قرآن کتابِ دعوت
قرآن ایک کتاب دعوت ہے۔ ساتویں صدی عیسوی کے رُبع اول میں جب قرآن اترا تو اُس وقت قرآن ہی دعوت کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ رسول اور اصحابِ رسول کے طریقِ تبلیغ کے متعلق روایات میں آتا ہے:عرض علیهم الاسلام، وتلا علیهم القرآن (انھوں نے لوگوں کے سامنے اسلام پیش کیا اور قرآن کا کچھ حصہ ان کو پڑھ کر سنایا)۔
انگریزی زبان موجودہ زمانے میں انٹرنیشنل زبان سمجھی جاتی ہے۔ انگریزی زبان میں قرآن کے تقریباً 50 ترجمے موجود ہیں۔ مگر قومي ذهن كي بنا پر يه انگریزی ترجمے مدعو فرینڈلی زبان (Mad‘u-friendly language) میں تيار نه هوسكے۔ اِسي ضرورت كي تكميل كے ليے لمبی کوشش کے بعد سی پی ایس انٹرنيشنل (نئي دهلي) نے 2008میں انگریزی زبان کا ایک نیا ترجمہ قرآن شائع کیا ہے۔ یہ ترجمہ مدعو فرینڈلی زبان میں تيار كياگياہے۔ چناںچہ جن غیرمسلم حضرات تک یہ ترجمہ پہنچتا ہے، وہ اس کو شوق سے لیتے ہیں اور دلچسپی کے ساتھ اس کو پڑھتے ہیں۔واشنگٹن (امریکا) کے ایک ادارہ:
Pew Forum on Religion and Public Life
کے ایک حالیہ سروے میں بتایا گیاہے کہ اِس وقت دنیا کی آبادی میں مسلمانوں کی تعداد ڈیڑھ بلین سے زیادہ ہے۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ— موجودہ انسانی آبادی میں ہر چار میں سے ایک شخص مسلمان ہے:
World over, 1in 4 persons is a Muslim.
اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر مسلمان اگر یہ فیصلہ کرے کہ وہ کم ازکم چار غیر مسلموں تک قرآن پہنچائے گا تو نہایت محدود مدت میں قرآن دنیا کے تمام مردوں اور عورتوں تک پہنچ جائے گا۔
واضح هو كه دعوت كا مقصد كنورژن (conversion) نهيں هے۔ دعوت كا مقصد انذار وتبشير (19:97) هے، اور قرآن پهنچانے كے بعد يه كام بلاشبهه اصولي طورپر انجام پا جاتا هے۔ داعي كا كام خدا كے پيغام كو پُرامن انداز ميں مدعو تك پهنچا دينا هے۔ اِس كے بعد يه مدعو كي ذمے داري هے كه وه اس كے بارے ميں كيا رسپانس ديتا هے۔
حدیث میں بتایا گیا ہے کہ قیامت کے قریب ہر گھر میں اسلام كا كلمه پہنچ جائے گا۔ اِس حدیث میں کلمۂ اسلام سے مراد خداکی کتاب قرآن ہے۔ اب ہر مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ادخالِ کلمہ کے اِس عمل میں اپنا حصہ ادا کرے— یہ دعوتِ اسلام کا ایک ایسا طریقہ ہے جو بلاشبہہ ہر مسلمان کے لیے ممکن ہے، خواہ وہ تعلیم یافتہ ہو یا غیر تعلیم یافتہ۔