جدالِ احسن کیا ہے

جِدال (discussion) کے دوطریقے ہیں۔ ایک، احسن اور د وسرا، غیر احسن۔ جدالِ احسن یہ ہے کہ زیر بحث مسئلے پر مسلّمہ دلیل کی روشنی میں اظہارِ خیال کیا جائے۔ مثلاً حضرت ابراہیم کا معاصر بادشاہ خدائی کا دعوے دار تھا۔ آپ نے اس کے دعوے کو بے بنیاد ثابت کرنے کے لیے کہا کہ خدا، سورج کو مشرق سے نکالتا ہے، تم اس کو مغرب سے نکال دو (البقرۃ: 258)۔ سورج کا مشرق سے نکلنا اور مغرب میں ڈوبنا مسلمہ طورپر ایک برتر طاقت کا عمل تھا، اِس لیے مذکورہ بادشاہ اس کے مقابلے میں مبہوت ہو کر رہ گیا۔

جدالِ غیر احسن یہ ہے کہ آپ فریقِ ثانی کے خلاف کوئی مسلّمہ دلیل نہ دیں، اِس کے برعکس، آپ یہ کریں کہ اُس کے خلاف صرف منفی ریمارک(negative remark) دیں، لفظی طورپر اس کی مذمت کریں اور بیانیہ انداز میں اس کو غلط بتائیں۔ یہ جدالِ غیر احسن ہے، اِس سے کبھی مطلوب نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ اِسی قسم کے جدالِ غیر احسن سے مسلمانوں کو روکنے کے لیے قرآن میں یہ حکم دیاگیا کہ: اور اللہ کے سوا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں، اُن کو تم بُرا نہ کہو، ورنہ یہ لوگ حد سے گزر کر جہالت کی بنا پر اللہ کو بُرا کہنے لگیں گے (الأنعام: 109)۔

قرآن، توحید کی کتاب ہے۔سارا قرآن براہِ رست یا بالواسطہ طورپر، توحید کا بیان ہے، مگر یہ تمام بیانات دلائل کی زبان میں ہیں۔ کیوں کہ دلیل کی زبان ہی میں کوئی قول، قولِ بلیغ(النساء:63) بنتا ہے۔ مگر قرآن میں اس کو پسند نہیں کیاگیا کہ کوئی شخص توحید کے مسئلے کو سب وشتم کی زبان میں بیان کرے۔ کیوں کہ ایسے اسلوب سے مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوسکتا۔ ایسے اسلوب کا نتیجہ ہمیشہ منفی ہوتا ہے، ایسے اسلوب کے ذریعے کبھی مثبت نتیجہ حاصل نہیں کیا جاسکتا۔

جدالِ غیر احسن کے اِس معاملے کی ایک مثال حدیث ِ رسول میں یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مدینہ کے ایک یہودی اور مسلمان کے درمیان نبوت کے مسئلے پر تکرار ہوئی۔ یہودی نے کہا: إن اللہ اصطفیٰ موسیٰ علی العالمین (اللہ نے موسیٰ کو تمام دنیا والوں پر افضل بنایا)۔ اِس کو سن کر مسلمان نے یہودی کو تھپڑ مارا اور کہا کہ تم غلط کہتے ہو، اللہ نے محمد کو تمام دنیا والوں پر افضل بنایا ہے (إنّ اللہ اصطفیٰ محمداً علی العالمین

اِس کے بعد مذکورہ یہودی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اوراس نے آپ سے اِس معاملے کی شکایت کی۔ اِس کو سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غضب ناک ہوگئے، یہاں تک کہ غضب آپ کے چہرے پر ظاہر ہوگیا۔ آپ نے کہا کہ اللہ کے نبیوں کو ایک دوسرے پر افضل نہ بتاؤ (لا تفضلوا بین أنبیاء اللہ)، کیوں کہ قیامت کے دن صور پھونکا جائے گا، تو زمین اور آسمان کے تمام لوگ بے ہوش ہوجائیں گے، سوا اس کے جس کو خدا چاہے۔ پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا، پھر میں پہلا شخص ہوں گا جو ہوش میں آکر کھڑا ہوگا۔ پھر میں دیکھوں گا کہ موسیٰ عرشِ الٰہی کو پکڑ کر کھڑے ہوئے ہیں۔ میں نہیں جانتا کہ وہ بے ہوش ہوئے تھے اور پھر ہوش میں آگئے، یا اللہ نے اُن کو بے ہوشی سے مستثنیٰ رکھا (صحیح البخاری ومسلم، بہ حوالہ: جامع الأصول فی أحادیث الرسول، رقم الحدیث:6308)۔

اِس روایت میں قابلِ غور بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کو کچھ نہیں کہا، آپ نے یہودی کو “گستاخِ رسول‘‘ قرار نہیں دیا۔ آپ اُس وقت مدینہ میں حاکم کی حیثیت رکھتے تھے۔ اس کے باوجود آپ نے اِس معاملے میں یہودی کی طرف سے بالکل صرفِ نظر فرمایا۔ آپ نے صرف مسلمان کو نصیحت کی۔ آپ نے مسلمان کو ہمیشہ کے لیے اِس قسم کے رویّے سے باز رہنے کا حکم دیا۔

دوسری بات جو اِس واقعے سے معلوم ہوتی ہے، وہ یہ کہ اسلام میں تفضیل اور تفاخر کی زبان استعمال کرنا مطلقاً ممنوع ہے۔ اہلِ ایمان کو جس طرح سب وشتم کی زبان سے مکمل طورپر بچنا ہے، اُسی طرح اُن کے لیے ضروری ہے کہ وہ تفضیل اور تفاخر کی زبان سے مکمل طورپر اپنے آپ کو دور رکھیں۔

سب وشتم کی زبان اگر نفرت کا ماحول پیدا کرتی ہے تو تفضیل اور تفاخر کی زبان استعمال کرنے سے بے جا فخر کی نفسیات پیداہوتی ہے۔ اور دونوں ہی کا مشترک نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے درمیان معتدل تعلقات ختم ہوجاتے ہیں، اور جہاں لوگوں کے درمیان معتدل تعلقات نہ ہوں، وہاں دعوت کا عمل بھی موثر طورپر جاری نہیں رکھا جاسکتا۔

مدینہ کا مذکورہ واقعہ گویا کہ اسلام کی تاریخ میں پہلا مناظرہ (debate) تھا۔ اس واقعے سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ مناظرے کا طریقہ اسلامی طریقہ نہیں، مناظرہ جاہلیت کا طریقہ ہے۔ مناظرہ گویا کہ اسٹیج پر کیا ہوا لفظی دَنگل ہے۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ لفظی دنگل کا کوئی فائدہ کسی کو نہ دنیا میں ملنے والا ہے اور نہ آخرت میں۔ اِس قسم کا طریقہ کسی شخص کو عوامی مقبولیت دے سکتا ہے، لیکن اسلام کو یااسلامی دعوت کو اس سے کوئی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں۔

جدال (discussion) کا مقصد اسلامی تعلیم کے مطابق یہ ہے کہ فریقِ ثانی کو مطمئن (convince) کیا جائے۔ اسلام کے مطابق، جدال کامقصد یہ نہیں ہے کہ فریقِ ثانی کو شکست دے دی جائے اور پھر تالیاں بجا کر بطور خود یہ فرضی خوشی حاصل کی جائے کہ ہم نے دوسرے کو ہرا کر اس کے اوپر جیت حاصل کرلی۔

اسلامی جدال یادعوتی کلام کا اصل محرک فریقِ ثانی کے لیے خیر خواہی (well-wishing)ہے، یعنی فریقِ ثانی کو مطمئن کرکے اُس کو اِس قابل بنانا کہ وہ خدا کی رحمت کے سایے میں آجائے۔ دعوتی کلام فریقِ ثانی کے لیے درد مندی کے جذبے کے تحت نکلتا ہے، اور مناظرانہ کلام فریقِ ثانی کو کسی نہ کسی طرح ہرانے کے جذبے سے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom