِس کا موضوع تھا— اسلامی شناخت (Islamic identity)۔ اِس ڈسکشن میں پاکستان کے تین پروفیسر شریک تھے۔ صدر اسلامی مرکز کو بھی اِس میں اِس طرح شریک کیاگیا کہ انھوں نے دہلی سے ٹیلی فون پر اپنا نقطۂ نظر بتایا اور اس کو ’جیو ٹی وی‘ کے پروگرام میں نشر کیاگیا۔ ان کے بیان کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلامی شناخت کا تعلق کلچر سے نہیں ہے، بلکہ کردار سے ہے۔ مسلمان کی پہچان اس کا اسلامی کردار ہے۔ حدیث (خالفوا الیہود والنّصاریٰ) کے بارے میں انھوں نے بتایاکہ اِس سے مراد دوسری قوموں کا کلچر نہیں ہے، بلکہ اِس سے مراد دوسری قوموں کی مذہبیعلامت(religous symbol) ہے۔ جیسے کہ مسیحی لوگوں کا اپنی گردن میں صلیب لٹکانا، وغیرہ۔

2-دور درشن (نئی دہلی) نے 12 نومبر 2007 کو صدر اسلامی مرکز کا ایک انٹرویو لیا۔ اِس کا موضوع — اسلام میں لڑکیوں کی تعلیم تھا۔ یہ انٹرویو 12 نومبر کی شام کو لائیو ٹیلی کاسٹ کے تحت نشر کیاگیا۔ جوابات کا خلاصہ یہ تھا کہ اسلام میں تعلیم کی اہمیت جس طرح مردوں کے لیے ہے، اُسی طرح عورتوں کے لیے ہے۔ چناں چہ آج سارے ملک میں مسلم لڑکیوں کی تعلیم کے لیے ہزاروں ادارے کھُلے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تعلیم کے بغیر عورت اپنا رول صحیح طورپر ادا نہیں کرسکتی۔

3-13نومبر 2007 کو ای ٹی وی (نئی دہلی) کی ٹیم نے صدر اسلامی مرکز کا ایک ویڈیو انٹرویو ریکارڈ کیا۔ یہ انٹرویو حج کے موضوع پر تھا۔ اِس انٹرویو کو 16 نومبر کی شام کو ساڑھے نو بجے نشر کیاگیا۔ حج کے بارے میں بتایا گیا کہ حج، اسلام کی ایک بہت بڑی عبادت ہے۔ یہ حضرت ابراہیم کے مشن اور پیغمبر اسلام کے مشن کے اتباع کا ایک عہد ہے۔ حج، امن اور اتحاد اور عالمی انسانیت کا پیغام ہے۔

4-سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 14 نومبر 2007 کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں مختلف اسکولوں کے پرنسپل حضرات شریک ہوئے۔ منتظمین کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اوراسلام اور بنیادی انسانی اَقدار کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ چوں کہ آنے والا حج (21 دسمبر2007) کا زمانہ قریب تھا۔ اِس لیے اِس تقریر میں حج کو لے کر مذکورہ موضوع کی وضاحت کی گئی۔ تقریر کے آخر میں سوال و جواب کا پروگرام ہوا۔ اِس موقع پر انگریزی میں چھپا ہوا اسلامی لٹریچر بھی لوگوں کے درمیان تقسیم کیا گیا۔ مثلاً(Reality of Life) کے نام سے چھپا ہوا پمفلٹ۔ اِس کے علاوہ لوگوں کو ویب سائٹ کے بارے میں بتایا گیا۔ لوگوں نے کہا کہ وہ اِس سے استفادہ کریں گے۔

5 25 -نومبر 2007 کو نئی دہلی میں انڈیا اور پاکستان کا کرکٹ میچ تھا۔ اِس موقع پر سی پی ایس انٹرنیشنل کے ایک ممبر نے دونوں طرف کے کھلاڑیوں کو صدر اسلامی مرکز کے لکھے ہوئے اردو اور انگریزی لٹریچردستی طورپر پہنچائے۔ کھلاڑیوں نے اس کو بہت شوق سے لیا اور اُس سے اپنی دل چسپی کا اظہار کیا۔

6-سائی انٹرنیشنل سنٹر (نئی دہلی) میں 5 دسمبر 2007 کو ایک پروگرام ہوا۔ اِس میں سنٹرل اسکولوں کے پرنسپل حضرات شریک تھے۔ اس کی دعوت پر صدر اسلامی مرکز نے اس میں شرکت کی اور اسلام میں بنیادی انسانی اقدار کے موضوع پر ایک تقریر کی۔ آخر میں سوالات کا جواب دیا۔ اِس موقع پر لوگوں کے درمیان انگریزی زبان میں اسلامی لٹریچر بھی تقسیم کیاگیا۔ لوگوں نے اس کو نہایت شوق سے لیا اور اپنی دل چسپی کا مظاہرہ کیا۔

7-پٹنہ بُک فئر(Book Fair)کا شمار ہندستان کے بڑے بک فئر میں ہوتا ہے۔ ہر سال کی طرح اِس سال بھی پٹنہ کے تاریخی گراؤنڈ ’گاندھی میدان‘ میں 7 تا 18 دسمبر2007 یہ بُک فئر منعقد کیا گیا۔ گڈورڈ بُکس (نئی دہلی) کا اسٹال بھی یہاں لگایا گیا۔ اِس کا انتظام شاہ عمران حسن نے سنبھالا۔ صدر اسلامی مرکز کا ہندی ترجمۂ قرآن (پوتر قرآن) تیسرے دن ہی ختم ہوگیا۔ ان کی دیگر کتابوں کو بھی لوگوں نے بہت شوق سے لیا۔ الرسالہ مشن سے وابستہ مقامی افراد مثلاً ابو الحکم محمد دانیال، حافظ عبد الرافع، وغیرہ نے بک اسٹال کو کامیاب بنانے میں اہم رول ادا کیا۔ بُک اسٹال پر صوبہ بہار کے معروف اور اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات تشریف لائے، جن میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل تھے۔ مثلاً ڈی ایس پی توحیدپرویز، پنڈت رام کرشن سوامی، وغیرہ۔ اس کے علاوہ امارتِ شرعیہ کے طلباء اور اساتذہ نے اسٹال پر تشریف لاکر اپنی خوشی کا اظہار فرمایا، اور وہاں سے بڑی تعداد میں صدر اسلامی مرکز کی کتابیں اور ماہ نامہ الرسالہ حاصل کیا۔ پٹنہ کے مشہور روزنامہ “قومی تنظیم‘‘ نے اپنے شمارہ 13 دسمبر 2007 میں حسب ذیل الفاظ میں اس کی رپورٹ شائع کی ہے:

کتاب میلہ (بک فئر) میں پوتر قرآن اور گاڈ ارائزز خصوصی توجہ کا مرکز

“اس کتاب میلہ کی جو سب سے قابل ذکر اور قابل غور بات ہے وہ یہ ہے کہ “پوتر قرآن‘‘ اور گاڈ ارائزز‘‘ (God Arises) نام کی کتاب لوگ خوب خرید رہے ہیں۔ یہ دونوں کتابیں دہلی کے ایک مشہور پبلشر گڈ ورڈ (Goodword) نے شائع کی ہیں۔ دونوں کتابیں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلم حضرات بھی شوق سے خرید رہے ہیں۔ “پوتر قرآن‘‘ قرآن کا سادہ اور سلیس زبان میں ترجمہ ہے جس کا ہدیہ دعوت کے مقصد سے صرف 25 روپیے رکھاگیا ہے اور “گاڈ ارائزز‘‘ عالم اسلام کے مشہور عالمِ دین اورمفکر مولانا وحید الدین خاں کی کتاب “مذہب اور جدید چیلنج‘‘ کا انگریزی ترجمہ ہے۔ اس میں سائنٹفک دلائل کی روشنی میں اسلامی عقائد اور اللہ تعالیٰ کے وجود کو ثابت کیا گیا ہے۔ یہاں ہم پھر سے یہ واضح کردیتے ہیں کہ “پوتر قرآن‘‘ کو سب سے زیادہ غیر مسلم حضرات خرید رہے ہیں۔ ساتھ ہی وہ خریدتے وقت اسلام کے بارے میں معلومات بھی حاصل کررہے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جیسے کتاب میلہ دعوت الی اللہ کا مرکز ہو۔ اس سے مسلمانوں کو سبق لینا چاہیے جو قرآن نہیں پڑھتے اور ان کو اس میلے سے فیض یاب ہونا چاہیے‘‘ (صفحہ 9)۔

8-مختلف لوگوں تک ماہ نامہ الرسالہ پہنچانے کے لیے بہت سے حضرات اپنی طرف سے اس کا مخلصانہ تعاون پیش کرتے ہیں۔ اِس سال (2008) سی پی ایس انٹرنیشنل کی ٹیم کے ایک ممبر نے انڈیا کے ایک سو سے زائد دینی مدارس کے نام ماہ نامہ الرسالہ بھجوانے کے لیے اس کا سالانہ زرِ تعاون دیا ہے۔ان مدارس کے نام ایک سال کے لیے الرسالہ جاری کر دیا گیا ہے۔ الرسالہ کے دعوتی مشن کو پھیلانے کا یہ بلاشبہہ ایک قابلِ تقلید نمونہ ہے۔

9-الرسالہ کا دعوتی لٹریچر خدا کے فضل سے مسلسل طورپر پھیل رہا ہے۔ سی پی ایس کی ٹیم کے ایک ممبر نے کچھ تعلیم یافتہ حضرات کے سامنے ’تذکیر القرآن‘ کا ایک نسخہ پیش کیا۔ انھوں نے اس پر ایک منفی ریمارک دیا۔ سی پی ایس کے مذکورہ ممبر نے ان سے کہا کہ آپ تذکیر القرآن کا ایک صفحہ پڑھیں۔ اس کے بعد کوئی ریمارک دیں۔ اِس کے بعد اُن حضرات نے تذکیر القرآن میں سورہ فاتحہ کی تشریح پڑھی، اور فوراً اس کی تین کاپیوں کے لیے نقد آرڈر روانہ کردیا۔ یہ ایک مثال ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ کوئی تحریک اگر اپنے آپ میں سچائی پر کھڑی ہو، تو سچائی کی یہ طاقت ہی زندہ اور سنجیدہ انسانوں کے لیے اس کی طرف سے اس کے کامل دفاع کے لیے کافی ہوجائے گی۔

10- Tuesday, 18 December 2007

I am delighted to read Al Risala, November 2007, which is exclusively about Asmaa’ Husna and Ism A‘zam. Many Thanks for considering the request of Kalim, and sharing your valuable thoughts on this important subject. The articles are well written and dispel many doubts in the minds of people. Also, they are very inspiring as you have laced the descriptions with real examples from Islamic history and your personal life. There is no doubt that your writings do convince a modern educated man and are in the style and idiom which he understands and appreciates. I pray for your long life and good health so that you may continue rendering this great service.

Al-Risala, November 2007, has been an eye opener for me, particularly. Now I very clearly understand what is a super du'aa' and what is invocation, as different from what we normally pray in which there is not much earnestness. The caption on the title page of Al Risala always fascinates me a great deal. However, the one on al Risala of November 07 is highly inspiring and is a statement of universal truth. Also, the way it gets linked up with the anecdote of Sultan ‘Abdur Rahman An-Nasir (d. 961 CE) is revealing. The story of Sir Syed Ahmad Khan (d. 1989) at the end of Al Risala (pp. 44-45) is very inspiring and educative.

It will be worthwhile to have this issue of Al Risala translated into English for wider circulation and the same could also be posted on the Internet. Such a useful writing must reach to as many people as possible. I hope someone will take up this job. (Shakil Ahmad Khan, Sharjah, UAE)

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom