تقلید اور اجتہاد
تقلید کی دو صورتیں ہیں۔ ایک صورت اسلامی تعلیم کے مطابق ہے، اور دوسری صورت اسلامی تعلیم کے خلاف۔ یہ دونوں صورتیں قرآن کے مطالعے سے معلوم ہوتی ہیں۔ دونوں صورتوں کے متعلق، قرآن میں واضح رہ نمائی ملتی ہے۔
تقلید کی غیر محمود صورت کا ذکر قرآن کی سورہ نمبر 23 میں ہے۔ سابق حاملینِ کتاب کے اندر اُن کے زوال کے زمانے میں جو صورتِ حال پیدا ہوئی، وہ تقلید کی یہی غیر محمود صورت تھی۔ اِس کا حوالہ دیتے ہوئے قرآن میں ارشاد ہوا ہے: فتقطّعوا أمرَہم بینہم زُبراً، کُلُّ حزبٍ بما لدیہم فرحون (المؤمنون: 53) یعنی انھوں نے اپنے دین کو اپنے درمیان ٹکڑے ٹکڑے کردیا، ہر گروہ اُسی پر نازاں ہے جو اُس کے پاس ہے۔ یہ تقلید کی وہ صورت ہے جب کہ تقلیدی مزاج کے تحت لوگ گروہوں میں بٹ جائیں، ہر گروہ اپنے کو برحق سمجھنے لگے۔تقلید کی اِس قسم میں تقلید کو عقیدے کا درجہ دے دیا جاتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں لوگوں کے اندر دو شدید برائی پیدا ہوجاتی ہے۔ ایک، کٹّر پن اور دوسرے، تعصّب۔
تقلید کی محمود صورت وہ ہے جو عملی ضرورت کے تحت پیدا ہوتی ہے۔ اِس دوسری تقلید کا اصول قرآن کی اِس آیت سے اخذ ہوتا ہے: فاسئلوا أہل الذّکر إن کنتم لا تعلمون (النّحل: 43) یعنی اپنے قلّتِ علم کی تلافی کے لیے کسی معاصر عالم کو اپنا دینی رہ نما، یا دینی مُشیر بنالینا۔
موجودہ زمانے میں تقلید کی جو صورت ہے، وہ بلاشبہہ اسلامی روح کے خلاف ہے— آج کل یہ مان لیا گیا ہے کہ عبّاسی دَور کے چار امام مجتہدِمطلق تھے۔ انھوں نے جو فقہی اسکول بنائے، وہی فقہی اسکول اسلام میں آخری طورپر درست اسکول ہیں۔ حق اِنھیں چاروں کے درمیان ہے۔ اب نجات کی صرف یہ صورت ہے کہ اِن میں سے کسی ایک کی پوری طرح تقلید کی جائے۔اِس تصور نے تقلید کو عقیدے کا درجہ دے دیا۔ اور جب کسی نئی چیز کو عقیدے کا درجہ دے دیا جائے تو اُس سے مزید بہت سی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ مثلاً گر وہ بندی، تنگ نظری اور تعصب اور کٹّرپن، وغیرہ۔ تقلید کا یہ منفی نتیجہ آج عام طورپر مسلمانوں میں دکھائی دے رہا ہے۔
تقلید کا دوسرا طریقہ انسانی سماج کی ایک فطری ضرورت ہے۔ انسانی سماج ہمیشہ عوام اور خواص میں بٹا ہوا ہوتا ہے۔ عوام کا حال ہمیشہ یہ ہوتا ہے کہ ان کی پہنچ علم کے سرچشمے تک نہیں ہوتی۔ ان کی یہ ضرورت ہوتی ہے کہ معاملات میں کوئی ان کی رہ نمائی کرتا رہے۔ تقلید کی دوسری قسم اِسی ضرورت کی پیداوار ہے۔
یہ تقلید مبنی بر ضرورت ہوتی ہے، مگر اِس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے اِس کی ضرورت نہیں کہ چار اماموں کو مجتہد ِ مطلق ماناجائے۔ اور ان کے پیدا کردہ اسکول کو ابدی طور پر معیاری اسکول کا درجہ دے دیا جائے۔ یہ مقصد معاصر علما کے ذریعے پوری طرح حاصل ہوجاتا ہے۔ علمِ دین کے تسلسل کے نتیجے میں ہر جگہ عالمِ دین موجود ہوتے ہیں۔ اب عوام کو صرف یہ کرنا ہے کہ اپنے قریبی ماحول میں کسی عالمِ دین کو وہ اپنا رہ نما بنا لیں اور اس کے ذریعے اپنے معاملاتِ زندگی میں ضروری رہ نمائی حاصل کرتے رہیں۔ اِس تقسیم میں کسی عالم کو نہ مقدس کا درجہ حاصل ہوتا ہے اور نہ مجتہد کا۔ یہ علما وقتی طورپر عوام کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں اور اس کے بعد دوسرے علما آجاتے ہیں جو ہر نسل میں لوگوں کی اِس ضرورت کو پورا کرتے رہیں۔
اب اجتہاد کو لیجیے، اجتہاد کوئی پُر اسرار چیز نہیں اور نہ وہ کوئی خطرناک دائرۂ عمل ہے جس میں بعد کے لوگ داخل نہیں ہوسکتے۔ یہ دائرہ آج بھی ہر صاحبِ علم کے لیے کھلا ہوا ہے، جس طرح وہ پہلے کھلا ہوا تھا۔
اجتہاد، اسلام کی ایک ناگزیر ضرورت ہے، وہ اسلام کے اعتقادی تسلسل کے لیے لازمی شرط کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حدیث میں اجتہاد کی اتنی زیادہ حوصلہ افزائی کی گئی ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ درست اجتہاد پر بھی ثواب ہے اور نادرست اجتہاد پر بھی ثواب۔ گویا کہ اِس معاملے میں اصل اہمیت کوششِ اجتہاد کی ہے۔ یہ کوشش اسلام کے بقا اور ترقی کے لیے اتنا زیادہ ضروری ہے کہ اجتہادی خطا کا رِسک لے کر بھی اُس کو جاری رہنا چاہیے (فتح الباری، جلد 13، صفحہ 331)۔