موت کا شعور

لوگ دیکھتے ہیں کہ ہر پیدا ہونے والا محدود مدت کے بعد مرجاتاہے۔ اِس کے باوجود یہ نہایت عجیب بات ہے کہ کوئی شخص خود اپنی موت کے بارے میں نہیں سوچتا۔ وہ دوسروں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے، مگر خود اپنی موت کے بارے میں وہ غفلت میں پڑا رہتا ہے۔ موجودہ زمانے میں ڈی این اے (DNA) کی دریافت اِس سوال کا جواب ہے۔ یہ ایک نئی سائنس ہے۔ اِس پر دنیا کے بڑے بڑے دماغوں نے کام کیا ہے۔ اِس میں انڈیا کے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر ہرگوبند کھورانا (85سال) کانام بھی شامل ہے۔ اِس جدید تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ ہر انسان کے جسم میں تقریباً ایک سو ٹریلین سیل (living cells) ہوتے ہیں۔ ہر سیل کے نیوکلیس میں ایک ناقابلِ مشاہدہ ڈی این اے موجود رہتا ہے۔ ڈی این اے کے اندر انسانی شخصیت کے بارے میں تمام چھوٹی بڑی معلومات کوڈ کی صورت میں موجود رہتی ہیں۔ یہ معلومات اتنی زیادہ ہوتی ہیں کہ اگر اُن کو ڈی کوڈ (decode) کیا جائے، تو وہ برٹانکا جیسی ضخیم انسائکلو پیڈیا کے ایک ملین سے زیادہ صفحات پر مشتمل ہوں گی:

One human DNA molecule contains enough information to fill a million-page encyclopaedia.

ڈی این اے کے اندر انسانی شخصیت کے بارے میں تمام معلومات درج ہوتی ہیں، مگراِس فہرست میں صرف ایک استثنا ہے اور وہ موت ہے۔ ڈی این اے کی طویل فہرست موت کے تصور سے خالی ہے۔ موت کا تصور انسانی شخصیت (human consciousness) میں موجود نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آدمی دوسروں کو مرتے ہوئے دیکھتا ہے، لیکن وہ خود اپنی موت کے بارے میں سوچ نہیں پاتا۔ یہی انسان کا امتحان ہے۔ موت کسی شخص کے اوپر ڈی این اے کی پروگریمنگ کے تحت نہیں آتی، بلکہ وہ براہِ راست خدائی فیصلے کے تحت آتی ہے۔ کامیاب انسان وہ ہے جو اپنے اندر اینٹی پروگریمنگ سوچ پیدا کرے۔ وہ خدائی فیصلے کی نسبت سے موت کے معاملے کو دریافت کرلے اور اس کے مطابق، اپنی زندگی کی منصوبہ بندی کرے۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom