دورِسائنس، دور شکر
ماہنامہ پاپولر سائنس نیو یارک (امریکا) سے شائع ہونے والی ایک میگزین ہے۔ یہ میگزین 1872 میں شروع ہوئی، اور آج تک جاری ہے۔ اس کے قدیم شمارے گوگل بکس میں موجود ہیں۔ اس کے ایک قدیم شمارہ (مارچ 1956 ، صفحہ 2 )میں ایک پیراگراف ان الفاظ میں تھا:
From Atom to Star: Research at Bell Telephone Laboratories ranges from the ultimate structure of solids to the radio signals from outer space. Radio interference research created the new science of radio astronomy; research in solids produced the transistor and the Bell Solar Battery. Between atoms and stars lie great areas of effort and achievement in physics, electronics, metallurgy, chemistry and biology. Mechanical engineers visualize and design new devices.
اس مضمون میں ایک امریکی کمپنی، بیل ٹیلیفون لیبوریٹری میں ہونے والی سائنسی ریسرچ کا ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی ایٹم سےلے کر ستارے تک انسانی جدو جہد اورکارِنمایاں انجام دینے کے لیے فزکس، الیکٹرانکس،میٹالرجی، کیمسٹری،اوربایالوجی کا بہت بڑا میدان موجود ہے۔اس سائنسی لیبوریٹری میں میکانیکل انجینئر نئے آلات کا خاکہ بناتے ہیں اور ڈیزائن تیارکرتے ہیں۔
ایک سیکولر انسان کی حد یہاں پر ختم ہوجاتی ہے ۔ لیکن اہل ایمان کی ایک اور حد ہے۔ وہ ہے، کائناتی نشانیوں سے معرفت و شکر کی غذا حاصل کرنا۔ موجودہ زمانہ میں سائنسی ترقیوں نے ایک بہت بڑا کام انجام دیا ہے۔اس نے معرفت اور شکرکے لیے ایک نیا لامتناہی میدان کھول دیا ہے۔
مثلاً پرندوں کا فضا میں اڑنا قدرت الٰہی کی ایک عظیم نشانی ہے۔ قدیم زمانہ میں قدرت الٰہی کی اس نشانی (sign) کو صرف پراسرار عقیدہ کے تحت سمجھا جاتا تھا، مگر آج اس کو ایک سائنسی حقیقت کے طورپر سمجھا جاسکتا ہے۔ اب سائنسی دور میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ آج جب ایک ہوائی جہازفضا میں اڑکر ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچتا ہے تو اس کے لیے ہوائی جہاز سے باہر ایک بہت بڑا انفراسٹرکچر درکار ہوتا ہے۔یہی معاملہ تمام کائناتی انفراسٹرکچر کا ہے،جوتمام نقائص سے پاک (zero-defect) ہو کر زمین کےلیے لائف سپورٹ سسٹم کا کام کررہا ہے۔ یہ بلاشبہ شکر کا بہت عظیم آئٹم ہے۔(ڈاکٹر فریدہ خانم)