دعوت اور انگریزی

موجودہ زمانے میں انگریزی زبان ایک انٹرنیشنل زبان(international language) کی حیثیت رکھتی ہے۔ کمپیوٹر انقلاب (computer explosion) کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ دنیا کی آبادی کے تقریباً 75 فی صد لوگوں کے لیے انگریزی زبان رابطے کی زبان (link language) بن گئی ہے۔ انگریزی زبان کے اِس پھیلاؤ کی بنا پر ایسا ہوا ہے کہ دعوت الی اللہ کے کام کے لیے انگریزی زبان کو جاننا داعی کی ایک لازمی ضرورت بن گیا ہے۔

لیکن موجودہ زمانے میں جس طرح انگریزی زبان کو عمومی پھیلاؤ حاصل ہوا ہے، اِسی طرح ایک اور چیز ہے جس کو موجودہ زمانے میں بہت زیادہ پھیلاؤ حاصل ہوا ہے، یہ دوسری چیز سائنٹفک تھنکنگ ہے۔ موجودہ زمانے میں موثردعوتی عمل کے لیے صرف انگریزی زبان جاننا کافی نہیں۔ اِسی کے ساتھ لازمی طورپر ضروری ہے کہ آدمی یہ جانے کہ جدید فکر (modern thought) کیا ہے۔ وہ کیا چیز ہے جس کو سائنسی استدلال (scientific reasoning) کہاجاتا ہے۔

جب آپ کسی شخص کے اوپر دعوتی عمل کریں تو اُس وقت دو چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک، یہ کہ بہ اعتبارِ زبان آپ کی بات مدعو کے لیے قابلِ فہم ہو۔ دوسرے، یہ کہ آپ کا استدلال مدعو کے اپنے مسلّمہ (axiom) پر مبنی ہو، تاکہ وہ مدعو کے ذہن کو ایڈریس کرسکے۔

داعی اگر صرف انگریزی زبان جانتا ہو، لیکن وہ جدید اصولِ استدلال سے ناواقف ہو تو اس کی بات مدعو کی سمجھ میں تو آئے گی، لیکن وہ اس کے دل میں نہیں اترے گی۔ وہ اس کے ذہن کو مطمئن نہیں کرے گی۔ وہ اس کے اندر وہ فکری بھونچال نہیں پیدا کرے گی جس کے بعد آدمی اپنی سوچ پر نظرِ ثانی کرنے کے لیے تیار ہوجاتا ہے۔ جس دعوتی عمل میں پہلی چیز موجود ہو، لیکن دوسری چیز موجود نہ ہو، وہ حقیقی معنوں میں دعوتی عمل نہیں۔ کیوں کہ حقیقی دعوت کی تعریف قرآن میں یہ کی گئی ہے کہ وہ قولِ بلیغ (النّساء: 63) کے اسلوب میں ہو، یعنی ایسا اسلوبِ دعوت جو مدعو کے مائنڈ کو ایڈریس کرنے والا ہو۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom