شکر کے دو درجے
اِس دنیا میں انسان کو اپنے وجود سے لے کر لائف سپورٹ سسٹم (life support system) تک جو چیزیں ملی ہیں، وہ سب کا سب اللہ کا عطیہ ہیں۔ انسان کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے پورے دل وجان کے ساتھ اِن کے منعم (giver) کا اعتراف کرے۔ اِس اعتراف کا مذہبی نام ’شکر‘ ہے۔اِس کے دو درجے ہیں— ایک، نارمل شکر یانارمل اعتراف (normal acknowledgement)۔ دوسرا، تخلیقی شکر یا تخلیقی اعتراف (creative acknowledgement) ۔ نارمل شکر کی مثال یہ ہے کہ آپ کو پیاس لگی۔ آپ نے گلاس میں پانی لے کر اس کو پیا۔ اِس سے آپ کو سیرابی حاصل ہوئی اور پھر آپ نے کہا کہ خدایا، تیرا شکر ہے کہ تو نے مجھ کو پانی دیا جس سے میں اپنی پیاس بجھاؤں۔
تخلیقی شکر کی مثال یہ ہے کہ آپ نے جب پانی پیا تو آپ کو پانی کی وہ پوری تاریخ یاد آگئی جو جدید سائنس نے دریافت کی ہے، یعنی تقریباً 15 بلین سال پہلے وسیع خلا میں بے شمار ستارے (stars) وجود میں آئے۔ پھر ایک عرصے کے بعد لٹل بینگ (little bang) ہوا، جس سے موجودہ نظامِ شمسی وجود میں آیا۔ اِس کے بعد زمین کی سطح پر بہت بڑی مقدار میں ہائڈروجن گیس اور آکسیجن گیس کے بادل چھاگئے، پھر دو گیسوں کے ملنے سے وہ استثنائی چیز وجود میں آئی جس کو ’’پانی‘‘ کہاجاتا ہے۔ پھر یہ پانی سمندروں میں کھاری پانی کی حیثیت سے جمع ہوگیا، پھر بارش کے نظام کے تحت، اِس کھاری پانی کا ازالۂ نمک (desalination) ہوا۔ اِس طرح ہمیں وہ میٹھا پانی حاصل ہوا جس سے ہم اپنی پیاس بجھائیں اور دوسرے کام کریں۔ مثلاً زراعت، وغیرہ۔
پانی کے معاملے میں پہلی صورت نارمل شکر کی ہے اور دوسری صورت تخلیقی شکر کی۔ دوسرے الفاظ میں، پہلا شکر اگر صرف شکر ہے تو دوسرا شکر برتر شکر۔ شکر اور برتر شکر کا یہی معاملہ دوسری تمام چیزوں کے بارے میں پیش آتا ہے۔
اِسی طرح اِس معاملے کی ایک مثال خون (blood) ہے۔ انسان جو غذا اپنے جسم میں داخل کرتا ہے، وہ ایک پیچیدہ نظام کے تحت خون میں تبدیل ہوتی ہے، پھر یہ خون ایک اور پیچیدہ نظام کے تحت سارے جسم میں رگوں کے ذریعے مسلسل دوڑتا ہے۔ یہ بلاشبہ ربوبیت کے نظام کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔ خون کا بننا، خون کا مسلسل گردش کرنا اور خون کی صفائی کا انتظام، وغیرہ۔ یہ سب چیزیں انسان کو خدا کی نعمتیں یاد دلاتی ہیں اور وہ اللہ کے لیے سراپا شکر میں ڈھل جاتا ہے۔
قدیم زمانے میں خون کا تصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک سرخ سیال ہے جو جسم کی طاقت کے لیے جسم کے اندر گردش کرتا رہتا ہے۔ پھر یہ دریافت ہوئی کہ خون دو قسم کے ذرات سے مل کر بنتا ہے— سرخ ذرات (red blood corpuscles)، اور سفید ذرات (white blood corpuscles) ۔ اب یہ دریافت ہوئی ہے کہ خون میں اِس کے سوا، ایک اور خورد بینی ذرہ ہوتا ہے۔ اس کو پلیٹ لیٹس (platelets) کانام دیاگیاہے۔ یہ تیسرا ذرہ انسان کی زندگی اور صحت کے لیے بےحد اہم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خون ہراعتبار سے، اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ اِس نعمت کا احساس آدمی کے اندر شکر وحمد کے چشمے جاری کردیتا ہے۔
اِس قسم کے بے شمار انتظامات ہیں جن کے اوپر انسان کی زندگی قائم ہے۔ یہ نظام براہِ راست خدا کی قدرت کے تحت قائم ہے اور اِسی کو قرآن میں ربوبیت کہاگیاہے۔ یہ نظامِ ربوبیت تمام تر اللہ کی جانب سے قائم ہے۔ انسان سے یہ مطلوب ہے کہ وہ ربوبیت کے اِس نظام سے واقفیت حاصل کرے اور پورے معنوںمیں اللہ کا شاکر بندہ بن کر اِس دنیا میں رہے۔
قرآن میں بتایا گیاہے کہ رب صرف اللہ ہے اور اُسی کی ربوبیت اِس دنیا میں قائم ہے (6:164)۔اِسی طرح فرمایا کہ حکم صرف اللہ کا ہے اور تمام چیزیں اُسی کے زیر حکم ہیں(12:40)۔ یہ دونوں الفاظ (رب اور حکم) اللہ کی ذات کی نسبت سے قرآن میں آئے ہیں، اس کا کچھ بھی تعلق سیاسیات یا معاشیات سے نہیں ہے۔مگر موجودہ زمانے میں کچھ لوگوں نے یہ کیا کہ انھوں نے مذکورہ الفاظ قرآن سے لیے اور اس کے اندر اپنے خود ساختہ مفہوم کو شامل کردیا۔ یہ گویا کہ ’رب‘ اور’ حکم‘ کے لفظ کو سیاسی بنانا (politicisation) تھا۔ قرآنی الفاظ میں اِس قسم کا خود ساختہ مفہوم شامل کرکے انھوں نے یہ اعلان کیا کہ مسلمان کا یہ مشن ہے کہ وہ دنیا میں نظامِ ربوبیت یا نظامِ حاکمیت قائم کرے۔ یہ بلا شبہ ایک غیرعلمی بات ہے۔ اس کی غلطی اتنی زیادہ واضح ہے کہ وہ بداہۃً ہی قابلِ رد ہے۔