شکر کی تربیت
شکر کا مزاج کیسے پیدا ہوتا ہے، اس کو ایک واقعہ سے سمجھا جاسکتا ہے۔ ایک صاحب سے ملاقات ہوئی۔ دوران گفتگو انھوں نے کہا کہ ہمارے یہاں اسلامی ذہن بنانے کے لیے بے شمار سرگرمیاں جاری ہیں، مگر پچاس سالہ کوششوں کے باوجود اب تک اسلامی انداز میں لوگوں کی ذہنی تربیت نہ ہوسکی ۔ میں نے کہا کہ مجھے آپ کے بیان کے نصف ثانی سے اتفاق ہے۔ مگر مجھے اس کے نصف اول سے اتفاق نہیں ۔صرف اسلام کا نام لینے سے اسلامی تربیت نہیں ہوتی۔ اصل یہ ہے کہ اسلامی ذہن بنانے کے لیے صحیح رخ میں کوشش نہیں کی گئی ۔ جب سمت درست نہ ہو تو مطلوب نتیجہ کیسے نکل سکتا ہے ۔ اسلامی مزاج بنانے کی ابتدا خدا کی معرفت اور خدا کے شکر کا مزاج پیدا کرنے سے ہوتی ہے۔
یہ مزاج کیسے پیدا ہوتا ہے۔اس کو ایک مثال سے سمجھا جاسکتا ہے۔ پاکستان سے شائع ہونے والے پندرہ روزہ المنبر کے شمارہ 25 ستمبر1991 میں ’’ ضیاءالحق شہید فاؤنڈیشن‘‘ کے زیراہتمام ہونے والی کانفرنس کا تفصیلی تذکرہ کیا گیا تھا۔ اس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’’ ضیاء الحق فاونڈیشن کو فوری طور پر قوم کے کردار اور فکر کی تہذیب و تربیت کا کام شروع کرنا چاہیے‘‘۔
مگر محض اس طرح اسلام کا نام لینے سے خدا کی معرفت اور اسلامی کر دار پیدا نہیں ہوسکتا۔ اس کے لیے ضرورت ہو تی ہے کہ لوگوں کو حیات و کائنات کا اس طرح مطالعہ کرایا جائے کہ ان کے گرد و پیش کی پوری دنیا ان کے لیے رزق ربانی کا دسترخوان بن جائے، تاکہ انسان خدا کی بلیسنگ کے ذریعہ خدا کی معرفت حاصل کرے، اور خدا کا شکر گزار بنے۔مگر مذکورہ میگزین میں سابق صدر جنرل ضیاء الحق صاحب کے تذکرہ کے تحت درج ہے کہ ’’یہ شہید صدر ہی تھے جن کی بدولت (سویت یونین ٹوٹنے کے بعد)قرآن مجید کے لاکھوں نسخے روس میں تقسیم ہوتے رہے‘‘(صفحہ 22)۔ المنبر میں دعوتی عمل کے واقعہ کو تمام تر ایک انسان کی بدولت ظہور میں آنے والا واقعہ بتایا گیا ہے۔
اسی واقعہ کا ذکر الرسالہ (نومبر1990 ،صفحہ27) میں بھی کیا گیا ۔ سوویت سسٹم کا تجزیہ کرتے ہوئے راقم الحروف نے لکھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی اعلیٰ تدبیروں کے ذریعہ حالات میں وہ تبدیلی پیدا کی جس کے نتیجہ میں سوویت یونین کی آہنی دیواریں ٹوٹ گئیں اور وہاں اسلام کا داخلہ ممکن ہو گیا ۔
کوئی واقعہ پیش آئے تو اس کو دیکھنے کے دو طریقے ہیں— اس واقعہ کو اکابر قوم یا قومی ہیرو کے خانے میں ڈال کر دیکھنا۔ اس کے برعکس، دوسرا طریقہ ہے اس واقعہ کوخدا کے خانہ میں ڈال کر دیکھنا ۔الرسالہ کے مضمون کو پڑھ کر آدمی کے اندرشکر خدا وندی کا جذ بہ امنڈے گا۔ مزیداس کے اندر یہ جذبہ ابھرے گا کہ موجودہ زمانہ میں اسلامی دعوت کے نئے امکانات پیدا ہوئے ہیں، ہم کو چاہیے کہ ہم ان کو استعمال کریں ۔ جب کہ المنبر کے بیان سے صرف ہیروورشپ کا جذبہ ابھرے گا، اس کے سوا اور کچھ نہیں۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ اسلامی تربیت کے لیے مسلمانوں کا موجوده طریقہ کس طرح ناکافی ہے۔
جمہوریہ مالدیپ بحر ہند میں واقع جزائر پر مشتمل ایک ملک ہے۔ دسمبر1987 میں مالدیپ کے لیے میرا ایک سفر ہوا۔ یہ سفر ایک انٹر نیشنل اسلامک کا نفرنس میں شرکت کے لیے تھا جس کا اہتمام حکومت مالدیپ کے تعاون سے کیا گیا تھا۔ 5 دسمبر1987 کی صبح کو فجر سے پہلے گھر سے روانہ ہونا تھا ۔4 دسمبر کی شام کو مختلف کاموں میں دیر ہوگئی اور میں ساڑھے بارہ بجے سے پہلے بستر پر نہ جاسکا ۔ سوتے وقت دل سے دعا نکلی کہ خدا یا مجھے تین بجےجگا دیجیے۔ تاخیر کی وجہ سے نیند بھی کسی قدر دیر میں آئی، اور میں سو گیا۔ میں بالکل گہری نیند سورہا تھا کہ خلاف معمول اچا نک نیند کھل گئی ۔ دیکھا تو گھڑی کی ایک سوئی تین پر تھی اور دوسری سوئی بار ہ پر۔میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ دل نے کہا کہ اللہ کی مدد ٹھیک اپنے وقت پر آتی ہے ، اگر چہ انسان اپنی عجلت پسندی کی وجہ سے گھبرا اٹھتا ہے اور سمجھتا ہے کہ شاید خدا کی مدد آنے والی نہیں۔