دعوت الی اللہ
امت مسلمه كي ذمّے داری
قرآن کی سورہ البقرہ میں امتِ محمدی کو ’امتِ وسَط‘ (2:143) کہاگیا ہے، یعنی بیچ کی امت (middle community)۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ امتِ محمدی، رسول اورعام انسانوں کے درمیان ہے۔ اُس کو رسول سے جو خدائی ہدایت ملی ہے، اس کو نسل درنسل تمام انسانوں تک پہنچانا ہے۔ قرآن کی اِس آیت میں ’وسط‘ کا لفظ استعمالی معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے اصل معنی میں ہے، یعنی درمیانی امت کے معنی میں۔ اِس آیت میں امتِ وسط کا لفظ امت کے مشن یا اس کی داعیانہ ذمے داری کو بتا رہا ہے، وہ ہر گز کسی قسم کی پراسرار فضیلت كا بيان نہیں۔
قرآن کی اِس آیت میں امت محمدی کے داخلی اوصاف کو بیان نہیں کیاگیا ہے، بلکہ اِس میں امت کی خارجی ذمے داری کو بیان کیا گیا ہے۔ وہ خارجی ذمے داری یہ ہے کہ امت، اللہ کے نقشۂ تخلیق (creation plan of God) سے لوگوں کو باخبر کرے۔ وہ ہر زمانے اور ہر نسل میں اِس دعوتی کام کو جاری رکھے۔ یہ دعوتی مشن ہی وہ مشن ہے جس کی ادائیگی پر امتِ محمدی کا ’امت محمدی‘ ہونا متحقق ہوتا ہے۔
اس معاملے میں امت کے لیے دعوتی عمل کے تین درجے ہیں۔ امت کے ہر فرد کو اپنی صلاحیت کے اعتبار سے ان میں سے کسی درجے میں اپنے داعی ہونے کی حیثیت کو ثابت شدہ بنا نا ہے۔ جو لوگ اس عمل میں شرکت نہ کریں، ان کے دوسرے اعمال خدا کی نظر میں بے قیمت ہوجائیں گے۔ اس معاملے میں خدا کا جو معیار ہے، وہ پیغمبر اور پیغمبر کی امت دونوں کے لیے یکساں ہے۔
اس معاملے کا پہلا درجہ وہ ہے جس کو شریعت میں نیت کہاجاتا ہے، یعنی نیت کے اعتبار سے دعوت کے عمل میں شریک ہونا۔ تاہم یہ نیت کسی لفظی تکرار کا نام نہیں، یہ دل کی گہرائیوں کے ساتھ تڑپنے کا نام ہے۔ ہرمومن کے لیے ضروری ہے کہ وہ دوسری قوموں کی ہدایت کا حریص ہو۔ وہ ان کی گمراہیوں کو دیکھ کر بے چین ہوجائے۔ وہ اپنی تنہائیوں میں ان کی ہدایت کے لیے دعا کرے۔ یہ جذبہ اتنا شدید ہو کہ اس پر سوچتے ہوئے اس کی آنکھوں سے آنسو ابل پڑیں۔
دوسرا درجہ یہ ہے کہ اہل ایمان شدت کے ساتھ اس کا ہتمام کریں کہ ان کی ذات کسی بھی اعتبار سے دعوت کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے۔ وہ کوئی بھی ایسا عمل نہ کریں جو لوگوں کے دل میں اسلام کے خلاف نفرت اور بیزاری پیدا کر دے۔ وہ ایسے ہر عمل سے مکمل پرہیز کریں جو داعی اور مدعو کے درمیان کشیدگی پیدا کرنے والا ہو۔ وہ ہر حال میں اس کا اہتمام کریں خواہ اس کے لیے انھیں قومی یا اقتصادی یا سیاسی نقصان ہی کیوں نہ اٹھانا پڑے۔
تیسری چیزبراہِ راست دعوت ہے، یعنی خدا کے بندوں کو دین ِ حق کی طرف بلانا۔
