دور شکر
نومبر 1992 میں میرا ایک سفر ناگپور کے لیے ہوا۔ 8نومبرکو میں نے فجرکی نماز نظام الدین کی سات سو سالہ قدیم کالی مسجد میں پڑھی تھی ۔ پھر ظہرکی نماز میں نے دہلی ایرپورٹ پرپڑھی ، اور عصر کی نماز ناگپور پہنچ کر ادا کی ۔ بظاہر یہ ایک سادہ سا واقعہ ہے جو ہر روز بہت سے مسلمانوں کے ساتھ پیش آتا ہے۔ مگر جب میں نے غور کیا تو مجھے اس چھوٹے سے واقعہ میں بہت بڑا سبق چھپا ہوا نظر آیا۔ اس کامطلب یہ تھا کہ میں دہلی میں بھی اسلامی عبادت کرنے کے لیے آزاد تھا۔ اسی طرح میں راجدھانی کے ایر پورٹ پر بھی اسلامی عبادت آزادانہ طور پر کر سکتا تھا۔ اور دہلی سے گیارہ سو کیلومیٹر دور ناگپور میں بھی یہ آزادی حاصل تھی کہ میں اطمینان کے ساتھ اسلام کے بتائے ہوئے طریقہ کے مطابق اللہ کی عبادت کروں ۔
پھر اس کا مقابلہ میں نے قدیم مکی دور سے کیا جب کہ اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا۔ اس وقت پیغمبر اسلام اور اہل اسلام کو یہ آزادی حاصل نہ تھی کہ کھلے طور پر وہ نماز ادا کرسکیں۔ حتی کہ نماز باجماعت ادا کرنے کے مواقع بھی اس وقت موجود نہ تھے مگر آج تمام مسلمانوں کو مکمل طور پر دینی آزادی حاصل ہے ۔
یہ واقعہ میرے لیے ایک علامت بن گیا جس میں مجھے اسلام کی تاریخ آگے کی طرف سفر کرتی ہوئی نظر آنے لگی ۔ مجھے دکھائی دیا کہ آج مسلمانوں کی حالت لائق شکر ہے، نہ کہ لائق شکایت ۔ آج ہم اسلام کے حوصلہ افزا مرحلہ میں ہیں، نہ کہ حوصلہ شکن مرحلہ میں ۔
میں نے سوچا کہ جدید تہذیب نے انسانوں (بشمول مسلمان)کے لیے ہر اعتبار سے کتنی زیادہ آسانیاں پیدا کر دی ہیں ۔ اس کے باوجود انسان خدا کا شکر ادا نہیں کرتا۔موجودہ زمانہ میں جو چیز سب سے زیادہ اٹھ گئی ہے وہ شکر ہے۔ سائنسی دریافت ،صنعتی انفجار، اور مذہبی آزادی کے اس دور میں یہ ہونا چاہیے تھا کہ انسان ہمیشہ سے زیادہ شکر کرنے والا بن جائے ، مگربرعکس طور پر ایسا ہوا کہ وہ ہمیشہ سے زیادہ ناشکری کرنے و الا بن گیا۔ اس معاملہ میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کا کوئی فرق نہیں ہے۔