امت کی ذمّے داری
قرآن کی سورہ الانعام میں ارشاد ہوا ہے— تم پوچھوکہ سب سے بڑا گواہ کون ہے۔ کہو اللہ، وہ میرے اور تمھارے درمیان گواہ ہے اور مجھ پر یہ قرآن اترا ہے، تاکہ میں تم کو اس سے خبردار کردوں اور اُس کو جس كو یہ (قرآن) پہنچےلأنذرکم بہ ومَن بلغ (6:19)۔
اس آیت میں پیغمبر کی زبان سے یہ کہاگیا ہے کہ ’’مجھ پر قرآن اتارا گيا ہے، تاکہ میں تم کو اس سے خبر دار کروں اور اس کو جس كو یہ (قرآن) پہنچے‘‘۔ پیغمبراسلام صلي الله عليه وسلم نے اپنے زمانہ کے لوگوں تک براہِ راست طورپر خود اپنی کوشش سے قرآن کے پیغام کو پہنچایا تھا۔ اب آپ کے بعد آپ کی امت آپ کی نیابت میں پیغام رسانی کا یہ کام انجام دے گی۔ ہر دور کے افرادِ امت اپنے زمانے کی انسانی نسلوں کے سامنے قرآن کی تبلیغ کا یہ کام انجام دیتے رہیں گے، یہاں تک کہ قیامت آجائے۔
اس سلسلے میں جو ذمے داری پیغمبر کی تھی، ٹھیک وہی ذمے داری اب امت پر عائد ہو چکی ہے۔ امت کو هر حال ميں قرآن کا پیغام تمام انسانوں تک پهنچانا هے۔ اس معاملے میں امت، خاص طورپر امت کے علما کو اس آخری حد تک جاکر یہ ثبوت دینا ہے کہ وہ عام انسانوں کی ہدایت کے حریص بن گیے ہیں۔ انھیں اپنے آپ کو اس کام میں اتنا زیادہ شامل کرنا ہے کہ بظاہر محسوس ہونے لگے کہ شاید وہ اس کوشش میں اپنے آپ کو ہلاک کر ڈالیں گے (18:6)۔
تبلیغِ عام کی یہ ذمے داری جو امت مسلمہ پر ڈالی گئی ہے، اس کی حیثیت اختیاری عمل کی نہیں ہے کہ چاہے اس کو کیاجائے یااس کو چھوڑ دیا جائے، یہ ایک ایسی ذمے داری ہے جس کو ہر حال میں ادا کرنا ہے۔ جس طرح پیغمبر کے لیے اس معاملے میں کوئی عذر قابلِ قبول نہ تھا، اسی طرح آپ کی امت کے لیے بھی اِس معاملے میں کوئی عذر قابلِ قبول نہ ہوگا، حتیٰ کہ بظاہر دوسرے دینی اعمال بھی امت کی نجات کے لیے کافی نہیں ہوسکتے، اگر وہ دعوتِ عام کے اس فریضے کو چھوڑے ہوئے ہو۔
ہزاروں انسان ہر روز مر رہے ہیں۔ اس طرح وہ اس موقع سے محروم ہورہے ہیں کہ انھیں خدا کی بات بتائی جائے اور وہ اس کو قبول کرکے خدا كي پكڑ سے بچ سکیں۔ ایسی حالت میں مسلمانوں کا لازمی فریضہ ہے کہ وہ ہر عذر کو چھوڑ کر دعوت الی اللہ کی اِس مہم کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