دعوت اورتبلیغ کو قر آن میں دعوت الی اللہ کہا گیا ہے، یعنی اللہ کی طرف بلانا، انسان کو اس کے خالق اور مالک کے ساتھ جوڑنا۔ اللہ کی طرف بلانے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے بندوں کو یہ بتایا جائے کہ اللہ کی زمین پر تمھارے لیے زندگی کا صحیح طریقہ صرف یہ ہے کہ تم اللہ کے بندے بن کررہو۔
انسان کے لیے دنیا کی زندگی میں صرف دو رویّے ممکن ہیں۔ ایک، خود رخی اور دوسرا، خدارخی۔ خود رخی زندگی (self-oriented life) میں گھمنڈاور حسد اور انانیت جیسے جذبات جاگتے ہیں۔ انسان یہ سمجھنے لگتا ہے کہ حق وہ ہے جس کو وہ حق سمجھے اور باطل وہ ہے جس کو وہ باطل قرار دے۔
خدا رخی زندگی (God-oriented life)کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ خدا رخی زندگی آدمی کے اندر عبدیت، تواضع، اعتراف اور خوداحتسابی جیسے جذبات ابھارتی ہے۔ پہلی صورت میں انسان اگر خودپرست بن جاتا ہے تو ودوسری صورت میں خداپرست۔
دعوت الی اللہ یہ ہے کہ انسان کو خود رخی زندگی کے برے انجام سے آگاہ کیا جائے اور اس کو خدا رخی زندگی اختیار کرنے کی دعوت دی جائے۔ ان دونوں قسم کی زندگیوں کو جاننے کا معتبر اور مستند ماخذ خدائی تعلیمات ہیں، جو قرآن اور سنت کی صورت میں محفوظ طورپر ہمارے پاس موجود ہیں۔
دعوت الی اللہ کا کام ایک خالص اُخروی نوعیت کا کام ہے۔ قومی یا اقتصادی یا سیاسی معاملات سے براہِ راست اس کا کوئی تعلق نہیں۔ یہ انسان کو خدا اور آخرت کی طرف بلانے کی ایک مہم ہے۔دعوت الی اللہ کا کام اپنی حقیقت کے اعتبار سے ایک خالص خدائی کام ہے۔ ضروری ہے کہ اس کو اسی اسپرٹ کے ساتھ انجام دیا جائے۔ اس اسپرٹ کے بغیر جو کام کیا جائے ،وہ دعوت الی اللہ کا کام نہ ہوگا، خواہ اس کو دعوت الی اللہ کے نام پرجاری کیاگیا ہو۔
دعوت الی اللہ نہ سیاست کی طرف بلانے کا کام ہے اور نہ قومی مسائل کی طرف بلانا اس کا نشانہ ہے۔ یہ مکمل طورپر خدا کی طرف بلانے کا ایک کام ہے اور اسی خاص صورت میں اس کو ادا کیا جانا چاہیے۔
خدا کی طرف بلانے سے کیا مراد ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ انسان کو خدا کے تخلیقی منصوبہ سے آگاہ کیاجائے۔ اس کو بتایا جائے کہ خدا کے ساتھ اس کا کیا تعلق ہے اور خدا آئندہ اس کے ساتھ کیا معاملہ کرنے والا ہے۔ یہ گویا انسان کو خدا سے متعارف کرنے کا ایک کام ہے۔ دعوت کا نشانہ یہ ہے کہ خدا کے بارے میں انسان کی غفلت ٹوٹے، اور وہ اپنی بندگی کا ادراک کرکے خدا کی طرف متوجہ ہوجائے۔اِس دعوتی عمل کا نشانہ یہ ہے کہ انسان خدا کی ذات کو پہچانے۔ وہ خدا کی قدرت کے مقابلے میں اپنے عجز کو دریافت کرے۔ غیب کا پردہ پھاڑے جانے سے پہلے وہ خدا کامشاہدہ کرے۔ خدا سے براہِ راست سابقہ پیش آنے سے پہلے وہ بالواسطہ طور پر خدا کی معرفت حاصل کرے۔
دعوت کا مقصد انسان کے اندر سوئی ہوئی روح کو جگانا ہے۔ يه بھٹکے ہوئے انسان کو خدا کی طرف جانے والے سیدھے راستے پر کھڑا کرنا ہے۔ دعوت کا مقصد یہ ہے کہ انسان کے اندر اُس بصیرت کو جگایا جائے جو کائنات کی نشانیوں میں خدا کے جلوؤں کو دیکھنے لگے، جو مخلوقات کے آئینے میں اس کے خالق کو بلا حجاب پالے۔دعوت ایک انسان کو اس قابل بنانے کا نام ہے کہ وہ براہِ راست اپنے رب سے مربوط ہوجائے۔اس کو روحانی سطح پر خدا کا فیضان (divine inspiration) پہنچنے لگے۔ اس کے دل و دماغ خدا کے نور سے منور ہوجائیں۔ اس کا پورا وجود خدا کی رحمت کی بارش میں نہا اٹھے۔
دعوت کا نشانہ یہ ہے کہ آدمی دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی مخلوق بن جائے، وہ دنیا کی عظمتوں میں خدا کی عظمت كو دریافت کرے، وہ دنیا کی نعمتوں میں جنت کی نعمتوں کا تجربہ کرنے لگے۔ دنیا کی تکلیفیں اس کو جہنم کی تکلیف یاد دلائیں۔ دنیا کے مناظر اس کو آخرت کی حقیقتوں کا مشاہدہ کرانے لگیں— یہی دعوت کا نشانہ ہے اور ایسے ہی انسانوں کو وجود میں لانا دعوت اور داعی کی کامیابی ہے۔
قرآن میں بتایا گیا ہے کہ اللہ نے انسان کو ’احسنِ تقویم‘ کی صورت میں پیدا کیا، پھر اس کو گرا کر ’اسفل سافلین‘ میں ڈال دیا (95:4-6)۔ دعوتی عمل کا مقصد انسان کو دوبارہ اس کی اصل ابتدائی حالت کی طرف لوٹانا ہے، جنت سے نکالے جانے کے بعد دوبارہ اُس کو جنت کے راستے پر ڈالنا ہے، خدا کی رحمت سے دور ہونے والوں کو دوبارہ خدا کی رحمت کے سایے میں پہنچا دینا ہے۔
انسان کی مثال ایسی ہے جیسے پانی کی ایک مچھلی جس کو پانی سے نکال کر صحرا میں ڈال دیا جائے۔ ایسی مچھلی صحرا میں مسلسل تڑپ رہی ہوگی۔ اور اس کے ساتھ بہترین ہمدردی یہ ہوگی کہ اس کو دوبارہ پانی کی طرف لوٹا دیا جائے۔انسان بھی اسی طرح جنت کی ایک مخلوق ہے۔ اس کے اندر ایک نامعلوم آئڈیل کو پانے کا جذبہ بے پناہ حد تک پایا جاتا ہے۔ ہر آدمی اپنے اس نامعلوم آئڈیل کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔ وہ بار بار دنیوی رونق والی کسی چیز کی طرف لپکتا ہے، اس امید میں کہ وہ جس آئڈیل کی تلاش میں ہے، وہ شاید یہی ہے، مگر ہر بار اسے ناکامی ہوتی ہے، یہاں تک کہ وہ مرجاتا ہے، بغیر اس کے کہ اس نے اپنے آئڈیل کو پایا ہو۔
یہی وہ مقام ہے جہاں داعی کو اپنا دعوتی عمل انجام دينا ہے۔ داعی کا کام یہ ہے کہ وہ انسان کو بتائے کہ وہ جس آئڈیل کی تلاش میں ہے، وہ صرف خدا اور اس کی جنت ہے۔ یہ صرف خدا ہے جس کو پاکر آدمی اپنے آئڈیل (ideal)کو پائے گا۔ یہ صرف جنت ہے جہاں پہنچ کر آدمی اس اطمینان سے دوچار ہو گاکہ وہ جس دنیا کی تلاش میں تھا، وہ دنیا اسے حاصل ہوگئی۔
اس اعتبار سے ہر انسان داعی کا نشانہ ہے۔ داعی کو ہر فرد تک پہنچنا ہے۔ اسے ہر آنکھ پر پڑے ہوئے پردے کو ہٹانا ہے۔ گویا دنیا میں اگرسات بلین انسان ہیں تو داعی کو سات بلین کام کرنا ہے۔ اسے سات بلین روحوں کو ان کے خدا سے ملانا ہے۔ اسے سات بلین انسانوں کو ان كي جنتی قیام گاہ تک پہنچانے کی کوشش کرنا ہے۔
داعی وہ ہے جو زندگی کے راستوں پر روشنی کا مینار بن کر کھڑا ہوجائے، جو انسانیت کے بھٹکے ہوئے قافلوں کے لیے خدائی رہنما بن جائے۔ قرآن کی سورہ الذاريات میں پیغمبر کی زبان سے کہاگیا ہے کہ:ففرّوا إلی اللہ إنّي لکم منہ نذیر مبین (51:50) یعنی اے لوگو! اللہ کی طرف دوڑو، میں اس کی طرف سے تمھارے لیے ایک کھلا ہوا ڈرانے والا ہوں۔ اسی بات کو دوسری جگہ قرآن میں ان الفاظ میں بیان کیاگیا ہے :اعبدوا اللہ واجتنبوا الطّاغوت (16:36)یعنی اے لوگو! اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت سے بچو۔
اس دنیا میں انسان دو پکاروں کے درمیان ہے۔ ایک، خدا کی پکار اور دوسرے، طاغوت(شیطان ) کی پکار۔ خدا خیر کا سرچشمہ ہے۔ وہ لوگوں کو خیر کی طرف بلا رہا ہے۔ اس کے برعکس، شیطان شر کا سرچشمہ ہے۔ وہ لوگوں کو شر کے راستوں کی طرف بلاتا ہے۔ آدمی کا امتحان یہ ہے کہ وہ شیطان کے فریب میں نہ آئے اور شیطان کو چھوڑ کر وہ خدا کی طرف دوڑ پڑے۔
موجودہ دنیا میں ہر آدمی اسی دو طرفہ تقاضے کے درمیان ہے۔ ہر آدمی ایک داخلی جنگ کے محاذ پر کھڑا ہوا ہے۔ ایک طرف اس کا ضمیر (conscience)ہے جو اس کو خداکی طرف کھینچتا ہے۔ دوسری طرف اس کی انا(ego) ہے جو اس کودھکیل کر شیطان کی طرف لے جانا چاہتی ہے— ضمیر خدا کا نمائندہ ہے اور انانیت شیطان کی نمائندہ۔
داعی کا کام یہ ہے کہ وہ انسان کو اس حقیقت سے آگاہ کرے۔ وہ انسان کے اندر ذہنی بیداری لا کر اس کو اس قابل بنائے کہ وہ اس دو طرفہ تقاضے کو پہچانے۔ وہ اپنی انانیت پر روک لگائے اور ضمیر کی آواز کو تقویت دے۔ وہ شیطان کی ترغیبات سے بچ کر خدا کے اُس راستے کا مسافربن جائے جو اس کو جنت کی طرف لے جانے والا ہے— یہ دعوتی کام زمین پر ہونے والے تمام کاموں میں سب سے زیادہ اہم ہے۔ یہ پیغمبروں والا کام ہے۔ جو لوگ اس کام کے لیے اٹھیں، اُن کو نہایت خصوصی انعامات سے نوازا جائے گا۔
قرآن کی سورہ نمبر7 میں اصحابِ اعراف کا ذکر ہے، یعنی بلندیوں والے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو قیامت کے دن اونچے منبروں پر کھڑے کیے جائیں گے۔ اور اہلِ جنت اور اہلِ دوزخ دونوں کے بارے میں خدا کے فیصلے کا اعلان کریں گے۔ ان آیا ت کا ترجمہ یہ ہے ’’اور اعراف کے اوپر کچھ لوگ ہوں گے جو ہر ایک کو ان کی علامت سے پہچانیں گے۔ اور وہ جنت والوں کو پکار کر کہیں گے کہ تم پر سلامتی ہو۔ وہ ابھی جنت میں داخل نہیں ہوئے ہوں گے، مگر وہ اس كے امیدوار ہوں گے۔ اور جب دوزخ والوں کی طرف ان کی نگاہ پھیری جائے گی تو وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب، ہم کو شامل نہ کرنا ان ظالم لوگوں کے ساتھ۔ اور اعراف والے ان لوگوں کو پکاریں گے جنھیں وہ ان کی علامت سے پہچانتے ہوں گے۔وہ کہیں گے کہ تمھارے کام نہ آئی تمھاری جماعت اور تمھارا اپنے کو بڑا سمجھنا۔ کیا یہی وہ لوگ ہیں جن کی نسبت تم قسم کھا کر کہتے تھے کہ ان کو کبھی اللہ کی رحمت نہ پہنچے گی۔ جنت میں داخل ہوجاؤ، اب نہ تم پر کوئی ڈر ہے اور نہ تم غم گین ہوگے‘‘ ۔ (7:46-49)
اس آیت میں اصحاب اعراف سے مراد شہدا ہیں، یعنی خدا کے وہ خاص بندے جنھوں نے دنیا میں قوموں کے اوپر خدا کے دین کی گواہی دی اور پھر کسی نے مانا اور کسی نے انکار کیا (تفسیر القرطبی، 7/211)۔
ان شہدا کے لیے قرآن میں مختلف الفاظ آئے ہیں۔ مثلاً منذر، مبشر، داعی، وغیرہ۔ اس گروہ میں اولاً انبیا شامل ہیں اور اس کے بعد اللہ کے وہ خاص بندے جنھوں نے انبیا کے نمونے کو لے کر اپنے زمانے کے لوگوں پر دعوت اور شہادت کا کام انجام دیا۔
تاہم قیامت میں لوگوں کے ابدی انجام کا جو فیصلہ ہونے والا ہے، وہ اُسی کارِ شہادت (دعوت) کی بنیاد پر ہوگا جو دنیا میں ان کے اوپر انجام دیا گیا تھا۔ یہ کارِ شہادت دنیاہی میں انسانوں کو دو گروہوں میں بانٹ رہا ہے۔ ایک، اس کو قبول کرنے والے اور دوسرے، اس کا انکار کرنے والے۔ قیامت میں یہ دوسرے قسم کے لوگ ایک دوسرے سے الگ کردیے جائیں گے۔ اور پھر دونوں کے لیے ان کے عمل کے مطابق، دو مختلف انجام کا فیصلہ کیا جائے گا۔
یہ فیصلہ اگر چہ تمام تر خدا کا فیصلہ ہوگا۔ تاہم اس فیصلے کا اعلان اُنھیں خصوصی بندوں کے ذریعے کرایا جائے گا جنھوں نے دنیا میں دعوت اور شہادت کا کام انجام دیا تھا۔ یہ ان کے حق میں ایک غیرمعمولی اعزاز ہوگا۔ اس اعلان کے لیے قیامت کے میدان میں اونچے اسٹیج بنائے جائیں گے جن کے اوپر یہ اصحاب اعراف کھڑے ہوں گے۔ وہاں سے وہ ہر ایک کو دیکھیں گے اور ہر ایک کے بارے میں خدائی فیصلے سے اس کو باخبر کریں گے۔
شہدا اور دُعاۃ (داعيوں)نے دنیا میں خدا کے کام کو اپنا کام سمجھ کر اس کے لیے محنت کی تھی، اس عمل کی بنا پر ان کو یہ امتیازی انعام دیا جائے گا کہ قیامت میں وہ بلندیوں پر کھڑے ہوں اور اس دعوتِ حق کے آخری انجام سے لوگوں کو باخبر کریں۔ دنیا میں وہ اپنے مقصد کے اعتبار سے بلند تھے اور قیامت میں وہ اس کے عملی انجام کے اعتبار سے بلند قرار دیے جائیں گے۔
خدا پر ایمان لانے کے بعد ایک بندے سے عملی طورپر جو کچھ مطلوب ہے، اس کو قرآن میں دو قسم کے الفاظ میں بیان کیا گیا ہے— اطاعتِ خدا، اور نصرتِ خدا۔ اطاعتِ خدا سے مراد یہ ہے کہ بندہ اُن تمام اوامر و نواہی پر عمل کرے جو خدا کی طرف سے رسول کے ذریعے بتائے گیے ہیں۔ وہ اُن تمام حکموں کو اپنی زندگی میں اختیار کرے جن کو اختیار کرنے کی خدا نے تاکید کی ہے، اور ان تمام چیزوں سے بچے جن سے بچنے کا خدا نے اپنی کتاب میں حکم دیا ہے، یا اپنے رسول کے ذریعے جن کا اعلان فرمایا ہے۔
نصرتِ خدا کا مطلب ہے خدا کی مدد کرنا۔ یہ ایک انوکھا شرف ہے جو کسی صاحب ایمان آدمی کو ملتا ہے۔ اس سے مراد وہی چیز ہے جس کو قرآن میں دعوت الی اللہ کہا گیا ہے۔ یہ چوں کہ خود خدا کا ایک مطلوب عمل ہے جو بندے کے ذریعے ادا کرایا جاتا ہے، اسی لیے اس کو نصرتِ خدا (خدا کی مدد) سے تعبیر کیا گیاہے۔
عبادت، اخلاق اور معاملات میں خدا کے احکام کی تعمیل بندے کی اپنی ضرورت ہے۔ اس کے ذریعے بندہ اپنی بندگی کوثابت کرکے خدا کے انعام کا مستحق بنتا ہے، مگر دعوت الی اللہ کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ قرآن کے مطابق،یہ اللہ کے اوپر سے حجت(4:165) کو اٹھانا ہے۔ امتحان کی مصلحت کی بنا پر یہ کام انسانوں کے ذریعے ادا کرایا جاتا ہے۔ یہ ایک خدائی عمل ہے جس کو کچھ انسان خدا کی طرف سے انجام دیتے ہیں اور پھر خدا کے یہاں سے وہ اس کا انعام پاتے ہیں۔
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلا شبہہ ساری دنیا کے لیے خدا کے پیغمبر ہیں، مگر آپ ایک محدود مدت تک دنیا میں رہے ،اس کے بعد آپ کی وفا ت ہوگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کی امت آپ کے اس کام کی ذمے دارہے۔ اپنی زندگی میں آپ نے براہِ راست طورپر اس کام کو انجام دیا۔ آپ کے بعد یہ کام بالواسطہ طورپر آپ کی امت کے ذریعے انجام پائے گا۔ آپ کی امت کی لازمی ذمے داری ہے کہ وہ نسل در نسل ہر زمانے کے لوگوں کے سامنے اُس دین کا پیغام پہنچاتی رہے، جو دین آپ خدا کی طرف سے لائے اور جو قیامت تک اسی حال میں محفوظ رہے گا۔
اس معاملے کی مزید تشریح ایک حدیث سے ہوتی ہے جس کو مشہور سیرت نگار محمد بن اسحاق (وفات768: ء) نے نقل کیا ہے۔ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت مسیح کے دعوتی مشن کے بارے میں بھی فرمایا ہے اور خود اپنے بارے میں بھی۔ اس حدیث کا ترجمہ یہ ہے’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ (623ء) کی ادائیگی کے بعد ایک دن اپنے اصحاب کے سامنے آئے۔ آپ نے فرمایا کہ اے لوگو، اللہ نے مجھ کو تمام دنیا کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے، پس تم اس معاملے میں مجھ سے اختلاف نہ کرو، جیسا کہ مسیح کے حواریوں نے اختلاف کیا تھا۔ آپ کے اصحاب نے کہا کہ اے خدا کے رسول، حواریوں نے کس طرح اختلاف کیا تھا۔ آپ نے فرمایا کہ مسیح نے اپنے حواریوں کو اُس کام کی طرف بلایا جس کی طرف میں نے تم کو بلایا ہے، پس مسیح نے جس کو قریبی مقام پر جانے کے لیے کہا، وہ راضی رہا اور تیار ہوگیا اور جس کو دور کے مقام پر جانے کے لیے کہا تو اس نے ناگواری ظاہر کی اور وہ اُس پر گراں گزرا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اصحاب کو مختلف سرداروں اور حاکموں کی طرف اپنی دعوت کے ساتھ روانہ کیا۔ابن اسحاق کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے اصحاب کے سامنے آئے اور اس دعوتی کام کی طرف انھیں توجہ دلائی تو ان سے کہا کہ اللہ نے مجھ کو سارے عالم کے لیے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ پس تم میری طرف سے اس ذمے داری کو ادا کرو، اللہ تمھارے اوپر رحم فرمائے(إن الله بعثني رحمةً للناس كافةً فأدوا عني، رحمكم الله) ۔سیرت ابن ہشام، 4/278
زمین کے اوپر اور آسمان کے نیچے کسی انسان کے لیے اس سے بڑا کوئی اعزاز نہیں کہ وہ ایک ایسے کام کے لیے سرگرم ہو جوبراہِ راست طورپر خود خدا کاکام ہو، جو گویا خداوند ذوالجلال کی نیابت ہے۔ یہ بلاشبہہ ایک ایسا اعزاز ہے جس سے بڑا کوئی اعزاز ممکن نہیں۔
خدا قادر مطلق ہے۔ وہ ہر معلوم اور نامعلوم کام کو انجام دینے کی مکمل قدرت رکھتا ہے۔ وہ چاہے تو اپنے پیغام کی پیغام رسانی کے لیے پتھروں کو گویا کردے، وہ درخت کی ہر پتّی کو زبان بنادے جس سے وہ خدا کے پیغامات کا اعلان کرنے لگیں، مگر یہ خدا کا طریقہ نہیں۔ خدا یہ چاہتا ہے کہ انسانوں کے درمیان اس کے پیغام کی پیغام رسانی خود انسان ہی انجام دے، تاکہ التباس (6:9)کا پردہ باقی رہے، تاکہ امتحان کی مصلحت مجروح نہ ہونے پائے۔
اس صورت حال نے انسان کی لیے عظیم ترین عمل کا دروازہ کھول دیا ہے۔ جو لوگ دعوت کے اس خدائی عمل کے لیے اٹھیں، ان کو دنیا کی زندگی میں نہایت خصوصی مدد حاصل ہوتی ہے اور آخرت میں ان کو اعلیٰ ترین اعزازات سے نوازا جائے گا۔
ایک انسان جب نماز پڑھتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ وہ خدا کے آگے اپنے عجز کا اقرار کررہا ہے۔ اس کے مقابلے میں جب وہ دعوت الی اللہ کا کام کرتا ہے تو اس کا احساس یہ ہوتا ہے کہ وہ خود خدا کا ایک کام انجام دے رہا ہے۔ کسی انسان کے لیے بلا شبہہ اس سے زیادہ لذیذ کوئی تجربہ نہیں کہ وہ یہ محسوس کرے کہ —میں اپنے رب کے کام میں مصروف ہوں، میں اپنے رب کے ایک منصوبے کی تکمیل کررہا ہوں۔