دورِ امن کا آغاز

جنوری 2008 میں ایک غیر متوقع خبر میڈیا میں آئی۔ وہ یہ کہ متشددانہ جہاد کے لیڈر اسامہ بن لادن کے ایک بیٹے نے اعلان کیا کہ وہ اپنے باپ سے الگ ہوگئے ہیں اور اب وہ امن کے لیے کام کریں گے۔عمر بن اُسامہ کی عمر 26 سال ہے۔ انھوں نے ایک انگریز خاتون (Jane Felix-Browne) سے شادی کی ہے۔ اُن کا موجودہ نام زَینہ الصباح (Zaina Alsabah) ہے۔ خاتون کی عمر 52 سال ہے۔ عمر بن اسامہ نے یہ اعلان کیا ہے کہ میرے باپ اسامہ بن لادن نے تشدد کا طریقہ اختیار کیا۔ مگر وہ طریقہ غلط تھا۔ اب میں مسلمان اور مغربی دنیا کے درمیان ایمبیسڈر آف پیس (ambassador of peace) کا کردار ادا کروں گا۔انھوں نے کہا کہ اِس مقصد کے لیے وہ نارتھ افریقہ میں پانچ ہزار کلو میٹر کی ایک ہارس ریس (horse race) کریں گے۔ انگریزی اخبار (The Times of India) کے شمارہ 19 جنوری 2008 میں یہ خبر اِس عنوان کے تحت چھپی ہے— اسامہ کا بیٹا امن کا پیام بَر بننا چاہتا ہے:

Osama’s son wants to be a peacenik

انھوں نے کہا کہ— اسلام کے دفاع کے لیے القاعدہ کی اختیار کردہ ملیٹنسی سے زیادہ بہتر طریقہ اسلام میں موجود ہے:

There is a better way to defend Islam, than Al-Qaida’s militancy (p. 22)

عمر بن اسامہ بن لادن نے مذکورہ بات اسوسی ایٹیڈ پریس (A.P.) کے ساتھ اپنے انٹرویو میں کہی تھی۔ اس کے بعد مشہور ٹی وی چینل سی این این(CNN) نے اُن سے انٹرویو لیا۔ یہ انٹرویو مختلف اخبارات میں شائع ہوا ہے۔ نئی دہلی کے انگریزی اخبار ٹائمس آف انڈیا (23جنوری 2008) نے اِس کی رپورٹ مندرجہ ذیل عنوان کے تحت چھاپی ہے:

Osama's son wants father to
'give up violence, find another way'

Washington: Elusive al-Qaida mastermind Osama-bin Laden may have terrorised the world, but his 26-year-old son Omar wants to launch ‘‘a movement of peace” and wishes his father will give up violence and find ‘‘another way” to pursue his goals. Omar, who last saw Osama in 2000 when he decided to leave al-Qaida, said he did not think his father was a terrorist and was sure that he must have felt ‘‘very sorry” for the September 11 attacks. In interviews to US news channels, Omar, who works as a contractor, however, expressed apprehensions that his father ‘‘doesn't have the power to stop the movement at this moment.” Omar, who is the fourth of 11 children born to his Osama's first wife and one of 19 children the al-Qaida leader has fathered, said he is talking publicly because he wants an end to the violence his father has inspired by launching a movement for peace. ‘‘I try and say to my father: “Try to find another way to help or find your goal. This bomb, this weapons, it’s not good to use it for anybody,” he told CNN in broken English. He said that’s not just his own message, but one that a friend of his father's and other Muslims have expressed to him. ‘‘They too say... my father should change (his) way” He said he has no idea where his father is, but is confident he will never be caught because locals support him. Omar, who has has little in common with his father except his looks minus the beard, grabbed headlines when he married a British national twice his age. ‘‘Being Osama's son, I don't hide it. I don't hide my name,” he said. ‘‘I am proud of my name, but if you have a name like mine you will find people run away from you, are afraid of you.” Omar said he doesn't consider his father to be a terrorist. When his father was fighting the Soviets, Washington considered him a hero, he said.‘‘Before they call it war; now they call it terrorism,” he said. He said his father believes his duty is to protect Muslims from attack. ‘‘He believes this is his job - to help the eople,” he said. PTI

یہ خبر علامتی طورپر تاریخ میں ایک نئے دور کا اعلان ہے— دورِ تشدد کا خاتمہ، اور دورِ امن کا آغاز۔ یہ نیا دور نظریاتی طورپر شروع ہوچکا ہے۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جب کہ عملی طور پر بھی وہ دنیا میں قائم ہوجائے گا۔

بیسویں صدی عیسوی میں تاریخ کی دو سب سے بڑی جنگیں لڑی گئیں، پہلی عالمی جنگ، اور دوسری عالمی جنگ۔ اِن جنگوں میں تقریباً 60 ملین انسان ہلاک ہوگئے۔ اِس عظیم ہلاکت کے بعد انسان کا ضمیر عام طورپر جنگ کے خلاف ہوگیا۔ اِس کے بعد جب دنیا میں عمومی تباہی کے ہتھیار (weapons of mass destruction) آگئے، تو یہ سمجھا جانے لگا کہ اب اِس کا امکان ختم ہوگیا کہ جنگ کے ذریعے کوئی مثبت مقصد حاصل کیا جاسکے۔

اِس عالمی پس منظر کا اثر مسلمانوں کی مسلّح جدوجہد پر بھی پڑا۔ موجودہ زمانے کے مسلمانوں نے مسلّح جہاد کے نام پر اپنی جان اور اپنے مال کی جو قربانی دی ہے، وہ پوری تاریخ کی تمام قربانیوں سے بھی زیادہ ہے۔ اکیسویں صدی میں پہنچ کر مسلم دنیا میں یہ احساس عام ہوچکا ہے کہ مسلّح جدوجہد اب مسلمانوں کے لیے کوئی قابلِ انتخاب چیز نہیں۔ اِس پس منظر میں اسامہ بن لادن کے بیٹے کامذکورہ اعلان گویا کہ پوری ملت کی طرف سے ایک نمائندہ اعلان ہے۔ اب تقریباً یقینی ہے کہ تمام دنیا کے مسلمان جنگ اور تشدد کے راستے کو چھوڑ کر امن اور مفاہمت کا طریقہ اختیار کریں گے اور پھر اپنے مقصد کو زیادہ بہتر طور پر حاصل کر لیں گے۔

تیرھویں صدی عیسوی میں یہ واقعہ پیش آیا کہ تاتاری قبائل نے اُس زمانے کی عبّاسی سلطنت کو تباہ کردیا اور مسلم دنیا کے اوپر اپنا اقتدار قائم کرلیا۔ مگر اِس کے بعد صرف پچاس سال کے اندر یہ واقعہ پیش آیا کہ تاتاریوں کی اکثریت اسلام میں داخل ہوگئی۔ جو لوگ پہلے بظاہر اسلام کے دشمن بنے ہوئے تھے، وہ اب اسلام کے سپاہی بن گئے۔ اِس حیرت ناک تاریخی واقعے کا اعتراف ایک مؤرخ نے اِن الفاظ میں کیا ہے— مسلمانوں کے مذہب نے وہاں فتح حاصل کرلی، جہاں اُن کے ہتھیار ناکام ہوچکے تھے:

The religion of Muslims have conquered, where their arms had failed.

بظاہر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ تاریخ دوبارہ دہرائی جانے والی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دوسرا عمل (process) بطور واقعہ شروع ہوچکا ہے۔ آج کل میڈیا میں مسلسل یہ خبریں آرہی ہیں کہ ساری دنیا میں، خاص طور پر مغربی ممالک میں،لوگ تیزی سے اسلام قبول کررہے ہیں۔ برطانیہ اور امریکا میں یہ تعداد بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ بظاہرِ حالات، یقین کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ عمل اب رکنے والا نہیں۔

اسلام کی یہ فکری اشاعت کوئی اتفاقی بات نہیں۔ وہ موجودہ زمانے کے حالات کا ایک فطری نتیجہ ہے۔ موجودہ زمانے میں سائنس کے زیر اثر توہماتی طرزِ فکر کا خاتمہ ہوگیا۔ لوگ قدیم طرز کے تعصّباتی مزاج سے بلند ہو کر مذاہب کا تقابلی مطالعہ کرنے لگے۔ جدید کمیونکیشن نے اسلام کی معلومات کو ہر آدمی کے لیے قابلِ حصول بنا دیا۔ موجودہ زمانہ جس کو گلوبلائزیشن کا زمانہ کہاجاتا ہے، وہ دراصل گلوبل انٹریکشن کا زمانہ تھا۔ اِس کے نتیجے میں یہ ہوا کہ مسلمان ساری دنیا کے لوگوں سے ملنے لگے، اور اِس طرح انٹریکشن کے دوران اسلام کا پیغام عالمی سطح پر لوگوں تک پہنچنے لگا، وغیرہ۔

اِس طرح کے مختلف واقعات جو موجودہ زمانے میں پیش آئے، وہ سب کے سب اسلام کے لیے ایک موافق زمین بنانے کے ہم معنٰی تھے۔ ظاہری سطح پر خواہ کتنے ہی غیر موافق اسباب دکھائی دیتے ہوں، لیکن حقیقت کے اعتبار سے جدید دنیا براہِ راست یا بالواسطہ طورپر اسلام کی موافقت میں تھی۔ جدید دنیا کا یہ مثبت پہلو اب بطور واقعہ دکھائی دینے لگا ہے۔ اسلامی دعوت اب خود تاریخی عمل (historical process) میں شامل ہوچکی ہے، اور جو فکر خود تاریخی عمل میں شامل ہوجائے، اُس کا اپنے آخری انجام تک پہنچنا اتنا ہی ممکن ہوجاتا ہے جتنا کہ رات کے بعد سورج کا نکلنا۔

موجودہ زمانے میں مسلمانوں نے جو مسلّح جہاد شروع کیا، وہ اسلامی دعوت کے اعتبار سے کاؤنٹر پروڈکٹیو (counter productive) بن گیا۔ مسلمانوں نے جن قوموں کے خلاف مسلح جہاد شروع کیا، وہ سب اسلامی دعوت کے اعتبار سے مدعو قومیں تھیں، یعنی مسلمان داعی تھے اور وہ مدعو۔ اسلامی دعوت کا تقاضا تھا کہ داعی اور مدعو کے درمیان معتدل تعلقات قائم ہوں۔ کیوں کہ جب داعی اور مدعو کے درمیان معتدل تعلقات ہوں، تو دعوت کا عمل کسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہتا ہے۔ اور جب داعی اور مدعو کے درمیان معتدل تعلقات باقی نہ رہیں، تو دعوت کا عمل بھی ختم ہوجاتا ہے۔

بیسویں صدی عیسوی پوری کی پوری مسلمانوں کی طرف سے مدعو قوموں کے خلاف مسلح جہاد کی صدی تھی۔ یہ مسلح جہاد خدا کے منصوبے کے خلاف تھا، اِس لیے وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ اب جان و مال کی تباہی کے بعد مسلمان مجبور ہوچکے ہیں کہ وہ مسلح جہاد کے اِس عمل کو چھوڑ دیں۔ حالات بتاتے ہیں کہ اب عملاً اِس کا آغاز ہوچکا ہے۔

غیر مطلوب مسلح جہاد کا ختم ہونا، اپنے آپ میں دعوتی عمل کا آغاز ہے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ جب حالات معتدل ہوجائیں تو لوگ کسی نفسیاتی رکاوٹ کے بغیر اسلام کا مطالعہ شروع کردیتے ہیں، اور عین اپنی فطرت کے مطابق پا کر اس کو اختیار کرلیتے ہیں۔ بیسویں صدی اگر غیرمطلوب مسلح جہاد کی صدی تھی، تو اکیسویں صدی مطلوب دعوت کی صدی ہے۔ جیسا کہ قرآن میں بتایا گیا ہے، تشدد کا خاتمہ اور امن کا آغاز اہل اسلام کے لیے فتحِ مبین (الفتح: 1) کی حیثیت رکھتا ہے۔

واقعات بتاتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں کمیونکیشن کی ترقی اپنے آپ اسلامی دعوت کا ذریعہ بن گئی ہے۔ خلیجی جنگ (1991) کے دوران امریکا کے فوجی بڑی تعداد میں مصر اور عرب ملکوں میں گئے۔ ان کا انٹریکشن مسلمانوں سے ہو۔ اِس دوران تقریباً پانچ ہزار امریکی فوجیوں نے اسلام قبول کرلیا۔ یہ واقعہ موجودہ زمانے میں ہر جگہ ہورہا ہے۔ فی الحال یہ واقعہ زیادہ تر اپنے آپ ہورہا ہے۔ اِ س عمل میں ماڈرن کمیونکیشن عملاً دعوت کا ذریعہ بنا ہوا ہے۔

گویا کہ ماڈرن کمیونکیشن کے زمانے میں دعوت کا کام خود تاریخی عمل (historical process) کا حصہ بن چکا ہے۔ اب مسلمانوں کو صرف یہ کرنا ہے کہ وہ اِس تاریخی عمل میں اپنے آپ کو شامل کردیں۔ تاکہ جو کام اپنے آپ ہورہا ہے، وہ مزید شدت کے ساتھ براہِ راست کو شش کے ذریعے ہونے لگے۔ اور دعوت کا قافلہ بہت جلد اپنی مطلوب منزل تک پہنچ جائے۔ یہ مطلوب منزل، حدیث کے الفاظ میں یہ ہے کہ — اسلام کا کلمہ رُوئے زمین کے تمام چھوٹے اور بڑے گھروں میں داخل ہوجائے، کوئی بھی عورت یا مرد خدائی پیغام سے بے خبر نہ رہے (لایبقیٰ علیٰ وجہ الأرض بیت مدر ولا وبر، إلاّ أدخلہ اللہ کلمۃ الإسلام

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom