عالمی شکر

اسلام میں انسانوں کا شکر ادا کرنے کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار انسانوں کا شکر ادا کرنے کی تاکید کی ہے۔ مثلاً ایک حدیث رسول یہ ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَا ‌يَشْكُرُ ‌اللهَ مَنْ لَا يَشْكُرُ النَّاسَ(مسند احمد، حدیث نمبر 8019)۔ ابوہریرہ کی روایت کے مطابق، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اس نے اللہ کا شکر ادا نہیںكيا ، جو انسانوں کا شکر ادا نہیں کرتا۔

اس حدیث کا ایک اور مطلب بھی ہے جو ابن الاثیر الجزری (وفات 606 ھ)نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:أَن ‌اللهَ ‌لَا ‌يَقْبَلُ ‌شُكْرَ ‌الْعَبْدِ ‌عَلَى ‌إِحسانه إِليه، إِذا كَانَ الْعَبْدُ لَا يَشكُرُ إِحسانَ النَّاسِ ويَكْفُر معروفَهم(جامع الاصول، جلد2، صفحہ 559)۔ یعنی،اللہ اس بندے كا شكر قبول نہیں کرے گاكسي احسان پر،اگر وہ بنده انسانوں کے احسانات کا شکر ادا نہ کرے یا ان کے احسانات کا انکار کرے۔

غور سے دیکھا جائے تو اِس حدیث میں شکر کا ایک عالمی حکم بیان کیا گیا ہے، یعنی دنیا کے تمام انسانوں کا شکر گزار ہونا، اور ان کے لیے دل میں منفی سوچ نہ رکھنا۔ قدیم دور میں انسان ایک دوسرے پر محدود معنی میں نِربھَر (dependent)ہوتا تھا۔مگر دور جدید کو عالمی طور پر باہمی انحصار (global interdependence) کا دور کہا جاتا ہے۔ کوئی انسان کسی دوسرے انسان سے بے نیاز نہیں ، ہر انسان دوسرے انسان کا محتاج ہے۔ خواہ وہ ڈائریکٹ طور پرہو یا بالواسطہ طور پر۔

اسی حقیقت کو مولانا وحید الدین خاں صاحب نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے: اللہ نے انسانی تاریخ میں ایسے اسباب پیدا کیے کہ انسانوں کے درمیان ایک نئی ڈائیکاٹومی وجود میں آگئی۔ وہ تھی، دوست اور موید (supporter) کی ڈائیکاٹومی۔ یعنی جو لوگ دوست تھے، وہ تو دوست ہی تھے۔لیکن جو لوگ دوست نہ تھے، وہ عملاً موید (supporter) بن گئے۔یہ تبدیلی اس طرح آئی کہ جمہوریت (democracy) اور ٹکنالوجی کے ذریعہ ایسے حالات پیدا ہوئے کہ ہر آدمی کا مفاد دوسرے آدمی کے ساتھ جڑ گیا۔ پولیٹکل لیڈر کا انٹرسٹ ووٹر سے، اور ووٹر کا انٹرسٹ پولیٹکل لیڈر سے.... ٹیچر کا انٹرسٹ اسٹودنٹس سے، اور اسٹوڈنٹس کا انٹرسٹ ٹیچر سے، وغیرہ۔اس طرح دنیا میں ایک نیا باہمی انحصار کا کلچر (interdependent culture) وجود میں آیا (الرسالہ ستمبر 2017)۔

قدیم زمانے میں بھی انسان ایک دوسرے پر انحصار کرتا تھا، مگروہ بہت ہی محدود پیمانے پر تھا۔ موجودہ زمانہ میں یہ ظاہرہ، مولانا وحید الدین خاں صاحب کے الفاظ میں، ’’اپنے نقطۂ انتہا (culmination) کو پہنچ گیا ہے۔ موجودہ زمانہ مکمل طور پر باہمی مفاد (mutual interest) کے اصول پر قائم ہے۔ موجودہ زمانے میں صنعتی تہذیب کے پھیلاؤ کے نتیجے میں ایسا ہوا ہے کہ دنیا میں باہمی انحصار (interdependence) کا دور آگیا ہے۔ اب ہر ایک کو خود اپنے مفاد کے تحت دوسرے کی ضرورت ہے۔ مثلاً تاجر کو گراہک کی ضرورت ہے، اور گراہک کو تاجر کی۔ وکیل کو کلائنٹ کی ضرورت ہے اور کلائنٹ کو وکیل کی ۔ ڈاکٹر کو مریض کی ضرورت ہے، اور مریض کو ڈاکٹر کی۔ لیڈر کو ووٹر کی ضرورت ہے ،اور ووٹر کو لیڈر کی۔ کنزیومر کو بازار کی ضرورت ہے، اور بازار کو کنزیومر کی۔ کمرشیل سواری کو مسافر کی ضرورت ہے، اور مسافر کو کمرشیل سواری کی ۔ہوٹل کو سیاح کی ضرورت ہے، اور سیاح کو ہوٹل کی ۔ صنعت کو خریدار کی ضرورت ہے، اور خریدار کو صنعت کی ، وغیرہ‘‘۔  (الرسالہ ستمبر 2017)

اس واقعہ کی ایک مثال روس اور یوکرین کی جنگ ہے، جو فروری 2022 میں شروع ہوئی اور اس مضمون کے لکھے جانے تک 31 جولائی 2022 جاری ہے۔ اس جنگ کی وجہ سے پوری دنیا میں مہنگائی بڑھ چکی ہے۔حالاں کہ یوکرین اور روس زمین کے ایک محدود جغرافی رقبہ میں موجود ہیں۔ مہنگائی کا واقعہ عالمی طور پر باہمی ڈپنڈنسی کو ظاہر کرتاہے۔ اسی طرح سائنسی ٹکنالوجی تمام تر مغرب کی ایجاد ہے، مگر اس سے ساری دنیا فائدہ اٹھا رہی ہے۔ عالمی ڈپنڈنسی کی ایک اور مثال 2019 میں چین کے ایک شہر سے پھیلنے والی کرونا کی وباہے، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ پھر اس وبا سے بچاؤ کے لیے ہر انسان نے خود سے ویکسین تیار نہیں کی، بلکہ بعض ممالک کی کچھ کمپنیوں نےتیار کی، اور اس کو ساری دنیا کے انسانوں کو لگایا گیا، وغیرہ۔ عالمی انحصار(global interdependence) کا یہ ظاہرہ بتاتا ہے کہ موجودہ دور میں ہر انسان کو دوسرے انسان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔(ڈاکٹر فریدہ خانم)

Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom