قانونِ فطرت کو جانیے

عمران احمد اصلاحی (پیدائش1974) اعظم گڑھ میں لال گنج کے علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ عرصے سے وہ دہلی میں رہ رہے ہیں۔13 اگست 2007 کی ملاقات میں،میں نے اُن کے گھر کے حالات دریافت کیے۔ معلوم ہوا کہ اُن کے یہاں تین سال کا ایک بچّہ ہے۔ میں نے پوچھا کہ بچّے کی تعلیم کے لیے آپ نے کیا سوچا ہے۔ میرے ذہن میں یہ تھا کہ وہ کہیں گے کہ بچے کو دہلی لانا پڑے گا، کیوں کہ گاؤں میں تعلیم کا کوئی اچھاانتظام نہیں۔

مگر میری توقّع کے خلاف، انھوں نے کہا کہ ہمارے علاقے میں بہت سے اچھے اسکول کھُل گیے ہیں۔ اِن میں انگریزی کی معیاری تعلیم ہوتی ہے۔ انگریزی کے اعلیٰ معیار کو برقرار رکھنے کے لیے اُن لوگوں نے ساؤتھ انڈیا سے ٹیچروں کو بلایا ہے۔ اِسی کے ساتھ وہاں اسکول بس کا بھی اچھا انتظام ہے۔ اِس کے تحت،پِک اینڈ ڈراپ سروس (pick & drop service) قائم ہے۔ اِس لیے بچے کی تعلیم کے سلسلے میں اِن شاء اللہ، کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

میرے لیے یہ ایک نئی خبر تھی، کیوں کہ پہلے وہاں اِس قسم کی تعلیم کا انتظام موجود نہ تھا۔ مزید پوچھنے پر انھوں نے بتایا کہ اِس علاقے کے بہت سے مسلمان دُبئی وغیرہ کمانے کے لیے گیے۔ یہ لوگ تعلیم یافتہ نہ تھے، اِس لیے انھیں زیادہ تر لیبر کلاس (labour class)کا کام ملا۔ اِسی دوران انھوں نے دیکھا کہ دوسرے مقامات کے لوگ جو جدید تعلیم لے کر وہاں آئے ہیں، اُن کووہاں اچھے اچھے کام مل رہے ہیں۔

اِس تقابل اور اِس انٹریکشن (interaction)کے ذریعے اُن کے ذہن میں ایک بھونچال آیا۔ انھوں نے سوچا کہ ہم تو تعلیم یافتہ نہ ہونے کی وجہ سے لیبر کلاس کا کام کررہے ہیں اور اِسی حال میں مریں گے، مگر اب ہم کو یہ کوشش کرنا ہے کہ ہمارے بچے اور ہماری اگلی نسلیں تعلیم میں آگے بڑھیں، تاکہ وہ ترقی کی دوڑ میں دوسروں سے پیچھے نہ رہیں۔

اس سوچ کا نتیجہ یہ ہوا کہ اِن لوگوں نے اپنی کمائی کو تعلیم کے میدان میں خرچ کرنے کا فیصلہ کیا۔ انھوں نے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت، اِس علاقے میں بہت سے اسکول کھول دیے۔ باہر کے تجربے سے اُن کو یہ بھی معلوم ہوا کہ اس زمانے میں سب سے زیادہ اہمیت معیار کی ہے، اِس لیے آج صرف تعلیم کی ضرورت نہیں ہے بلکہ معیاری تعلیم (standard education)کی ضرورت ہے۔ اِس انقلابی سوچ کا یہ نتیجہ ہوا کہ اِس ایریا میں بہت سے اعلیٰ معیار کے اسکول کھل گیے۔ اب یہاں گاؤں کے بچے بڑی تعداد میں تعلیم حاصل کرنے میں مشغول ہیں۔

پچھلے ساٹھ برس کے دوران تمام مسلم لیڈر، بغیر کسی استثنا کے، صرف ایک بات کہتے رہے ہیں، وہ یہ کہ انڈیا میں مسلمانوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پیچھے دھکیلا جارہا ہے۔ انڈیا میں یہ سازش کی جارہی ہے کہ یہاں مسلمانوں کو پَس ماندہ طبقہ بن کر رہنے پر مجبور کر دیا جائے۔ مگر اِسی دوران انڈیا کے مسلمان ترقی کی دوڑ میں شامل ہوگیے، یہاں تک کہ آج انڈیا کے مسلمان تعمیر و ترقی کے معاملے میں پاکستان کے مسلمانوں سے بھی بہت آگے جاچکے ہیں۔

اوپر جس واقعے کا ذکر ہوا، وہ صرف اعظم گڑھ میں پیش نہیں آیا بلکہ وہ سارے ملک میں پیش آرہا ہے۔ آج ملک کے ہر حصے میں مسلمان تیزی سے ترقی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ واقعہ فطرت کے قانون کے تحت ہوا ہے، وہ اِس طرح کہ مسلمانوں کو دوسرے طبقوں سے انٹریکشن پیش آیا۔ انھوں نے دوسری قوموں کی ترقی کو دیکھا۔ وہ چیلنج اور مسابقت کے ماحول سے گزرے۔ ہر ایک نے چاہا کہ میری اولاد ترقی میں دوسروں سے پیچھے نہ رہے۔ اِس طرح مسلمانوں میں فطرت کا ایک عمل(process) جاری ہوا۔ یہی فطر ی عمل مذکورہ قسم کے واقعات کی صورت میں اپنا نتیجہ دکھا رہا ہے۔

یہاں یہ سوال ہے کہ کیوں ایسا ہوا کہ مسلمانوں کے نام نہاد لیڈر اس عظیم واقعے سے بے خبر رہ گیے۔ اِس کا سبب موجودہ زمانے کا میڈیا ہے۔ مسلمانوں کے یہ نام نہاد لیڈر اخباروں کو پڑھ کر اپنی رائے بناتے ہیں۔ اُن کی معلومات کا ذریعہ عام طور پرصرف اخبار کی رپورٹیں ہیں

اخبار، یا جدید میڈیا اپنے مخصوص مفادات کے تحت صرف منفی خبروں کو منتخب کرتا ہے۔ اِس کے علاوہ تاریخی عوامل، یا فطرت کے قوانین موجودہ میڈیا کا موضوع نہیں۔ ہمارے نام نہاد لیڈروں کا انحصار چوں کہ اِسی میڈیا پر ہے، اِس لیے وہ مسلم سماج کے صرف کچھ منفی پہلوؤں ہی کو جان پاتے ہیں، تاریخ کے عوامل، یا فطرت کے قوانین کے زیرِ اثر جو کچھ ہورہا ہے، اُس کی انھیں مطلق خبر نہیں۔

اِسی بنا پر ایسا ہے کہ جس زمانے میں مسلمانوں کے نام نہاد لیڈر اور نام نہاد دانش ور، مسلمانوں کے خلاف ہونے والے مظالم کی داستان سنا رہے تھے، عین اُسی زمانے میں مسلمانوں کا قافلہ کامیابی کے ساتھ ترقی کی شاہ راہ پر پہنچ گیا۔ نام نہاد رہ نما اور دانش ور، مسلمانوں کو مایوسی اور دل شکستگی کی غذا دے رہے تھے، لیکن خدا کے قائم کردہ قانونِ فطرت نے اُن کو امید اور حوصلے کے اعلیٰ مقام پر پہنچا دیا۔

موجودہ زمانے میں ایسا ہوا ہے کہ لوگوں کے لیے میڈیا (اخبار اور ٹیلی ویژن) معلومات کا ذریعہ بن گیا ہے، مگر باتوں کو جاننے کے لیے یہ صرف ایک ناقص ذریعہ ہے۔ جیسا کہ معلوم ہے، میڈیا، حقیقتِ حال کی مبنی بر صداقت رپورٹنگ کا نام نہیں ہے، میڈیا ایک انڈسٹری ہے جو اپنے تجارتی مقصد کے مطابق، کچھ منتخب واقعات کو لیتا ہے اور کچھ دوسرے واقعات کو چھوڑ دیتا ہے۔

ایسی حالت میں جو لوگ میڈیا کے ذریعے معلومات حاصل کرتے ہیں، وہ کسی معاملے کا درست تصور قائم نہیں کرپاتے۔ وہ اپنے ذاتی معاملات کے سوا، دوسرے تمام معاملات میں ہمیشہ یک طرفہ سوچ کا شکار رہتے ہیں۔

مسلمانوں کے معاملے کو، یا کسی اور معاملے کو درست طورپر سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ میڈیا کی بنائی ہوئی امیج سے باہر آکر اُس کو سمجھا جائے۔ یہ کسی معاملے میں منصفانہ رائے قائم کرنے کی لازمی شرط ہے، اس کے بغیر معاملات میں درست اور منصفانہ رائے قائم کرنا ممکن نہیں۔

Magazine :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom