دعوت اور عمل

عام طورپريه كها جاتا هے کہ ’’پهلے مسلمانوں کی اصلاح کرو، جب ان کی اصلاح ہوجائے گی تو لوگ ان كوديكھ كر خود بخود اسلام قبول کرلیں گے‘‘ اصولی اعتبار سے یہ بات درست نهيں۔حقیقت یہ ہے کہ دعوت اپنے آپ میں ایک ذمّے داری ہے۔ دعوت کا کام ہر حال میں کرنا ہے، جس طرح نماز ہر حال میں پڑھنا ہے۔ کوئی بھی عذر دعوتی فریضے کی ادائیگی سے باہر رہنے کے لیے کافی نہیں۔ اِس طرح كے لوگ اگر اپنے نظریے کو درست سمجھتے ہیں تو وہ تارکینِ صلوٰۃ سے نماز پڑھنے کے لیے بھی نہ کہیں، وہ یہ کریں کہ وہ خود نماز پڑھیں اور یہ یقین کریں کہ لوگ ان کو دیکھ کر اپنے آپ نماز پڑھنے لگیں گے۔

یہ ایک بے بنیاد مفروضہ ہے کہ مسلمان اگر درست هو جائیں تو غیرمسلم صرف ان کو دیکھ کرهي اسلام قبول کرلیں گے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ دنیا میں ایک لاکھ سے زیادہ پیغمبر آئے، اور یہ پیغمبر مسلّمہ طور پر اخلاق کے اعلیٰ معیار پر تھے۔ مگر ایسا نہیں ہوا کہ پیغمبروں کو دیکھ کر لوگ خدا کے دین کو اختیار کرلیں۔ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ اور دوسرے تمام پیغمبروں کا وہ حال ہوا جس کو قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے—  یا حسرۃً علی العباد ما یأتیہم من رسول إلا کانوا بہ یستہزؤن (36:30)

اصل یہ ہے کہ آدمی جب کسی کو نیکی کی تلقین کرے تو سنجیدگی کا تقاضا ہے کہ وہ خود بھی اس پر کاربند ہو۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ عمل، دعو ت کی شرط ہے۔ دعوت کا کام ہر حال میں جاری رکھا جائے گا، خواہ داعی اس پر عامل ہو یا نہ ہو۔

مفسرابن کثیر نے سورۃ البقرہ آیت 44کے تحت لکھا ہے کہ ’’معروف کی تلقین کرنا اور اس پر عمل کرنا دونوں واجب ہیں۔ ان میں سے کوئی ایک دوسرے کے ترک سے ساقط نہیں ہوتا۔ علماءِ سلَف اور علماءِ خلَف کا صحیح ترین قول یہی ہے۔

حقيقت یہ ہے کہ عالم معروف کی تلقین کرے گا، اگرچہ وہ اس پر عمل نہ کرتا ہو، اور وہ منکر سے روکے گا، اگر چہ وہ خود اس کا مرتکب ہو۔سعيد ابن جبير تابعي نے درست طور پر كها كه اگر ایسا ہوتا کہ آدمی صرف اُس وقت معروف کی تقلین کرے اور منکر سے روکے جب کہ اس کے اندر کوئی منكر نہ پاياجارہا ہو تو کسی شخص نے بھی معروف کی تلقین نہ کی ہوتی اور نہ وہ منکر سے روکتا‘‘۔ (تفسیر ابن کثیر1/85)

اصل یہ ہے کہ دعوت احساسِ ذمے داری کے تحت ظاہر ہونے والا عمل ہے، نہ کہ احساسِ صالحیت کے تحت۔ مدعوجب اپنے دین کو چھوڑکر اسلام کو اختیار کرتا ہے تو وہ اسلام کی اپنی صداقت کی بنا پر ایسا کرتا ہے، نہ کہ مسلمانوں کو باعمل دیکھ کر۔ اگر داعی کے باعمل ہونے کو دیکھ کر لوگ حق کو قبول کرتے تو تمام انبیا کے گِرد انسانوں کی بھیڑ دکھائی دیتی۔ مگر معلوم ہے کہ پیغمبر آخر الزماں کے سوا کسی بھی پیغمبر کے گرد انسانوں کی کوئی بڑی جماعت اکھٹا نہیں ہوئی۔ اَعدادو شمار کے مطابق، ہر سال صرف امریکا میں تقریباً ایک لاکھ غیر مسلم اسلام میں داخل ہوتے ہیں۔ اگر یہ درست ہے کہ مسلمانوں کو باعمل دیکھ کر لوگ اسلام میں داخل ہوتے ہیں، تو کیا موجوده زمانے ميں امریکا اور دوسرے مقامات پر رہنے والے مسلمان ایسے ہی باعمل ہیں جنھیںصرف دیکھ کر غیر مسلموں کی اتنی بڑی تعداد اسلام میں داخل ہوجائے۔

اصل یہ ہے کہ دعوت ہر حال میں اور ہر شخص کو دینا ہے۔ دعوت کے لیے عمل کی شرط نہیں لگائی جاسکتی۔البیہقی اور ابن عساکر نے جابر بن عبداللہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت حُذیفہ نے ہم سے کہا کہ ہم اس علم (دین حق) کے حامل بنائے گیے تھے، اس کو ہم تمھیں دے رہے ہیں، اگر چہ ہم خود اس پر عمل نہ کرسکے:  إنا حملناهذا العلم، وإنّا نؤدّیہ إلیکم وإن کنا لا نعمل بہ(حیاۃ الصحابۃ 3/268 )

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom